پربودھ چندر ڈے عرف منا ڈے کی پیدائش یکم مئی سنہ 1919 کو کولکاتہ میں ہوئی۔ ان کے والد انہیں وکیل بنانا چاہتے تھے لیکن ان کا رجحان موسیقی کی جانب تھا اور وہ اسی میدان میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے تھے۔ منا ڈے نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے چچا كے سی ڈے سے حاصل کی۔
موسیقی کو منا ڈے نے ایک اعلی مقام پر پہنچایا اپنے پانچ دہائی کے طویل کریئر میں تقریباً 3500 نغمات گا کر شائقین کے دلوں میں خاص جگہ بنانے والے منا ڈے 24 اکتوبر 2013 کو اس دنیا سے الوداع کہہ گئے۔
موسیقی کو منا ڈے نے ایک اعلی مقام پر پہنچایا منا ڈے کے بچپن کے دنوں کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ استاد بادل خان اور منا ڈے کے چچا ایک مرتبہ ساتھ ساتھ ریاض کر رہے تھے، اسی وقت بادل خان نے منا ڈے کی آواز سنی اور ان کے چچا سے پوچھا یہ کون گا رہا ہے، جب منا ڈے کو بلایا گیا تو انہوں نے اپنے استاد سے کہا کہ ’بس ایسے ہی گانا گا لیتا ہوں‘ لیکن بادل خان نے منا ڈے کی چھپے ہوئے ہنر کو پہچان لیا۔ اس کے بعد وہ اپنے چچا سے موسیقی کی تعلیم لینے لگے۔
موسیقی کو منا ڈے نے ایک اعلی مقام پر پہنچایا منا ڈے 40 کی دہائی میں اپنے چچا کے ساتھ موسیقی کے میدان میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ممبئی آ گئے۔ سنہ 1943 میں فلم ’تمنا‘ میں بطور گلوکار انہیں ثریا کے ساتھ گانے کا موقع ملا۔حالانکہ اس سے پہلے وہ فلم رام راج میں کورس کے طور پر گانا گا چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ یہی ایک واحد فلم تھی جسے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے دیکھا تھا۔
موسیقی کو منا ڈے نے ایک اعلی مقام پر پہنچایا ابتدائی دور میں منا ڈے کے ہنر کو پہچاننے والوں میں موسیقار شنکر جے کشن کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس جوڑی نے انہیں مختلف انداز کے نغمے گانے کا موقع دیا۔ ’آجا صنم مدھر چاندنی میں ہم‘ جیسے رومانوی نغمہ اور’كیتكی گلاب جوہی‘ جیسے کلاسیکل نغمے بھی گائے ۔ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں منا ڈے نے یہ نغمے گانے سے انکار کر دیا تھا۔ موسیقار شنکر جے کشن نے جب منا ڈے کو ’كیتكی گلاب جوہی‘ گانا گانے کی پیش کش کی تو پہلے تو وہ اس بات سے گھبرا گئے کہ بھلا وہ عظیم کلاسیکل موسیقار بھیم سین جوشی کے ساتھ کس طرح نغمہ گا پائیں گے اور انہوں نے سوچا کہ کچھ دنوں کے لیے ممبئی سے دور پونے چلے جائیں۔ جب بات پرانی ہو جائے گی تو وہ واپس ممبئی لوٹ آئیں گے اور انہیں بھیم سین جوشی کے ساتھ نغمہ نہیں گانا پڑے گا لیکن بعد میں انہوں نے اسے چیلنج کے طور پر لیا اور’كیتكی گلاب جوهي‘ جیسا بہترین نغمہ گایا۔سنہ 1950 میں موسیقار ایس ڈی برمن کی فلم مشعل میں منا ڈے کو’اوپر گگن وشال‘ نغمہ گانے کا موقع ملا جس کی کامیابی کے بعد بطور گلوکار وہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔انہیں اپنے کریئر کے ابتدائی دور میں زیادہ شہرت نہیں ملی۔ اس کی اہم وجہ یہ رہی کہ ان کی پختہ آواز کسی گلوکار پر فٹ نہیں بیٹھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں وہ کامیڈین محمود اور کریکٹر ایکٹر پران کے لیے نغمہ گانے کے لیے مجبور تھے۔سنہ 1961 میں موسیقار سلیل چودھری کی موسیقی میں فلم ’كابلی والا‘ کی کامیابی کے بعد منا ڈے شہرت کی بلنديو ں پر جا پہنچے۔ اس فلم میں ان کی آواز میں پریم دھون کا لکھا ہوا نغمہ پر ’اے میرے پیارے وطن اے میرے بچھڑے چمن‘ آج بھی سامعین کی آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔پران کے لیے انہوں نے فلم اپکار میں’قسمیں وعدے پیار وفا‘ اور زنجیر میں’یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی‘ جیسے نغمے گائے۔ اسی دور میں انہوں نے فلم پڑوسن میں مزاحیہ اداکار محمود کے لیے ’ایک چتر نار‘ نغمہ گایا تو انہیں محمود کی آواز سمجھا جانے لگا۔منا ڈے کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ صرف کلاسیکل نغمات ہی گا سکتے ہیں لیکن بعد میں انہوں نے ’اے میرے پیارے وطن‘، ’ اے میری زہرہ جبیں‘، ’یہ رات بھيگی بھيگی ‘، ’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘ اور ’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘ جیسے بہترین نغمے گا کر ناقدین کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔مشہور نغمہ نگار پریم دھون نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ منا ڈے ہر قسم کے نغمے گانے کے قابل ہیں۔ جب وہ بلند سر لگاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ سارا آسمان ان کے ساتھ گا رہا ہے جب وہ نیچا سر لگاتے ہے تو لگتا ہے اس میں پاتال جتنی گہرائی ہے اور اگر وہ درمیانہ سر لگاتے ہے تو لگتا ہے ان کے ساتھ ساری زمین جھوم رہی ہے۔
مشہور موسیقار انیل وشواس نے ایک بار کہا تھا کہ منا ڈے ہر وہ گانا گا سکتے ہیں، جو محمد رفیع، کشور کمار یا مکیش نے گایا ہے لیکن ان میں کوئی بھی مناڈے کا ہر گانا نہیں گا سکتا۔ اسی طرح آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع نے ایک بار کہا تھا، آپ لوگ میرے گانے سنتے ہیں لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ میں منا ڈے کے گانے ہی سنتا ہوں۔
مناڈے اپنی گلوکاری سے الفاظ کے پیچھے چھپے تاثرات کو بڑی خوبصورتی سے سامنے لاتے تھے۔ شايد یہی وجہ ہے کہ ہندی کے مشہور شاعر ہری ونش رائے بچن نے اپنی غیر معمولی شاہکار’مدھو شالا‘ کو آواز دینے کے لیے منا ڈے کا انتخاب کیا تھا۔
فلموں میں قابل ذکر خدمات کے لیے انہیں 1971 میں پدم شري ایوارڈ اور سنہ 2005 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گيا۔ علاوہ ازیں سنہ 1969 میں فلم ’میرے حضور‘ اور سنہ 1971 میں بنگلہ فلم ’نشی پدما‘ كے لیے بہترین گلوکار اور 1970 میں آئی فلم ’میرا نام جوکر‘ کے لیے بہترین گلوکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازےگئے۔
فلموں میں موسیقی کے سفر میں ان کی قابل ذکر شراکت کے پیش نظر انہیں 2007 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اپنے پانچ دہائی کے طویل کریئر میں تقریباً 3500 نغمات گاکر شائقین کے دلوں میں خاص جگہ بنانے والے منا ڈے 24 اکتوبر 2013 کو اس دنیا سے الوداع کہہ گئے۔