ETV Bharat / sitara

نصیر الدین شاہ ہر فن مولیٰ اداکار

نصیر الدین شاہ کا شمار بالی وڈ کے ایسے ستاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے مضبوط اداکاری کے ذریعے متوازی سنیما کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ فلموں میں بھی اپنی خاص شناخت بنائی ہے۔

naseeruddin shah
naseeruddin shah
author img

By

Published : Jul 20, 2020, 12:22 PM IST

نصیر الدین شاہ کی پیدائش 20 جولائی سنہ 1950 کو اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں ہوئی۔

نصیر الدین شاہ نے ابتدائی تعلیم اجمیر اور نینی تال سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گریجویشن کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔

سنہ 1971 میں اداکار بننے کا خواب لیے انہوں نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا جبکہ سنہ 1975 میں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز و ہدایتکار شیام بینگل سے ہوئی۔

شیام بینگل ان دنوں فلم 'نشانت' بنانے کی تیاری کر رہے تھے اور نصیر الدین شاہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے نصیر الدین شاہ کو ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا اور اپنی فلم میں کام کرنے کا موقع دیا۔

نصیر الدین شاہ
نصیر الدین شاہ

سال 1976 نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کا اہم سال ثابت ہوا اور اسی سال ان کی 'بھومیکا' اور 'منتھن' جیسی کامیاب فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ دودھ انقلاب پر بنی فلم 'منتھن' میں ناظرین کو ان کی اداکاری کے نئے رنگ دیکھنے کو ملے۔ اس فلم کی تیاری کے لیے گجرات کے تقریباً پانچ لاکھ کسانوں نے اپنی فی دن ملنے والی اجرت میں سے دو دو روپے فلم سازوں کو دیئے تھے۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

سال 1977 میں اپنے دوست بینجامن گیلانی اور ٹام الٹر کے ساتھ مل کر نصیر الدین شاہ نے موٹیلے پروڈکشن نامی ایک تھیٹر گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے سیموئل بیکٹ کی ہدایت میں پہلا ڈرامہ 'ویٹنگ فار گوڈوٹ' پرتھوی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔

سنہ 1979 میں ریلیز ہونے فلم 'اسپرش' میں ناظرین کو نصیر الدین شاہ کی اداکاری کا ایک نیا انداز دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں اندھے شخص کا کردار ادا کرنا کسی بھی اداکار کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، چہرے کے تاثرات سے ناظرین کو سب کچھ بتا دینا نصیر الدین شاہ کی اداکاری کی صلاحیت کی ایسی مثال تھی جسے شاید ہی کوئی اداکار دہرا پائے۔ اس فلم میں بہترین اور لاجواب اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سال 1980 میں آئی فلم 'آكروش' نصیرالدین شاہ کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔گووند نہلانی کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم میں نصیر الدین ایک ایسے وکیل کے کردار میں نظر آئے جو سماج اور سیاست کی پرواہ کئے بغیر ایک بے قصور شخص کو پھانسی کے پھندے سے بچانا چاہتا ہے اگرچہ اسے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سنہ 1983 میں نصیر الدین شاہ کو سائی پرانجپے کی فلم 'کتھا' میں کام کرنے کا موقع ملا، اس فلم کی کہانی میں کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کو علامتی انداز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم میں فاروق شیخ نے خرگوش کا کردار اداکیا تھا جبکہ نصیر الدین شاہ کچھوے کے کردار میں تھے۔

نصیر الدین شاہ ہر فن مولیٰ اداکار
نصیر الدین شاہ ہر فن مولیٰ اداکار

اُسی سال نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کی ایک اور سُپر ہٹ فلم 'جانے بھی دو یارو' ریلیز ہوئی۔ کندن شاہ کی ہدایت میں بنی اس فلم میں نصیر الدین کی اداکاری کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کے ہی قابل ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو مسحور کر دیا۔

اس کے بعد سنہ 1985 میں نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کی ایک اور اہم فلم 'مرچ مسالا' ریلیز ہوئی۔ ملک کی آزادی سے پہلے کے پس منظر پر بنی فلم 'مرچ مسالا' نے ڈائریکٹر کیتن مہتا کو بین الاقوامی سطح پر شہرت دلائی تھی۔ یہ فلم جاگیردارانہ نظام کے درمیان پِستی عورت کی جدوجہد کی کہانی بیان کرتی ہے۔

اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں نصیر الدین شاہ نے کاروباری سنیما کی جانب رخ کیا۔ اس دوران انہیں 'ہیرو ہیرا لال، مالا مال، جلوہ، تریدیو' جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن کی کامیابی سے نصیر الدین شاہ کو کاروباری سنیما میں بھی مقام حاصل ہوگیا۔

نصیر الدین شاہ
نصیر الدین شاہ

اس کے بعد 90کی دہائی میں نصیر الدین شاہ نے ناظرین کی پسند کے پیش نظر چھوٹے پردے کا بھی رخ کیا اور سال 1988 میں گلزار کی ہدایت میں بنے سیریل 'مرزا غالب' میں اداکاری کی۔

اس کے علاوہ سال 1989 میں 'بھارت ایک کھوج' سیریل میں انہوں نے مراٹھا سورما شیواجی کے کردار کو متحرک کر کے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

اداکاری میں یکسانیت سے بچنے اور خود کو کیریکٹر آرٹسٹ کے طور پر بھی پیش کرنے کے لیے 90 کی دہائی میں انہوں نے خود کو مختلف کردار میں ڈھالا۔ اس ترتیب میں 1994 میں ریلیز ہونے والی فلم 'مرسا' میں وہ منفی کردار ادا کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔

اس فلم میں بھی انہوں نے ناظرین کا دل جیت لیا اور اسی فہرست میں انہوں نے ٹکر، ہمت، سرفروش اور کرش جیسی فلموں میں بھی منفی کردار ادا کرکے شائقین کو محظوظ کیا۔

نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر میں ان کی جوڑی سمیتا پاٹل کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔

naseeruddin shah
naseeruddin shah

نصیرالدین شاہ کو اب تک تین بار بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، ساتھ ہی وہ تین بار نیشنل ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔

اس کے علاوہ فلمی میں ان کی قابل قدر خدمات کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سےانہیں پدم شری اور پدم بھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

نصیر الدین شاہ نے تین دہائی طویل فلمی کریئر میں اب تک تقریباً 200 فلموں میں اداکاری کی ہے اور آج بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ فلم انڈسٹری میں فعال ہیں۔

نصیر الدین شاہ کی پیدائش 20 جولائی سنہ 1950 کو اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں ہوئی۔

نصیر الدین شاہ نے ابتدائی تعلیم اجمیر اور نینی تال سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گریجویشن کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔

سنہ 1971 میں اداکار بننے کا خواب لیے انہوں نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا جبکہ سنہ 1975 میں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز و ہدایتکار شیام بینگل سے ہوئی۔

شیام بینگل ان دنوں فلم 'نشانت' بنانے کی تیاری کر رہے تھے اور نصیر الدین شاہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے نصیر الدین شاہ کو ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا اور اپنی فلم میں کام کرنے کا موقع دیا۔

نصیر الدین شاہ
نصیر الدین شاہ

سال 1976 نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کا اہم سال ثابت ہوا اور اسی سال ان کی 'بھومیکا' اور 'منتھن' جیسی کامیاب فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ دودھ انقلاب پر بنی فلم 'منتھن' میں ناظرین کو ان کی اداکاری کے نئے رنگ دیکھنے کو ملے۔ اس فلم کی تیاری کے لیے گجرات کے تقریباً پانچ لاکھ کسانوں نے اپنی فی دن ملنے والی اجرت میں سے دو دو روپے فلم سازوں کو دیئے تھے۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

سال 1977 میں اپنے دوست بینجامن گیلانی اور ٹام الٹر کے ساتھ مل کر نصیر الدین شاہ نے موٹیلے پروڈکشن نامی ایک تھیٹر گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے سیموئل بیکٹ کی ہدایت میں پہلا ڈرامہ 'ویٹنگ فار گوڈوٹ' پرتھوی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔

سنہ 1979 میں ریلیز ہونے فلم 'اسپرش' میں ناظرین کو نصیر الدین شاہ کی اداکاری کا ایک نیا انداز دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں اندھے شخص کا کردار ادا کرنا کسی بھی اداکار کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، چہرے کے تاثرات سے ناظرین کو سب کچھ بتا دینا نصیر الدین شاہ کی اداکاری کی صلاحیت کی ایسی مثال تھی جسے شاید ہی کوئی اداکار دہرا پائے۔ اس فلم میں بہترین اور لاجواب اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سال 1980 میں آئی فلم 'آكروش' نصیرالدین شاہ کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔گووند نہلانی کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم میں نصیر الدین ایک ایسے وکیل کے کردار میں نظر آئے جو سماج اور سیاست کی پرواہ کئے بغیر ایک بے قصور شخص کو پھانسی کے پھندے سے بچانا چاہتا ہے اگرچہ اسے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سنہ 1983 میں نصیر الدین شاہ کو سائی پرانجپے کی فلم 'کتھا' میں کام کرنے کا موقع ملا، اس فلم کی کہانی میں کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کو علامتی انداز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم میں فاروق شیخ نے خرگوش کا کردار اداکیا تھا جبکہ نصیر الدین شاہ کچھوے کے کردار میں تھے۔

نصیر الدین شاہ ہر فن مولیٰ اداکار
نصیر الدین شاہ ہر فن مولیٰ اداکار

اُسی سال نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کی ایک اور سُپر ہٹ فلم 'جانے بھی دو یارو' ریلیز ہوئی۔ کندن شاہ کی ہدایت میں بنی اس فلم میں نصیر الدین کی اداکاری کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کے ہی قابل ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو مسحور کر دیا۔

اس کے بعد سنہ 1985 میں نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کی ایک اور اہم فلم 'مرچ مسالا' ریلیز ہوئی۔ ملک کی آزادی سے پہلے کے پس منظر پر بنی فلم 'مرچ مسالا' نے ڈائریکٹر کیتن مہتا کو بین الاقوامی سطح پر شہرت دلائی تھی۔ یہ فلم جاگیردارانہ نظام کے درمیان پِستی عورت کی جدوجہد کی کہانی بیان کرتی ہے۔

اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں نصیر الدین شاہ نے کاروباری سنیما کی جانب رخ کیا۔ اس دوران انہیں 'ہیرو ہیرا لال، مالا مال، جلوہ، تریدیو' جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن کی کامیابی سے نصیر الدین شاہ کو کاروباری سنیما میں بھی مقام حاصل ہوگیا۔

نصیر الدین شاہ
نصیر الدین شاہ

اس کے بعد 90کی دہائی میں نصیر الدین شاہ نے ناظرین کی پسند کے پیش نظر چھوٹے پردے کا بھی رخ کیا اور سال 1988 میں گلزار کی ہدایت میں بنے سیریل 'مرزا غالب' میں اداکاری کی۔

اس کے علاوہ سال 1989 میں 'بھارت ایک کھوج' سیریل میں انہوں نے مراٹھا سورما شیواجی کے کردار کو متحرک کر کے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

اداکاری میں یکسانیت سے بچنے اور خود کو کیریکٹر آرٹسٹ کے طور پر بھی پیش کرنے کے لیے 90 کی دہائی میں انہوں نے خود کو مختلف کردار میں ڈھالا۔ اس ترتیب میں 1994 میں ریلیز ہونے والی فلم 'مرسا' میں وہ منفی کردار ادا کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔

اس فلم میں بھی انہوں نے ناظرین کا دل جیت لیا اور اسی فہرست میں انہوں نے ٹکر، ہمت، سرفروش اور کرش جیسی فلموں میں بھی منفی کردار ادا کرکے شائقین کو محظوظ کیا۔

نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر میں ان کی جوڑی سمیتا پاٹل کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔

naseeruddin shah
naseeruddin shah

نصیرالدین شاہ کو اب تک تین بار بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، ساتھ ہی وہ تین بار نیشنل ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔

اس کے علاوہ فلمی میں ان کی قابل قدر خدمات کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سےانہیں پدم شری اور پدم بھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

نصیر الدین شاہ نے تین دہائی طویل فلمی کریئر میں اب تک تقریباً 200 فلموں میں اداکاری کی ہے اور آج بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ فلم انڈسٹری میں فعال ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.