محمدکیف نے بتایا کہ لارڈز کے میدان سے متعلق میری پہلی یاد جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب میں بیٹنگ کے لئے جارہا تھا تو شائقین گیلری سے جانے لگے تھے، کیونکہ انہیں لگا کہ سچن کےآؤٹ ہونے کے ساتھ ہی میچ ختم ہوچکا ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ الہ آباد میں میرے اہل خانہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
حتی کہ اس وقت فلم دیوداس ریلیز ہوئی تھی جو قریب کے تھیٹر میں چل رہی تھی اور میرے والد جو دلیپ کمار کے بہت بڑے فین تھے سچن کی وکٹ گرنے کے بعد شاہ رخ خان کی فلم دیوداس دیکھنے چلے گئے تھے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب میں میدان میں جا رہا تھا تو ناصر حسین نے سلیجنگ شروع کردی تھی۔ وہ بس ڈرائیور ہے۔ وہ تیندولکر کے ادھر ادھر منڈلاتا رہتا ہے۔
ان کے اس لہجے کی وجہ سے مجھے یہ سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا کہ اس نے بالکل ٹھیک کہا لیکن میں نے واضح طور پر بس 'ڈرائیور'سنا۔
میں اس وقت کوور پر قریبی فیلڈنگ کرتا تھا اور بلے بازوں سے بھی بہت بات کرتا تھا، ایک بار آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میں میری ایڈم گلکرسٹ کے ساتھ فیلڈ پر تکرار ہوئی اور اس دن میں فیلڈنگ میں کافی لطف اندوز ہوا۔
ناصر اس مرحلے پر اپنی ٹیم کی تشکیل نو کر رہا تھا اور اس نے اپنی پہلی سنچری بنائی تھی۔ وہ پرجوش تھا کہ وہ میچ جیتنے والے ہیں۔ مجھے جواب دینے کے لئے صحیح لمحے کا انتظار کرنا پڑا اور یہ میچ ہمارے جیتنے کے بعد ہوا۔ میں نے ناصر سے کہاکہ 'بس ڈرائیور کے لئے برا نہیں ؟
کیف نے مزید کہا کہ مجھے ڈریسنگ روم کا وہ منظر یاد آیا جب ہم ہدف کا تعاقب کرنے نکلے تھے۔ ہم یہ جاننے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے کہ ان دنوں کتنے ہدف کا پیچھا کرنا ہے اور یہاں ایک احساس تھا کہ 'یہاں ہم دوبارہ آغاز کرتے ہیں۔
جوش کم تھا ہمارے کوچ جان رائٹ ایک سرے پر کھڑے ہوئے تھےاور یہ کھلاڑیوں کی میٹنگ جیسی تھی۔ ہم آس پاس کھڑے ہوگئے جیسے ہی سورو گنگولی نے کہاکہ ' گھبرانا مت۔ ہم ابھی اچھی شروعات کریں گے، کوشش کریں گے کہ کوئی وکٹ نہ کھوئے۔
اور اس نے وہی کیا جو اس نے کہا تھا۔ انہوں نے کوور پر ایک چھکا لگایا، انہوں نے اور وریندر سہواگ نے ہمیں رفتار بخشی۔ لیکن پھر وکٹیں گر گئیں اور میں مڈل میں تھا۔ میں نے کبھی بھی ایسے ماحول میں نمبر سات پر بیٹنگ نہیں کی تھی، سچن بھی آؤٹ ہوگئے اور ابھی بھی 24 اوور میں 180 رنز کی ضرورت تھی۔
میں اور یوراج اپنے آپ کے لئے ایک نام بنانے کے لئے کوشاں تھے، اور ہم واقعی میں بہتر کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے یوتھ کی ٹیموں میں ایک ساتھ کھیلا تھا اور اچھی افہام و تفہیم تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مطلوبہ شرح کسی بھی مرحلے پر آٹھ سے زیادہ نہیں نکلی۔ اس نے اپنے شاٹس کھیلے، میں نے بھی ہاتھ کھولنے شروع کئے اور رنز آنے شروع ہوگئے۔ کھیل آہستہ آہستہ گھومنے لگا۔
بھارتی کرکٹ کے معاملے میں آج بڑا دن ہے۔ ٹھیک اسی دن 18 سال پہلے بھارت نے ایسی فتح درج کی تھی جس نے نوجوان نسل کو بڑے اعتماد سے بھر دیا تھا۔
اور یہ 13 جولائی کو لارڈز میں بھارت اور انگلینڈ کے مابین کھیلی جانے والی نیٹ ویسٹ ٹرافی کا آخری میچ تھا۔ ٹیم انڈیا 326 رنز کا تعاقب کر رہی تھی۔ اور جب بھارت نے 24 ویں اوور کی آخری گیند پر 145 کے اسکور پر سچن تندولکر کی وکٹ گنوا دی، تو ملک کے آدھے سے زیادہ شائقین نے اپنے ٹی وی سیٹ بند کردیئے۔
یہ دور کچھ یوں ہوا کرتا تھا جب تک سچن کریز پر رہتے اس وقت تک جیت کی امید رہتی تھی اور جب سچن آؤٹ ہوتے تو مداح ٹی وی کے سیٹ سے پیچھے ہٹ جاتے۔ اور الہ آباد میں مقیم محمد کیف کا کنبہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ کیف کے والد محمد طریف اور 73 فرسٹ کلاس کھیلنے والے بڑے بھائی محمد سیف خاندان کے باقی افراد کے ہمراہ شاہ رخ خان کی فلم دیوداس دیکھنے سینماہال گئے تھے۔
لیکن اصل تاریخ سچن کے آؤٹ ہونے کے بعد لکھی گئی تھی۔ جب ہر ایک نے امید ترک کردی، لمحہ بہ لمحہ، امید کا چراغ جلتا رہا۔ یوراج اور کیف نے چھٹی وکٹ کی رفاقت میں 106 گیندوں پر 121 ناٹ آؤٹ بنائے اور تین گیندوں اور دو وکٹیں باقی رہتے بھارت کو 326 رنز کا ہدف پر پہنچادیا اور لارڈز کی اس تاریخی فتح کو 1983 میں کپل دیو کی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد بھارت کی دوسری سب سے بڑی جیت سمجھا جاتا ہے۔
انڈیا نے یہ میچ کیا جیتا ، کیف کا سارا محلہ الہ آباد میں ڈھول اور ڈرم لے کر سینما ہال پہنچ گیا۔ سینما ہال کے باہر ہجوم امڈ پڑا ، سب حیران رہ گئے اور جب کیف کے پورے کنبے کو اس بارے میں بتایا گیا تو ان کے والد اور بڑے بھائی اور باقی ممبران خوشی سے اچھل پڑے۔
مزید پڑھیں:
ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کو چار وکٹ سے شکست دی
بھارت کی یہ لا جواب فتح اور ان کی ناقابل شکست اننگز کیف کے علاقے میں رات بھر جاری رہی۔ اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کیف کی 75 گیندوں پر ناقابل شکست 87 رن نے ان کے کیریئر کی سمت اور حالت کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ اسی کے ساتھ ہی یوراج نے 63 گیندوں پر 69 رنز بنائے تھے۔