پہلی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کی زندگی کے جن واقعات پر یہ فلم مبنی ہے ان سے ہر خاص و عام واقف ہے چونکہ نریندر مودی جانی مانی شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کے بارے میں ہر جانکاری یا تو میڈیا کے ذریعہ یا انٹر نیٹ پر آسانی سے مل جاتی ہیں اور بچی کھچی کسر ان کے غیر سیاسی انٹرویوز پوری کر دیتے ہیں ایسے میں ایک فلم بنا کر چند واقعات کو پردہ سیمیں پر لانے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔
دوسری بات کہ فلم محض پروپیگنڈہ پھیلانے کے مقصد سے بنائی گئی ہے جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے، مودی کو لوگوں کی نظروں میں ہیرو بنا کر پیش کرنا۔ خیر! آگے بڑھتے ہیں فلم کی ٹائمنگ پر۔ ایک دن انتخابات کے نتائج اور اس کے دوسرے ہی دن فلم کی ریلیز۔ یہاں تک کہ فلم کی پبلسٹی کرنے کا طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا گیا۔
23 مئی کو انتخابات کے نتائج کے بعد فلم کے پوسٹرز نکالے گئے جن پر لکھا گیا تھا کہ 'آرہیں ہے دوبارہ پی ایم نریندر مودی، اب کوئی روک نہیں سکتا'۔
کئی بار ہم فلموں کو بہترین اداکاری کے لئے دیکھنے جاتے ہیں۔ خواہ ان کی اسٹوری لائن ہمیں پسند بھی نہ آئیں لیکن یہاں اس معاملے میں بھی فلم ناکام ہی رہی۔ فلم میں مودی کے کردار میں اداکار وویک اوبرائے نظر آرہے ہیں، جو کسی بھی صورت میں اس کردار میں فٹ نہیں بیٹھے ہیں۔ اوبرائے کو فلم سائین کرنے سے پہلے اپنا سینا 56 انچ کا کرنا چاہئے تھا۔
آخری بات یہ کہ یہ فلم حقیقت پر مبنی نظر نہیں آتی۔ عام ہندی فلموں کی طرح اس میں بھی ہیرو کو سب سے بہتر اور اس کے مقابل کو منفی دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہیں۔ فلم میں جوان مودی سابق وزیراعظم اندھرا گاندھی کو دھمکاتے ہوئے دکھائے گئے ہیں اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو ضرورت سے زیادہ خاموش دکھایا گیا ہے۔