اولمپک سلور فاتح پی وی سندھو نے گزشتہ سال اگست میں عالمی چمپئن شپ کا خطاب جیتا تھا لیکن اس کے بعد سے وہ کسی بھی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکیں۔
گزشتہ تقریبا پانچ ماہ میں انہوں نے صرف دو ٹورنامنٹوں کے کوارٹر فائنل میں جگہ بنائی۔ نئے سال میں سندھو نے ملیشیا ماسٹرز اور انڈونیشیا ماسٹرز ٹورنامنٹ جیتے ہیں جس میں وہ ملیشیا میں کوارٹر فائنل میں اور انڈونیشیا میں دوسرے راؤنڈ میں باہر ہو گئی تھیں۔
پریمیئر بیڈمنٹن لیگ میں حصہ لے رہی سندھو نے کہاکہ میں اپنی اعصابی طاقت پر کام کر رہی ہوں۔ کئی میچوں میں میں کافی قریب جاکر ہاری اور یقینی طور پر میں اپنی غلطیوں کو بہتر بنانے کے لئے کام کر رہی ہوں۔
مثبت بنے رہنا ضروری ہے اور زوردار واپسی بھی ضروری ہے۔سندھو کا خیال ہے کہ ایسے میں جب اس سال ٹوکیو اولمپکس کھیلا جائے گا، ذہنی طاقت کافی اہم ہو جاتی ہے۔ ورلڈ چمپئن شپ ٹائٹل جیتنے سے پہلے اور اس کے بعد سندھو بی ڈبلیو ایف ایوینٹس میں مسلسل خراب دور سے گزری ہیں۔
لیکن اس سے ان کے حوصلے پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور اب وہ زوردار واپسی کے لئے تیار ہیں۔اپنی واپسی کے لئے بی پی ایل کو اہم بتاتے ہوئے سندھو نے کہاکہ لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ اور ان کے خلاف کھیلتے ہوئے ہم کافی کچھ سیکھتے ہیں۔
ہر کھلاڑی کا مختلف مائنڈسیٹ ہوتا ہے اور ایسے میں ان کے ساتھ پریکٹس کرنے اور کھیلنے سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے۔ مفید تجاویز حاصل کرنے پر کسی بھی کھلاڑی کا کھیل تیار ہوتا ہے۔ بی پی ایل نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔
سندھو کو امید ہے کہ چنئی میں ملی شکست سے نکلتے ہوئے ان کی ٹیم حیدرآباد ہنٹرز لکھنؤ میں 26 جنوری کو اودھ واریرس کے ساتھ ہونے والے اپنے اگلے میچ کے ذریعے لیگ میں زوردار واپسی کرے گی۔
سندھو نے قومی کوچ پلیلا گوپی چند کی بیٹی گایتری گوپی چند کو 15-5، 15-5 سے شکست دی لیکن ان کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔