ای ایس پی این کرک انفو کے پاس موجود بیان میں راشد نے نہ صرف عظیم رفیق کے ساتھ واقعہ کی یادوں کی تصدیق کی، بلکہ کسی بھی سرکاری تحقیقات میں حصہ لینے کا وعدہ کیا، جس کا مقصد نسل پرستی کے کینسر کو پوری طرح سے جڑ سے ہٹانا تھا۔
یارکشائر اور انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے اس ماہ کے شروع میں انکشاف کیا تھا کہ ان کا نام یارکشائر کی رپورٹ میں رفیق کے کلب پر نسل پرستی کے الزامات میں سامنے آیا تھا۔
وان نے اعتراف کیا کہ رفیق نے ان پر الزام لگایا ہے، جس میں انہوں نے ٹرینٹ برج میں کھیل رہے یارکشائر کی طرف سے ایشیا کے چار کھلاڑیوں کو شامل کرنے پر توجہ دی اور جواب دیا، ’’آپ بہت سارے ہیں، ہمیں اس کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، وان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
لیکن راشد کی مداخلت اہم ہے۔ نہ صرف وہ یارکشائر ٹیم کے تیسرے رکن ہیں جنہوں نے وان کا تبصرہ سنا ہے۔ پاکستان کے سابق تیز گیندباز رانا نوید الحسن پہلے ہی رفیق کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی حمایت کر چکے ہیں لیکن انگلینڈ ٹیم کے سینئر رکن راشد کے میدان میں اترنے سے معاملہ مزید گھمبیر ہوگیا ہے۔
راشد طویل عرصے سے اس بحث میں حصہ لینے سے گریز کر رہے ہیں اور اب بھی، انہوں نے اپنے کرکٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے پرائیویسی کامطالبہ کیا ہے، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے تبصروں کا وان کی ساکھ اور مستقبل پر مضر اثرات پڑے۔
انہیں بی بی سی کے ذریعہ ان کے ریڈیو 5 لائیو پروگرام، ٹفرن اینڈ وان شو سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ راشد کا پورا بیان ’’نسل پرستی زندگی کے تمام شعبوں میں ایک کینسر ہے اور بدقسمتی سے پیشہ ور کھیلوں میں بھی، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے یقینی طور سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ’’میں ٹیم کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنے کرکٹ پر جتنا ممکن ہو اتنی توجہ مرکوز کرنا چاہتا تھا، لیکن میں عظیم رفیق کی بات کی تصدیق کرسکتا ہوں، جہاں پر مائیکل وان نے ایشیائی کھلاڑیوں پر تبصرہ کیا تھا۔
(یو این آئی)