گزشتہ چند برسوں میں آئی پی ایل نے بھارت میں کھیلوں کی مضبوط صنعت کی تعمیر اور اس طرح کے ایکو سسٹم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو نہ صرف ٹورنامنٹ کے دوران بلکہ کھیلوں کے سیزن کے بعد بھی بہت سے لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے جن میں ٹکٹنگ، لاجسٹکس، فوڈ(کھانا)، سکیورٹی، کاروبار اور آفیشیل یونیفارم وغیرہ پر کام کرنے والے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میدان کے باہر بھی لوگ آئی پی ایل کی وجہ سے روزی روٹی کما رہے ہیں جس میں آئی پی ایل ٹیموں کی ٹی شرٹ، اسٹیڈیم کے باہر مختلف دکانیں لگانے والے بھی اس لیگ کی وجہ سے بہتر کمائی کرتے ہیں۔ IPL Created Employment Opportunities for People
سنہ 2008 میں جب آئی پی ایل شروع ہوا تو لیگ، کمپنیوں اور فرنچائزیز نے غیر ملکی پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کیں۔ کیونکہ مقامی ٹیلنٹ کے پاس اتنا تجربہ یا مہارت نہیں تھی کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ٹورنامنٹ چلا سکیں لیکن اب یہ بہت بدل چکا ہے۔ آج آئی پی ایل میں کام کرنے والے زیادہ تر عملے کا تعلق بھارت سے ہے۔ آئی پی ایل کے زیادہ تر مالکان یا تو صنعتکار ہیں اور فلمی ستارے ہیں اور انہیں اسپورٹس لیگ چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ تیار ہوئے ہیں اور آئی پی ایل کے 15 ویں سیزن میں فرنچائزیز 100 فیصد پیشہ ورانہ طور پر چلتی ہیں جس سے خاص ملازمتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ IPL Latest News
فٹنس ٹرینرز ہوں، فزیو تھراپسٹ ہوں، ٹورنامنٹ آپریشن اسٹاف ہوں، فوٹوگرافر ہوں یا ویڈیو گرافرز، ایسے ماہرین ہیں جو کسی بھی دوسری عالمی لیگ کی طرح آئی پی ایل کو چلانے کے مختلف پہلوؤں کا خیال رکھتے ہیں، ان کی وجہ سے آئی پی ایل نے نہ صرف کرکٹ کی ترقی میں مدد کی ہے بلکہ لیگ کی شراکت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آئی پی ایل نے ہاکی، فٹ بال، بیڈمنٹن، ریسلنگ، کبڈی، بیڈمنٹن کو بھی اپنی لیگ شروع کرنے کی ترغیب دی ہے۔ آئی پی ایل کی طرح دوسرے کھیلوں کی لیگ شروع ہونے ملازمت کے مزید مواقع پیدا کرنا ہے، کیونکہ لوگ اب کھیلوں کو سنجیدہ سرمایہ کاری اور مارکیٹنگ کے اخراجات کے ساتھ سال بھر کی سرگرمی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
رواں برس آئی پی ایل کا 15 واں ایڈیشن ہے لیکن اس سے پہلے شاید ہی کوئی سیزن آیا ہو جس میں کوئی تنازع نہ ہو۔ ہر سال اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ، کیا ٹورنامنٹ کی چمک ختم ہوگئی ہے، کیا اسپانسرز اب بھی متجسس ہیں اور کیا تماشائی اب بھی دلچسپی رکھتے ہیں؟ لیکن آئی پی ایل نے ان تمام تنازعات اور یہاں تک کہ وبائی امراض کا بھی سامنا کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئی پی ایل متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والے سخت ترین بایوببل میں ہونے والے ٹورنامنٹس میں سے ایک ہے۔
اس سیزن کے ساتھ آئی پی ایل 10 ٹیموں کا ٹورنامنٹ بن گیا ہے اور دونوں نئی ٹیموں نے بولی کے عمل کے دوران فرنچائزی کے حقوق حاصل کرنے کے لیے بھاری رقم ادا کی ہے۔ آئی پی ایل میڈیا رائٹس کے لیے ٹینڈر کے لیے دعوت نامہ (آئی ٹی ٹی) جلد ہی پیش کیا جائے گا، جس کے بعد ای نیلامی ہوگی اور صنعت کے ماہرین کے مطابق اگلے پانچ سالہ دور (2023-2027) کے لیے حقوق کی مشترکہ قیمت تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے ہوگی۔ یہ سال 2018-2022 کے لیے موجودہ رائٹس ہولڈر کی 16,347.5 کروڑ روپے کی بولی سے بہت بڑی چھلانگ ہے۔
اسکے ساتھ ہی فرنچائزی کے لیے سرمایہ کاری کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کیونکہ اب بہت سے برانڈز اور پراڈکٹس آئی پی ایل سے منسلک ہونا چاہتے ہیں جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لیگ کی برانڈ ویلیو بڑھنے والی ہے۔ مجموعی طور پر آئی پی ایل نے اپنا ایک بازار بنایا ہے، کھیل کے ماحول کو مضبوط کیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو روزگار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ واضح رہے کہ بی سی سی آئی اگلے سال سے چھ ٹیموں پر مشتمل خواتین کی آئی پی ایل کے انعقاد کا بھی منصوبہ بنا رہا ہے۔