افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) کے قائم مقام چیئرمین عزیز اللہ فضلی نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں واضح پوزیشن دیں گے کہ خواتین ملک میں کرکٹ کیسے کھیل سکیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین ٹیم کی تمام 25 کھلاڑی افغانستان میں ہیں اور انہوں نے ملک نہیں چھوڑا۔
فضلی نے ایس بی ایس ریڈیو پشتو کو بتایا "ہم واضح موقف دیں گے کہ ہم خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت کیسے دیں گے۔ بہت جلد ہم اچھی خبر دیں گے کہ ہم اس پر کیسے آگے بڑھیں گے۔"
فضلی کا تازہ بیان طالبان ثقافتی کمیشن کے نائب سربراہ احمد اللہ واثق کے برعکس ہے جنہوں نے بدھ کے روز اسی ریڈیو براڈکاسٹر کو بتایا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ خواتین کرکٹ سمیت دیگر کھیل کھیلیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ "کرکٹ میں ایسی صورت حال آسکتی ہے جہاں ان کا چہرہ اور جسم پوشیدہ نہ رہیں۔"
فضلی نے کہا کہ خواتین کرکٹرز اپنے گھروں میں محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا "خواتین کرکٹ کوچ ڈیانا بارکزئی اور ان کے کھلاڑی محفوظ ہیں اور ملک میں اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ کئی ممالک نے انہیں افغانستان چھوڑنے کو کہا لیکن انہوں نے ملک نہیں چھوڑا اور اس وقت وہ سب اپنی جگہ پر ہیں۔"
فضلی نے کرکٹ آسٹریلیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سال نومبر میں ہوبارٹ میں ہونے والے افغانستان اور آسٹریلیا کی مردوں کی ٹیموں کا واحد ٹیسٹ منسوخ نہ کریں۔
تیز گیند باز محمد عامر کا انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا امکان
واضح رہے کہ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے مطابق اگر حالیہ میڈیا رپورٹس جس میں افغانستان میں خواتین کی کرکٹ پر پابندی کا عندیہ ظاہر کیا گیا تھا، یہ درست ہیں تو کرکٹ آسٹریلیا کے پاس ہوبارٹ میں کھیلے جانے والے مجوزہ ٹیسٹ میچ کے لیے افغانستان کی میزبانی نہیں کرے گا۔‘
آسٹریلیا 27 نومبر کو افغانستان کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ کی میزبانی کرنے والا تھا اور کرکٹ آسٹریلیا نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ میچ کی منصوبہ بندی اچھے سے جاری ہے۔
آسٹریلین ٹیسٹ ٹیم کے کپتان ٹِم پین نے گزشتہ روز کہا ہے کہ احتجاج کے طور پر ٹی 20 ورلڈ کپ سے افغانستان کی مردوں کی ٹیم کو نکالا جا سکتا ہے یا افغانستان کی ٹیم کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد افغانستان کرکٹ بورڈ نے کہا کہ طالبان کی پابندی کی سزا افغانستان کی مردوں کی ٹیم کو نہ دیں۔ ہمارے پاس کلچر اور مذہبی ماحول کو بدلنے کی طاقت نہیں، ہمیں تنہا نہ کریں اور ہمیں سزا دینے سے پرہیز کریں۔‘
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ضوابط کے مطابق ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی خواتین کا کرکٹ کھیلنا بھی ضروری ہے۔