جنوبی ہند کے شہر چینئی میں چھ جنوری سنہ 1967 کو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے اے آر رحمان کے والد آر کے شنکر کیرالہ فلم انڈسٹری میں تمل اور دیگر زبان کی فلموں میں موسیقار تھے۔
اے آر رحمان بھی اپنے والد کی طرح ہی موسیقار بننا چاہتے تھے، موسیقی کی جانب بڑھتے رجحان کو دیکھ ان کے والد نے انہیں اس راہ پر چلنے کے لیے حوصلہ افزائی کی اور انہیں موسیقی کی تعلیم دینے لگے۔ ابھی وہ صرف نو برس کے ہی تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ نے اپنے شوہر کے موسیقی کے ساز و سامان کو کرایہ پر دے کر گزر بسر شروع کی۔
گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اے آر رحمان نے کم عمری میں ہی کام کرنا شروع کر دیا اس لیے انہوں نے پہلے پیانو اور پھر گتار بجانا سیکھا اور چینئی کے چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر انہوں نے اپنا ایک مقامی بینڈ ’نمیسیس ایونیو‘ بنایا۔
گھر کی ذمہ داری اور ساتھ میں موسیقی سیکھنے کا جنون ہی تھا کہ انہیں ایک تیلگو میوزک ڈائریکٹر کے ساتھ ورلڈ ٹور پر جانے کا موقع ملا۔ یہاں ان کا فن دنیا کے سامنے آیا اور پھر انہیں آکسفورڈ کی ٹرینیٹی کالج کی اسکالر شپ ملی جس نے مویقار اے آر رحمان کی موسیقی کی تشنگی کو پورا کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا اور انہوں نے موسیقی میں گریجویشن کیا۔
سنہ 1992 اے آر رحمان کے فلمی کیرئیر کے لیے اہم ثابت ہوا۔ ان کی ملاقات جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے فلمساز منی رتنم سے ہوئی جو اپنی فلم 'روجا' میں مصروف تھے اور فلم کے لیے موسیقار کی تلاش کررہے تھے انہوں نے اے آر رحمان کو موسیقی دینے کا موقع دیا۔ جس میں جنوبی ہند کے فنکار نے اپنی موسیقی سے پہلی ہی فلم میں وہ جادو دکھایا کہ انہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
اس کے بعد اے آر رحمان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بالی وڈ فلموں کی لائن لگ گئی لیکن انھوں نے ہر فلم میں کام کرنا منظور نہیں کیا۔
ان کی فلم 'دل سے' کے نغموں نے دھوم مچا دی اور گلزار کے ساتھ ان کی جوڑی جم گئی۔ رنگیلا، تال، سودیس، رنگ دے بسنتی، گرو اور جودھا اکبر وہ چند فلمیں ہیں جن کی موسیقی نے اے آر رحمان کو بالی وڈ میں بلندیوں پر پہنچا دیا۔
اے آر رحمان نے صرف بالی وڈ میں موسیقی دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نےکرناٹک موسیقی، کلاسیکل موسیقی اور جدید موسیقی ملا کر سامعین کو ایک مختلف موسیقی دینے کی کوشش کی اور اپنے انہیں امتیازات وخصوصیات کی وجہ سے وہ سامعین میں بہت مقبول ہو گئے۔
اے آر رحمان نے سنہ 2005 میں اپنا جدید آلات سے لیس ایک اسٹوڈیو بنایا جو اس وقت ایشیاء کا سب سے بڑا اسٹوڈیو مانا جاتا ہے۔ ان کی موسیقی میں کبھی مغربی دھن سنائی دیتی ہے تو کبھی آپ کو بہتے جھرنے کی صدا اور کلاسیکل موسیقی تو کبھی صوفی سنگیت تو کبھی جاز۔
سنہ 1997 میں آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اے آر رحمان نے ایک البم 'وندے ماترم' بنایا تھا جسے خوب مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
آج اے آر رحمان کی موسیقی کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں لیکن انہیں جتنے بھی ایوارڈز ملے ہیں وہ شاید کسی بھی بھارتی موسیقار کو آج تک نہیں مل سکے۔ انہیں دس مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے اور چار بار نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ پدم شری سے نوازے جا چکے ہیں۔ انہیں بافٹا، گولڈن گلوب، سیٹیلائٹ اور کرٹکس چوائس ایوارڈز مل بھی چکے ہیں۔
سنہ 2009 میں آئی فلم 'سلم ڈاگ' کے لیے بہترین موسیقی دینے پر اکیڈیمی ایوارڈز سے بھی انھیں نوازا گیا۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ پہلے بھارتی موسیقار ہیں۔