عرفان خان فلمی دنیا کے جادوگر تھے۔قومی ایوارڈ انعام یافتہ اداکار کی بڑے پردے پر موجودگی کا احساس صرف ان کی آنکھوں کے ذریعہ ہی ہوجاتا تھا۔اپنی آخری فلم انگریزی میڈیم میں ان کا ایک ڈائیلاگ ہے جس میں وہ اپنی بیٹی یعنی رادھیکا مدن سے کہتے ہیں کہ' تیری ماں بولتی تھی آپ کی آنکھیں بڑی نشیلی ہیں' ان کی یہ ڈائیلاگ اتنی حقیقی معلوم ہوتی ہے کہ ایک بار پھر ہم ان کی جاندار اداکاری کے دیوانے ہوجاتے ہیں۔
ہندی فلمی سنیما میں دو دہائیوں سے عامر، شارخ اور سلمان خان جیسے تین خانوں نے راج کیا ہے لیکن ناقدین کے مطابق اگر اداکاری کی صلاحیت کے بارے میں بات کی جائے تو عرفان خان ان تینوں خان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ کرینہ کپور خان نے بھی کہا کہ عرفان بالی ووڈ کے سب سے بڑے خان ہیں، جو حالیہ میں ہی انگریزی میڈیم میں عرفان خان کے ساتھ بڑے پردے پر نظر آئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی اداکار اپنے نام کے پیچھے خان لکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے لیکن عرفان وہ واحد اداکار تھے جنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے نام کے پیچھے خان ہٹانا چاہتے ہیں۔انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی کنیت فلموں میں روکاوٹ کا باعث بنے۔
انہوں نے مذہبی اور تقافتی نقطہ نظر پر مبنی فلموں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا جس میں قربان، میڈ نائیٹ چیلڈرین، بلیک فرائڈے اور میرا نائر کی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ شامل ہیں۔
پدم شری ایوارڈ یافتہ اداکار کے مطابق مذہب ذاتی معاملہ ہے اور اسے کام یا کسی اور چیز کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔
پان سنگھ تومر، پِکو، تلوار، دی لنچ باکس، مقبول اور 7 خون معاف جیسی فلموں میں اداکاری کی جوہر دکھا کر عرفان نے ہندی سنیما میں اپنی ایک ایسی چھاپ چھوڑی ہے جسے کسی دوسرے اداکار کا عبور کرنا ناممکن ہے۔
انہوں نے آہستہ آہستہ مغربی سنیما میں بھی قائم کرنا شروع کردیا تھا۔لیکن سنہ 1990 دہائی کا ایک وقت تھا جب عرفان شوبز کی چمکیلی دنیا چھوڑنے پر غور کر رہے تھے۔
سنہ 2001 میں برطانوی فلمساز عاصفکپاڈیا کی دا وارئیر سے ان کو خوب پذیرائی ملی اور یہاں سے ان کے لیے نئے دروازے کھلے جس کے بعد سے عرفان نے پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔
انہوں نے دی نیمسیک، ا مائیٹی ہارٹ، سلم ڈاگ میلینر، دا امیزینگ اسپائیڈر مین، انفرینو اور جراسک والرڈ جیسی غیرملکی فلوں میں بھی نظر آئے۔
جب سنہ 2018 میں عرفان نے انکشاف کیا کہ وہ ایک نایاب بیماری میں مبتلا ہیں تو ان کے لاکھوں کروڑوں مداحوں کا دل مایوسی لبریز ہو اٹھا۔ عرفان تب سے ہی بیمار تھا جب سے ان میں نیورواینڈوکرائن ٹیومر کی تشخیص ہوئی تھی اور اسی وجہ سے وہ زیر علاج تھے۔ یہاں تک کہ وہ علاج کے لئے بیرون ملک بھی گئے۔
لیکن سوشل میڈیا میں اپنے مداحوں کے لیے لکھے گئے نوٹس سے لوگوں میں امید زندہ تھی کہ وہ جلد صحتیاب ہوجائیں گے اور جب وہ انگریزی میڈیم کی شوٹ کے دوران واپس آئے تو یہ امید اور بڑھ گئی۔حقیقت سے بے خبر فلمی صنعت اور میڈیا فلم کے پروموشن کے دوران عرفان کو دیکھنے کے لیے بےتابی سے انتظار کررہی تھی۔
ستم ظرفی یہ ہے کہ عرفان خان کے لیے انگریزی میڈیم نے ان کی زندگی کے چکر کو مکمل کردیا۔اداکار نے اپنی ولادت گاہ جئے پور سے 394 کلومیٹر ور ادئے پور میں وانگریزی میڈیم کے لیے شوٹ کیا تھا۔
بدقسمتی سے اپنے آخری دنوں میں عرفان خان اپنی والدہ کے انتقال پر سوگ منا رہے تھے۔اداکار کی والدہ سعیدہ بیگم نے سنیچر کے روز جئے پور میں آخری سانسیں لی۔تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے عرفان اپنی والدہ کی اخری رسومات میں شریک نہیں ہوپائے تھے۔
عرفان نے زندگی کی اس جنگ میں آخری دم تک ایک لڑاکا کی طرح مقابلہ کیا ہے ۔چاہے وہ پان سنگھ ٹومر ہو یا حاصل کے رنوجے سنگھ بھیا ہوں وہ ہمیشہ ان کرداروں کے ذریعہ ہمارے دل میں محفوظ رہیں گے۔