حیدرآباد: افغانستان کرکٹ کی تاریخ میں 23 اکتوبر 2023 کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ افغانستان کی روایتی حریف پاکستان، جس کے ساتھ اس کے سفارتی اور سیاسی تعلقات اچھے نہیں ہیں، کے خلاف پہلی جیت اور ورلڈ کپ کی تاریخ میں تیسری جیت ہے۔ بھارت کی میزبانی میں جاری ورلڈ کپ 2023 میں ہی افغانستان کرکٹ ٹیم نے دفاعی چمپیئن انگلینڈ اور سابق عالمی چیمپئن پاکستان کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر بڑا اپ سیٹ کیا۔
انگلینڈ اور پاکستان کے خلاف افغانستان کی یہ جیت کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان نے ون ڈے ورلڈ کپ میں اب تک مجموعی طور پر 18 میچز ہی کھیلے ہیں جس میں سے صرف تین میچ میں انھیں کامیابی ملی ہے۔ افغانستان کی پاکستان کے خلاف جیت ورلڈ کپ کی تاریخ میں اس کی تیسری فتح ہے۔ اس سے پہلے افغانستان نے 2015 کے ورلڈ کپ میں اسکاٹ لینڈ جیسی کمزور ٹیم کو شکست دی تھی۔
پاکستان اور انگلینڈ پر تاریخی فتح کے بعد پوری دنیا میں افغان ٹیم کے چرچے شروع ہوگئے اور مبارکبادوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لیکن افغان کرکٹ ٹیم کے عروج کی کہانی سے بہت کم ہی لوگ واقف ہوں گے۔ دو سال قبل افغان کرکٹ ٹیم کے لیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کوئی اسپانسر نہیں مل رہا تھا لیکن اس کے باوجود ان کا حوصلہ کبھی بھی کم نہیں ہوا۔
افغانستان کرکٹ کی تاریخ: افغانستان کرکٹ بورڈ کی تشکیل 1995 میں پاکستان میں افغان مہاجرین دی تھی اور پھر 2001 میں افغان کرکٹ آئی سی سی سے وابستہ رکن بنا اور 2013 میں آئی سی سی کا ایسوسی ایٹ رکن بھی بن گیا۔ لیکن وہ پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ کے دوسرے درجے میں اس وقت تک کھیلتے رہے جب تک کہ انھیں آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان میں چند ٹورنامنٹ کھیلنے کے بعد افغانستان کرکٹ ٹیم نے آہستہ آہستہ ایشیا میں ٹورنامنٹ کھیلنا شروع کر دیا۔
افغانیوں کا کوئی ہوم اسٹیڈیم نہیں: افغانستان کرکٹ بورڈ کا اپنا کوئی ہوم اسٹیڈیم نہیں ہے۔ افغانستان میں برسوں کی سیاسی کشیدگی اور جنگ جیسی صورتحال کے باعث تاحال کوئی بین الاقوامی میچ نہیں ہو سکا۔ اسی وجہ سے افغانستان کی ٹیم اپنے تمام ہوم میچ دوسرے ممالک میں ہی کھیلتی ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی مستقبل قریب میں افغانستان میں کرکٹ میچوں کے انعقاد کا امکان بہت کم ہے۔
پاکستان کے خلاف فتح کے بعد افغانستان میں کافی زیادہ جشن بھی منایا گیا کیونکہ اس وقت افغانستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور سرحدی کشیدگی جاری ہے جس کا اثر کھلاڑیوں پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ میچ میں بہترین پلیئر کا ایوارڈ جیتنے والے افغان کھلاڑی ابراہیم زادران اپنا ایوارڈ پاکستان سے نکالے جانے والے افغان مہاجرین کے نام کردیا۔ جس کے بعد پاکستان میڈیا میں افغان کھلاڑی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں ااحسان فراموش تک کہا گیا۔
طالبان حکومت کرکٹ کو کھیل کے طور پر پسند تو کرتی ہے لیکن اس نے اس کھیل کے فروغ کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی۔آئی سی سی سی اور اے سی سی کے علاوہ بورڈ کو بی سی سی آئی اور دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز سے رقم ملتی ہے۔ باقی افغان کھلاڑی دنیا بھر میں منعقد ہونے والی T-20 لیگز میں کھیلتے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے کوئی اسپانسر نہیں ملا: ورلڈ کپ 2023 میں پہلے دفاعی چیمپیئن انگلینڈ اور پھر پاکستان کو شکست دینے والی افغانستان کرکٹ ٹیم کو اسپانسرز کی قطار لگ سکتی ہے۔ لیکن اس ٹیم پر ایک ایسا وقت بھی گزرا تھا جب ان کو کوئی اسپانسر نہیں مل رہا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 کے لیے افغان ٹیم کو کوئی اسپانسر نہیں ملا۔ جس کی وجہ سے افغانستان کے ہی سابق کپتان اور اسٹار آل راؤنڈر محمد نبی نے پوری ٹیم کو اسپانسر کیا تھا اور اس ٹورنامنٹ کے اپنے پہلے میچ میں قومی ترانے کے وقت محمد نبی جذباتی ہو گئے تھے۔
بھارت کی میزبانی میں ہونے والے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے افغانستان کی ٹیم کا اسپانسر امول ہے، جو بھارت کے سب سے باوقار اور قابل اعتماد ڈیری برانڈز میں سے ایک ہے۔ امول کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے دوران افغانستان کی ٹیم کی جرسی کے ساتھ ساتھ پریکٹس کٹ پر بھی نظر آتا ہے۔امول گزشتہ 2 دہائیوں سے افغانستان کو اپنا دودھ پاؤڈر اور بچوں کی خوراک بھی برآمد کرتا ہے۔ ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل افغانستان کرکٹ بورڈ کے سی ای او نصیب خان نے ایک باضابطہ بیان جاری کیا تھا جس میں امول کو افغانستان کرکٹ کا مرکزی اسپانسر بنانے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
- کیا افغانستان سیمی فائنل میں پہنچ سکے گا؟
- افغانستان کی پاکستان کے خلاف پہلی جیت
- دفاعی چمپیئن انگلینڈ کو افغانستان کے ہاتھوں شکست
افغانستان کرکٹ میں بھارت کا کردار: بھارت نے افغانستان کی کرکٹ کو بین الاقوامی سطح تک لے جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ زیادہ تر تمام افغان کھلاڑیوں نے بھارت میں ہی کرکٹ کے گڑ سیکھے ہیں کیونکہ ملک میں مسلسل تشدد کی وجہ سے میچز ممکن نہیں تھے، اس کے علاوہ کرکٹ سے متعلق سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر کھلاڑیوں نے بھارت میں ہی کرکٹ مشق کی ہے۔ جس میں حکومت ہند اور بی سی سی آئی نے بھی کافی تعاون کیا ہے۔ 2015 میں افغانستان کرکٹ ٹیم کے لیے نوئیڈا اسٹیڈیم کو ان کا ہوم گراؤنڈ بنایا گیا اور آئرلینڈ کے خلاف سیریز بھی کھیلی۔ اس کے بعد افغانستان کرکٹ بورڈ نے دہرادون اور لکھنؤ کے ایکانا کرکٹ اسٹیڈیم کو اپنے ہوم اسٹیڈیم کے طور پر استعمال کیا اور یہاں کئی میچ بھی کھیلے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ افغان کھلاڑی بھارت اور اس کے لوگوں کے لیے خصوصی محبت اور احترام رکھتے ہیں۔
افغانستان بھارت کا دوست ملک رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات بھی ہیں۔ طالبان کی حکومت سے پہلے بھارت نے افغانستان میں دو کرکٹ اسٹیڈیم قندھار اور مزار شریف میں بنانے کا عزم بھی کیا۔حکومت ہند نے 2014 میں اسٹیڈیم کے لیے 1 ملین ڈالر کی امداد کی منظوری بھی دے دی تھی لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں اسٹیڈیموں میں کام ابھی تعطل کا شکار ہے۔