ساؤتھ ایشین اولمپک گیمز کے نام سے مشہور کھیلوں کے مقابلے میں بھارت نے اپنی بہتر کاردگردگی کو مستحکم کیا اور کھیلوں کے تقریباً سبھی مقابلوں میں تمغے جیتے ہیں۔
جہاں نیپال کو سونے کے تمغے حاصل کرنے میں دوسرا مقام حاصل ہوا اور سری لنکا نے بھی ان مقابلوں میں بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہیں بھارتی ٹیم نے ان مقابلوں میں اپنی نمایاں چھاپ چھوڑی ہے۔
اس کے ساتھ ہی مالدیپ اور بھوٹان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے میں کامیاب رہے جنہوں نے تین سیریز میں 100 تمغے حاصل کیے۔
دو ہزار سات سو (2700 ) کھلاڑیوں کے ذریعہ 1119 تمغے حاصل کرنے کے بعد کھیلوں کا مقابلہ اختتام پذیر ہوا جس میں 319 سونے کے تغمے تھے۔ بھارتی ٹیم نے ابتداء سے ہی اپنی بہترین کارگردگی کو جاری رکھا۔
ساڑھے تین برس قبل منعقد بارہویں ساؤتھ ایشین گیمز میں بھارت نے باکسنگ، جوڈو، شوٹنگ، کبڈی اور دیگر کھیل میں دوسرے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اب ہماری ٹیم نے تیراکی، کشتی، ویٹ لفٹنگ، اوشو اور باکسنگ میں بھی کئی تمغے جیت کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
وہیں تیراندازی میں بنگلہ دیش، جیولین تھرو میں پاکستان اور سری لنکا نے بھی تمام مقابلوں میں عمدہ کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔
بھارت سازگار ماحول میں جنوبی ایشین کھیلوں کے تمام مقابلوں میں چاند کی طرح چمک سکتا ہے۔
بھارتی ٹیم کو 35 برس قبل شروع ہوئے ایس اے ایف میں سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والی فہرست میں اعلیٰ مقام حاصل ہوا ہے۔ ایس اے ایف کو گزشتہ دو دہائیوں سے ایس اے جی کے طور سے بھی جانا جاتا ہے۔
نو برسوں میں بھارت نے 188 تمغوں میں سے 99 طلائی تمغے حاصل کیے ہیں اور تین برسوں میں گوہاٹی اور شیلونگ میں بھارت تمغے حاصل کرنے کی فہرست میں اول رہا ہے لیکن اس بار دیگر سات ممالک کے ساتھ سخت مقابلہ کرنے کے باوجود بھارت کی کارگردگی میں کمی ہوئی ہے۔
بھارتی ٹیمز کی کارگردگی ایشین گیمز میں ناقص تھی جہاں انہوں نے 40 سے زائد ممالک کے ساتھ مقابلہ کیا تھا جبکہ کامن ویلتھ گیمز میں مختلف براعظموں کے تقریباً 70 ممالک نے حصہ لیا تھا۔
پانچ برس قبل اینچیون میں منعقد ہوئے ایشین گیمز اور گزشتہ برس منعقد ہوئے جکارتا اسپورٹ میں بھارت کو آٹھواں مقام حاصل ہوا۔
بھارت کا شمار دولت مشترکہ کھیلوں کے ممالک میں سب سے بڑے ممالک کے طور پر ہوتا ہے لیکن اپنی کارگردگی کو اعلی سطح تک پہنچانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے بھارت کی کارکردگی آسٹریلیا، انگلینڈ، کینیڈا اور اسکاٹ لینڈ جیسے ممالک کے مقابلے میں نہ کہ برابر رہی۔
سنہ 2017 کے ایشین گیمز میں ہماری ٹیم نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن لندن اولمپک میں اپنی کارگردگی کو صحیح طریقے سے انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ وہیں چین، قطر، بحرین اور برونڈی کے کھلاڑیوں نے سخت مشق کر کے بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔
بھارت جیسا بڑا ملک اپنے وقار کو اس وقت برقرار رکھ سکتا ہے جب ہماری ٹیم ساؤتھ ایشین کھیلوں میں نئے ریکارڈ قائم کرے گا اور ساتھ میں ایسے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرے جو میدان میں بہترین منصوبے کے ساتھ اترتے ہیں۔
وہیں سورینم اور برونڈی جیسے چھوٹے ممالک جو دنیا کے نقشے پر صرف سوئی کے ناکے کے برابر ہیں لیکن برسوں سے ہماری ٹیم ان کے ساتھ ناقص کارگردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
سنہ 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس میں 50 کھلاڑیوں کی حصے داری کے باوجود بھارت، لینڈر پیس کے ذریعہ صرف ایک کانسے کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن تقریباً دو دہائیوں کے بعد بھارت نے 117 کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم کو لندن اسپورٹ کے لیے بھیجھا تھا لیکن ہم وہاں بھی صرف ایک چاندی اور کانسہ کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
بھارت، 31 اولمپکس میں صرف 26 تمغے ہی حاصل کر سکا ہے۔ وہیں دوسری طرف امریکہ ہے جس کی آبادی کا چوتھا حصہ 2400 تمغہ جیت چکا ہے۔
حال ہی میں انڈین اولمپکس ایسوسی ایشن (آئی او اے) اور اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی) نے ٹوکیو اولمپکس میں کم از کم 15 سے 20 تمغے جیتنے کا دعوی کیا ہے کیونکہ روس کے ذریعہ منشیات استعمال کرنے کی وجہ سے واڈا (ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی) نے روس کی شرکت پر پابندی لگا دی ہے۔
مرکزی وزیر کھیل نے دعویٰ کیا ہے کہ سنہ 2024 کے پیرس اولمپکس میں بھارت نے دو عددی تمغے جیتنے کا ہدف طے کیا ہے اور ساتھ میں سنہ 2028 کے لاس اینجلس کے مقابلے میں بھارت کا شمار ٹاپ 10 ٹیموں میں ہوگا۔
اگر بہتر نتائج کو یقینی بنانا ہے تو کاغذات پر منصوبہ تیار کرنے کے ساتھ ہی اسے موثر طریقے سے نافذ کرنا ہوگا جس کا عمل بالکل مختلف ہے۔
وقت کی ضرورت یہ ہے کہ اصلی ہیرے کی شناخت کی جائے اور بہترین منصوبے اور ٹریننگ کے ذریعہ ان کے ہنر کو تراش کر چمکنے کے قابل بنایا جائے۔
ہمارے پاس ایسے سسٹم کی کمی ہے جو مواقع فراہم کر سکیں۔ ضرورت ہے کہ بھارت اپنے اندر میڈل جیتنے کا جذبہ اور بین الااقوامی میدان میں اپنے مقابلہ کو جاری رکھیں۔
بھارت، ملک بھر کے اسکولز اور تعلیمی اداروں میں فزیکل ٹیچرز کی خالی پوسٹ کو پُر نہیں کر سکا ہے۔ وہیں دوسری طرف کھیل کے میدان بھی تعمیر نہیں کر سکا ہے۔
اسکول کی سطح سے طلباء کو کھیل اور اس سے متعلق خصوصی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ والدین کو ان کے بچوں کے روشن مستقبل کا اعتماد دلا نا کارگر ثابت ہوگا اور بھارت کسی بھی سطح پر ہونے والے کھیلوں کے مقابلے میں جیت درج کر کے فخر کے ساتھ اپنا پرچم لہرا سکتا ہے۔