فلم ساز کے آصف کو بالی ووڈ کی دنیا میں ایک ایسی فلمی ہستی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے تین دہائیوں پر محیط فلمی کیریئر میں اپنی فلموں کے ذریعے فلم بینوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
کے آصف کا فلمی کیریئر بظاہر تین چار فلموں تک ہی محدود ہے لیکن ان کے اندر کام کرنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنی شدت سے ابھرکر سامنے آتا تھا کہ فلم بینوں کے دلوں پر نقش ہو جاتا تھا۔ وہ اپنے کام کو بے نقص رکھنے میں اس قدر استغراق سے کام لیتے تھے کہ اکثر ان پر سست رفتاری کا الزام بھی لگایا جاتا تھا جس کی انہوں نے کبھی پروا نہیں کی لیکن خاص بات یہ ہے کہ جب بھی ان کی فلم پردہ کی زینت بنی تو ایک عہد کو متاثر کر گئی۔
کے آصف نے 14 جون 1922 کو اترپردیش کے اٹاوہ میں ایک متوسط طبقے کے مسلم خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ چاليس کی دہائی میں وہ اپنے ماموں جان نذیر کے پاس ممبئی آ گئے جہاں ان کی درزی کی دکان تھی۔ ان کے ماموں فلم انڈسٹری میں ہیرو ہیروئن اور دیگر اداکاروں کے لئے کپڑے سپلائی کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے بجٹ کی ایك دو فلمیں بھی بنائیں۔ اس طرح کے آصف ماموں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ انہیں اپنے ماموں کے ساتھ فلم اسٹوڈیو میں اکثر جانے کا موقع ملتا تھا۔ وہ فلمی دنیا دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ دھيرے دھیرے ان کے اندر بھی فلموں سے دلچسپی بڑھتی گئی۔
کے آصف سليم اور اناركلی کی محبت کی کہانی سے کافی متاثر تھے۔ فلموں سے دلچسپی بڑھنے پر وہ اس کہانی کو پردہ سیمیں پر لانے کا خواب دیکھنے لگے۔ 1945 میں بطور ڈائریکٹر انہوں نے فلم پھول سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پرتھوی راج کپور، ثریا اور درگا کھوٹے جیسے بڑے ستاروں والی یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔
اسی دوران كے آصف نے دلیپ کمار، نرگس اور بلراج ساہنی کے ساتھ فلم ہلچل شروع کی، جو کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم سے منسلک ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 'اپٹا' سے وابستگی اور اپنے انقلابی اور کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے بلراج ساہنی کو جیل بھی جانا پڑا۔ خصوصی انتظامات کے تحت وہ فلم کی شوٹنگ کیا کرتے تھے اور شوٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ واپس جیل چلے جاتے تھے۔
فلم 'مغل اعظم' بنانے میں تقریبا 10 سال لگ گئے۔ اس دوران سلیم انارکلی کی محبت کی کہانی پر بنی ایک اور فلم اناركلی پردہ سیمیں پر آکر سپر ہٹ بھی ہو گئی۔ باوجود یکہ 1960 میں جب مغل اعظم منظر عام پر آئی تو اس نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔
فلم کی موسیقی بے انتہا مقبول ہوئی۔ اس فلم کی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موسیقار نوشاد نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس کی پیش کش کے باوجود اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس فلم کی موسیقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
كے آصف ہر قیمت پر فلم میں نوشاد سے کام لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے جب نوشاد کو کام کرنے کے لئے اور روپیوں کا لالچ دیا تو وہ پلٹ کر بولے کہ 'کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور آپ ہر چیز خرید لیں گے۔ آپ اپنے پیسے واپس لیں، میں فلم نہیں كروں گا۔' اس پر آصف صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا 'دیکھتا ہوں کس طرح نہیں کریں گے۔ اتنے پیسے دوں گا کہ آج تک کسی نے نہیں دیئے ہوں گے۔'
اس کے بعد آصف نے جب اور پیسہ بڑھانے کے لئے اشارہ کیا تو نوشاد نے غصے میں آکر نوٹوں کا بنڈل اس طرح پھینکا کہ پورے کمرے میں نوٹ ہی نوٹ بکھر گئے۔ نوشاد کی بیوی اور نوکر نے سارے نوٹ اٹھائے تو نوشاد نے کہا 'اچھا آصف صاحب، آپ اپنے پیسے اپنے پاس رکھ لیجئے ہم فلم میں ساتھ کام کریں گے۔'
فلم مغل اعظم کی کامیابی کے بعد كے آصف نے راجندر کمار اور سائرہ بانو کے ساتھ 'سستا خون مہنگا پانی' بنانی شروع کی لیکن کچھ دنوں کی شوٹنگ ہونے کے بعد انہوں نے اس فلم کو بند کر دیا اور گرو دت اور نمی کے ساتھ لیلیٰ مجنوں کی کہانی پر مبنی فلم 'محبت اور خدا' کی عکس بندی شروع کی۔
گرو دت کی 1964 میں بے وقت موت کے بعد ان کی جگہ اداکار سنجیو کمار کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا اور 9 مارچ 1971 کو دل کا دورہ پڑنے سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کے آصف کی بیوی اختر کی کوشش سے یہ فلم 1986 میں کسی طرح ریلیز کر دی گئی۔