ETV Bharat / sitara

شکیل بدایونی کے گانے آج بھی لبوں پے جاری - شکیل بدایونی کی شاعری

ہندی سنیما میں بطور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا شمار ان منتخب نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے گیت، غزل، بھجن اور حب الوطنی کے گانوں سے طویل عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔

شکیل بدایونی، فائل فوٹو۔
author img

By

Published : Aug 3, 2019, 3:17 PM IST


شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست 1916کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں کے ایک مذہبی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے، اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔
معروف شاعر شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ممبئی میں ہوا تھا اور وہیں باندرہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی تھی۔ لیکن اب ان کی قبرکا کوئی نشان باقی نہیں ہے ۔ البتہ ان کے شعری نغمے آج بھی فضاﺅں میں گونج رہے ہیں اور ان کی غزلیں گلوکار ابھی بھی گاتے ہیں۔ سامعین اب بھی سنتے ہیں اور ان کے طرز ادا کی داد دیتے اور سر دھنتے ہیں۔

شکیل بدایونی علی گڑھ کے دوران قیام ہی یہ شاعری کرنے لگے تھے اور انہیں جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل ہوئی، جو ان کو اپنے ساتھ مشاعروں میں لے گئے اور پھر ممبئی کی فلمی دنیا میں داخل کر دیا۔

وشاد کے ساتھ مل کر شکیل نے درجنوں فلموں کے سینکڑوں لازوال نغمے تخلیق کیے، جن میں دلاری، دیدار، بیجوباورا، اڑن کھٹولا، آن، مدر انڈیا، گنگا جمنا، اور مغلِ اعظم جسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار اور گیت نگار کی اس جوڑی کو بھارتی فلمی صنعت کی مقبول ترین اور طویل ترین عرصے تک چلنے والی جوڑی کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔

ایک عرصے تک شکیل صرف نوشاد تک محدود رہے، تاہم 1960 میں انھوں نے دوسرے موسیقاروں کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا:

اس حوالے سے ایک بار شکیل نے کہا تھا: 'میں شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ نوشاد صاحب کے ساتھ گیت لکھنے میں مجھے عزت اور مقبولیت تو بے پناہ مل رہی تھی، لیکن میری مالی حیثیت میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی تھی۔'

شکیل بدایونی نے موسیقار روی کے لیے 'چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو' لکھا جو عروضی غلطی کے باوجود نہ صرف گلی گلی بجنے لگا بلکہ 1961 میں شکیل کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی پر ملا۔

اس کے بعد مسلسل اگلے دو سال انھیں 'حسن والے ترا جواب نہیں،‘ اور ’کہیں دیپ جلے کہیں دل،‘ پر فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں نوشاد کی شراکت میں بنائے گئے کسی نغمے پر یہ اعزاز نہیں مل سکا۔

شکیل نے ایک سو سے زائد فلموں کے لیے گانے لکھے اور ان کے گانے بے حد مقبول ہوئے، ہر شخص کی زبان پر تھے ۔ آج بھی ان گانوں کو سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔

مغل اعظم کا گانا پیار کیا تو ڈرنا کیا، اے عشق یہ سب دنیا والے بے کار کی باتیں کرتے ہیں، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی جیسے گانے کافی مقبول ہوئے۔

لیکن فلمی دنیا کی مصروفیت میں شکیل نے اپنے آپ کو بالکل ضم نہیں کر دیا تھا، وہ غزلیں بھی کہتے رہے اور ان کے 5 شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم ، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں شائع ہوئے اور کلیات شکیل کی اشاعت بھی ان کی زندگی میں ہو گئی تھی۔ شکیل اپنی کوتاہیوں اور مجبوریوں کے سلسلے میں خود کہتے ہیں۔

شکیل بدایونی کی غزلوں کے کچھ منتخب اشعار

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہیں پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت تیرے نام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظر ہے مگر آ ہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

جینا ہے تجھے جینے کے لیے اے دوست کسی عنوان سے پی
جینے کا بہانہ ایک سہی پینے کے بہانے اور بھی ہیں

غنچوں کے چٹکنے پر ہی نہ ہوں مصروف توجہ اہل چمن
کچھ نیم شگفتہ ہونٹوںپر خاموش ترانے اور بھی ہیں

ہر تیر نظر کی جنبش میں پاتا ہوں شکیل انداز جنوں
معدوم ہے اب تک جن کا نشاں کچھ ایسے نشانے اور بھی ہیں

تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا
ترک وفا کے بعد بھی میرا سلام لے لیا
ہائے یہ پیکر ہوس ہائے وہ خو گر قفس
بیچ کے جس نے آشیاں حلقہ دام لے لیا


اور ان کی آخری غزل میں جو تڑپ اور کسک ہے اسے بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔


مرے ہم نفس مرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں سوز عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دغا نہ دے

میں غم جہاں سے نڈھال ہوں میں سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال وہم سے دور ہوں مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں مجھے ڈھونڈھتی ہیں مصیبتیں
مجھے خوف ہے کہ میرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے

وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیل کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے


شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست 1916کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں کے ایک مذہبی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے، اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔
معروف شاعر شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ممبئی میں ہوا تھا اور وہیں باندرہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی تھی۔ لیکن اب ان کی قبرکا کوئی نشان باقی نہیں ہے ۔ البتہ ان کے شعری نغمے آج بھی فضاﺅں میں گونج رہے ہیں اور ان کی غزلیں گلوکار ابھی بھی گاتے ہیں۔ سامعین اب بھی سنتے ہیں اور ان کے طرز ادا کی داد دیتے اور سر دھنتے ہیں۔

شکیل بدایونی علی گڑھ کے دوران قیام ہی یہ شاعری کرنے لگے تھے اور انہیں جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل ہوئی، جو ان کو اپنے ساتھ مشاعروں میں لے گئے اور پھر ممبئی کی فلمی دنیا میں داخل کر دیا۔

وشاد کے ساتھ مل کر شکیل نے درجنوں فلموں کے سینکڑوں لازوال نغمے تخلیق کیے، جن میں دلاری، دیدار، بیجوباورا، اڑن کھٹولا، آن، مدر انڈیا، گنگا جمنا، اور مغلِ اعظم جسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار اور گیت نگار کی اس جوڑی کو بھارتی فلمی صنعت کی مقبول ترین اور طویل ترین عرصے تک چلنے والی جوڑی کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔

ایک عرصے تک شکیل صرف نوشاد تک محدود رہے، تاہم 1960 میں انھوں نے دوسرے موسیقاروں کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا:

اس حوالے سے ایک بار شکیل نے کہا تھا: 'میں شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ نوشاد صاحب کے ساتھ گیت لکھنے میں مجھے عزت اور مقبولیت تو بے پناہ مل رہی تھی، لیکن میری مالی حیثیت میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی تھی۔'

شکیل بدایونی نے موسیقار روی کے لیے 'چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو' لکھا جو عروضی غلطی کے باوجود نہ صرف گلی گلی بجنے لگا بلکہ 1961 میں شکیل کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی پر ملا۔

اس کے بعد مسلسل اگلے دو سال انھیں 'حسن والے ترا جواب نہیں،‘ اور ’کہیں دیپ جلے کہیں دل،‘ پر فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں نوشاد کی شراکت میں بنائے گئے کسی نغمے پر یہ اعزاز نہیں مل سکا۔

شکیل نے ایک سو سے زائد فلموں کے لیے گانے لکھے اور ان کے گانے بے حد مقبول ہوئے، ہر شخص کی زبان پر تھے ۔ آج بھی ان گانوں کو سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔

مغل اعظم کا گانا پیار کیا تو ڈرنا کیا، اے عشق یہ سب دنیا والے بے کار کی باتیں کرتے ہیں، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی جیسے گانے کافی مقبول ہوئے۔

لیکن فلمی دنیا کی مصروفیت میں شکیل نے اپنے آپ کو بالکل ضم نہیں کر دیا تھا، وہ غزلیں بھی کہتے رہے اور ان کے 5 شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم ، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں شائع ہوئے اور کلیات شکیل کی اشاعت بھی ان کی زندگی میں ہو گئی تھی۔ شکیل اپنی کوتاہیوں اور مجبوریوں کے سلسلے میں خود کہتے ہیں۔

شکیل بدایونی کی غزلوں کے کچھ منتخب اشعار

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہیں پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت تیرے نام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظر ہے مگر آ ہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

جینا ہے تجھے جینے کے لیے اے دوست کسی عنوان سے پی
جینے کا بہانہ ایک سہی پینے کے بہانے اور بھی ہیں

غنچوں کے چٹکنے پر ہی نہ ہوں مصروف توجہ اہل چمن
کچھ نیم شگفتہ ہونٹوںپر خاموش ترانے اور بھی ہیں

ہر تیر نظر کی جنبش میں پاتا ہوں شکیل انداز جنوں
معدوم ہے اب تک جن کا نشاں کچھ ایسے نشانے اور بھی ہیں

تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا
ترک وفا کے بعد بھی میرا سلام لے لیا
ہائے یہ پیکر ہوس ہائے وہ خو گر قفس
بیچ کے جس نے آشیاں حلقہ دام لے لیا


اور ان کی آخری غزل میں جو تڑپ اور کسک ہے اسے بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔


مرے ہم نفس مرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں سوز عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دغا نہ دے

میں غم جہاں سے نڈھال ہوں میں سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال وہم سے دور ہوں مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں مجھے ڈھونڈھتی ہیں مصیبتیں
مجھے خوف ہے کہ میرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے

وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیل کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.