ETV Bharat / sitara

پھر وہ لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے

الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کے سلطان تھے مجروح سلطان پوری۔

majrooh-sultanpuri-death-anniversary-today
author img

By

Published : May 24, 2019, 10:29 PM IST


اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول،
کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا،
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ،
جب دل ہی ٹوٹ گیا،
ہم جی کے کیا کریں گے،
ہمیں تم سے پیار کتنا،
جیسےمعروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔
اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔
والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے۔
انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن مجروح نے جب ساتویں جماعت پاس کی تو ان کا عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔
اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔
اپنا دواخانہ چلا یا ،جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحتیاب کرتے تھے ۔
حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے ۔
شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا ۔
ایک مرتبہ انہوں نے سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔اس طرح، مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا سوچا ۔
پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے۔

ایسے وقت میں ان کی ملاقات جگر مراد آبادی سے ہوئی اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔
کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔
شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔
مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہ بڑھ سکی۔
اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔

مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔
اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں کیا جاتا ہے۔
جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔
مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت‘غم دئے مستقل’ 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔
اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔
پھر مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔
البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔
ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔
فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔


اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول،
کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا،
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ،
جب دل ہی ٹوٹ گیا،
ہم جی کے کیا کریں گے،
ہمیں تم سے پیار کتنا،
جیسےمعروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔
اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔
والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے۔
انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن مجروح نے جب ساتویں جماعت پاس کی تو ان کا عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔
اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔
اپنا دواخانہ چلا یا ،جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحتیاب کرتے تھے ۔
حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے ۔
شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا ۔
ایک مرتبہ انہوں نے سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔اس طرح، مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا سوچا ۔
پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے۔

ایسے وقت میں ان کی ملاقات جگر مراد آبادی سے ہوئی اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔
کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔
شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔
مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہ بڑھ سکی۔
اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔

مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔
اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں کیا جاتا ہے۔
جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔
مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت‘غم دئے مستقل’ 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔
اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔
پھر مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔
البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔
ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔
فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔

Intro:Body:

jeelani


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.