جانی واکر کی پیدائش مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں 11 نومبر 1920 کو ایک متوسط مسلم خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کا حقیقی نام بدر الدین جمال الدین قاضی عرف جانی تھا۔
جانی واکر کو بچپن سے ہی اداکار بننے کا شوق تھا۔ سنہ 1942 میں ان کا خاندان ممبئی آگیا۔ یہاں ان کے والد کے ایک دوست پولس انسپکٹر تھے جن کی سفارش پر انہیں بس کنڈکٹر کی نوکری مل گئی۔ یہ نوکری پاکروہ کافی خوش ہوگئے کیوں کہ انہیں مفت میں ہی پوری ممبئی گھومنے کا موقع مل گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ممبئی کے فلم اسٹوڈیو میں بھی جانے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔
جانی واکر کا بس کنڈکٹر کا کام کرنے کا انداز بھی کافی دلچسپ تھا۔ وہ اپنے خاص انداز میں آ واز لگاتے ت 'ماہم والے پسنجر اترنے کو ریڈی ہوجاؤ لیڈیز لوگ پہلے'۔ اسی دوران ان کی ملاقات فلمی دنیا کے مشہور ویلین این اے انصاری اور کے آ صف کے سکریٹری رفیق سے ہوئی۔
تقریباً 8 مہینے کی جدوجہد کے بعد جانی واکر کو فلم 'آ خری پیمانے' میں ایک چھوٹا سا رول ملا۔ اس فلم میں کام کرنے کے لیے انہیں 80 روپے اجرت ملی جبکہ بطور بس کنڈکٹر انہیں پورے مہینے کے لیے صرف 26 روپیے ہی ملا کرتے تھے۔
ایک دن جانی واکر کی ملاقات اپنے دور کے ممتاز اداکار بلراج ساہنی سے ہوئی جو ان کی بس میں سفر کر رہے تھے۔ وہ جانی واکر کے خوش مزاجی اور دلچسپ انداز سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں گرو دت سے ملنے کی صلاح دی جو ان دنوں فلم 'بازی' بنارہے تھے۔
گرودت نے جانی واکر کی صلاحیت سے خوش ہوکر اپنی فلم 'بازی' میں انہیں کام کرنے کا موقع دیا۔
سال 1951 میں ریلیز ہونے والی فلم 'بازی' کے بعد جانی واکر بطور مزاحیہ اداکار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے اور گرو دت کے پسندیدہ اداکاروں میں شامل ہوگئے۔
اس کے بعد انہوں نے گرودت کی کئی فلموں میں کام کیا جن میں آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، پیاسا، چودھویں کا چاند، کاغذ کے پھول جیسی سُپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔
نوکیتن کے بینر تلے بنی فلم ٹیکسی ڈرائیور میں جانی واکر کے کردار کا نام 'مستانہ' تھا۔کئی دوستوں نے انہیں اپنا فلمی نام 'مستانہ' رکھنے کی صلاح دی لیکن جانی واکر کو یہ نام پسند نہیں آیا اور انہوں نے اس زمانے کی مشہور 'شراب جانی واکر' کے نام پر اپنا نام 'جانی واکر' رکھ لیا۔
فلم کی کامیابی کے بعد گرو دت نے خوش ہوکر انہیں تحفے میں ایک کار دی تھی۔ گرو دت کی فلموں کے علاوہ جانی واکر نے ٹیکسی ڈرائیور، دیو داس، نیا انداز، چوری چوری، مدھومتی، مغل اعظم، میرے محبوب، بہو بیگم، میرے حضور جیسی کئی سُپر ہٹ فلموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں کو مسحور کردیا۔
جانی واکر کی شہرت کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ہر فلم میں ایک یا دو نغمے ان پر ضرور فلمائے جاتے تھے۔ سنہ 1956 میں گرودت کی فلم 'سی آئی ڈی' میں ان پر فلمایا نغمہ 'اے دل ہے مشکل جینا یہاں، ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے ممبئی میری جان' نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔
اس بعد ہر فلم میں ان پر ایک نغمہ ضرور فلمایا جا تا تھا یہاں تک کہ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فائنانسرز اور پروڈیوسر کی بھی یہ شرط ہوتی تھی کہ فلم میں جانی واکر پر ایک گیت ضرور ہونا چاہیے۔
ان پر فلمائے نغمے فلم نیا دور کا 'میں بمبئی کا بابو'، مدھومتی کا 'جنگل میں مور ناچا کسی نے نہ دیکھا'، فلم مسٹر اینڈ مسز 55 کا 'جانے کہاں میرا جگر گیا جی'، فلم پیاسا کا 'سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے'، فلم چودھویں کا چاند کا نغمہ 'میرا یار بنا ہے دولہا'، بھی ناظرین میں کافی مقبول ہوئے۔
جانی واکر پر فلمائے گئے زیادہ تر نغمے محمد رفیع کی آ واز میں ہیں لیکن فلم 'بات ایک رات کی' میں ان پر فلمایا نغمہ 'کس نے چلمن سے مارا نظارہ مجھے' میں منا ڈے نے اپنی آواز دی تھی۔
جانی واکر نے تقریباً 12 فلموں میں بطور ہیرو بھی کام کیا ہے۔ بطور ہیرو ان کی پہلی فلم 'پیسہ یہ پیسہ' تھی جس میں انہوں نے تین مختلف کردار ادا کئے تھے۔ اس کے بعد ان کے نام پر فلم ڈائریکٹر وید موہن نے سنہ 1967 میں 'جانی واکر' بنائی تھی۔
سال 1958 میں منظر عام پر آنے والی فلم مدھو متی کے ایک منظر میں وہ درخت پر اُلٹا لٹک کر بتاتے ہیں کہ دنیا ہی الٹ گئی ہے جسے ناظرین آج تک نہیں بھولے ہیں۔ اس فلم کے لیے انہیں سب سے بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔
اس کے علاوہ 1968 میں ریلیز ہونے والی فلم 'شکار' کے لیے انہیں بہترین مزاحیہ اداکار کے فلم فیئر ایوار ڈ سے نوازا گیا۔
ستر کی دہائی میں جانی واکر نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کر دیا تھا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ فلم میں کامیڈی کی سطح میں کافی گراوٹ آ گئی ہے۔ اسی دوران رشی کیش مکھرجی کی فلم 'آنند' میں انہوں نے ایک چھوٹا سا رول نبھایا جس کے ایک سین میں وہ راجیش کھنہ کو زندگی کا ایک ایسا سبق دیتے ہیں جس سے ناظرین ہنستے ہنستے سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔
جانی واکر کی شادی اس وقت کی معروف اداکارہ شکیلہ کی بہن نور جہاں سے ہوئی۔ نور جہاں بھی اس وقت فلموں میں اداکاری کیا کرتی تھیں۔ ان سے انہیں تین بیٹیاں اور تین بیٹے ناصر خان، ناظم قاضی اور کاظم قاضی ہوئے۔
سال 1986 میں اپنے بیٹے کو فلم انڈسٹری میں لانچ کرنے کے لیے انہوں نے فلم'پہنچے ہوئے لوگ' بنائی جس کے ہدایت کار اور پروڈیوسر وہ خودہی تھے لیکن باکس آفس پر یہ فلم بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔
اس درمیان انہیں کئی فلموں میں اداکاری کرنے کے آ فر ملے لیکن جانی واکر نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں گلزار اور کمل حسن کے زور دینے پر 1998 میں فلم 'چاچی 420' میں انہوں نے ایک چھوٹا سا رول نبھایا جسے ناظرین نے کافی پسند کیا۔
جانی واکر نے تقریباً پانچ دہائیوں پر مشتمل اپنے طویل فلمی کریئر میں 300 سے زائد فلموں میں کام کیا۔
اپنے خاص اور دلفریب انداز سےناظرین کو مسحور کرنے والا یہ عظیم مزاحیہ اداکار 29 جولائی 2003 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔