نئی دہلی: ٹیم انڈیا کے تجربہ کار سلامی بلے باز اور کپتان روہت شرما نے ونڈے ورلڈ کپ میں شکست کے بعد پہلی بار بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ میں ورلڈ کپ فائنل میں شکست کی مایوسی سے کب تک باہر نکل سکوں گا لیکن کرکٹ شائقین کی محبت اور سمجھ بوجھ نے مجھے ایک بار پھر مجھے ٹاپ پر پہنچنے کی تحریک دی ہے۔ انہوں نے ان شائقین کی تعریف کی ہے جو ٹیم کی بہترین کارکردگی کو سمجھتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں۔
روہت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس ٹاپ پر پہنچنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن ان کی اس باتوں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اگلے سال امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں بھارت کی کپتانی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ روہت شرما کا فائنل تک ایک بلے باز اور کپتان کے طور پر ورلڈ کپ کا شاندار سفر تھا، لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے 19 نومبر کو بھارت کو شکست دی۔ فائنل میں شکست کے بعد جب روہت میدان سے باہر نکل رہے تھے تو اس وقت ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں اور اسی درد کو بھلانے کے لیے وہ اپنی فیملی کے ساتھ بریک پر انگلینڈ روانہ ہو گئے تھے۔
روہت شرما نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اپنے فین پیج پر لکھا کہ فائنل میں شکست کے بعد پہلے کچھ دنوں تک میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میں اس درد سے کیسے ٹھیک ہو پاؤں گا۔ میرے خاندان اور دوستوں نے مجھے حوصلہ دیا، اس شکست کو ہضم کرنا آسان نہیں تھا لیکن زندگی چلتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ آگے بڑھنا آسان نہیں تھا۔ اس دوران لوگ میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ انہیں ٹیم پر فخر ہے اور اس وقت مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس چیز نے مجھے اس درد سے افاقہ دلا دیا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ آپ تو یہی سننا چاہتے ہیں۔
روہت نے مزید کہا، کہ جب لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کھلاڑی کس حالت سے گزر رہے ہیں اور وہ اپنی مایوسی یا غصہ نہیں نکالتے ہیں تو اس کا بھی ہمارے لیے بہت مطلب ہے۔ روہت نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے کہ شکست کے بعد لوگوں میں کوئی غصہ نہیں تھا اور ہم جب بھی لوگوں سے ملاقات کی تو انھوں نے ہم پر محبت کی بارش برسا دی۔اسی چیز نے مجھے درد تکلیف سے واپس آنے اور ایک بار پھر چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے لیے نئے سرے سے آغاز کرنے کی ترغیب دی ہے۔
ٹیم انڈیا کے کپتان روہت نے کہا کہ پورے ورلڈ کپ کے دوران ہمیں شائقین کی گراونڈ کے اندر اور باہر زبردست حمایت حاصل تھی، اس لیے بھی میں ان کی تعریف کرتا ہوں۔ لیکن میں ورلڈ کپ کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتا ہوں، مجھے اتنا ہی زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ ہم اسے جیت نہیں سکے۔میں 50 اوور کا ورلڈ کپ دیکھ کر بڑا ہوا ہوں اور یہ ورلڈ کپ میرے لیے سب سے بڑا انعام تھا۔ آپ نے 50 اوور کے ورلڈ کپ کے لیے بہت محنت کی اور اگر آپ جیت نہیں پائے تو آپ کو یقیناً مایوسی ہوگی اور جس کے خواب دیکھ رہے تھے وہ ہی ہمیں نہیں ملا۔
یہ بھی پڑھیں: