ETV Bharat / sitara

Anand Bakshi Death Anniversary: راجیش کھنہ کو سپر اسٹار بنانے والے نغمہ نگار آنند بخشی کی آج بیسویں برسی

author img

By

Published : Mar 30, 2022, 12:51 PM IST

سپر اسٹار راجیش کھنہ کے کیریئر کو بلندیوں تک پہنچانے میں آنندبخشی کے نغموں کا اہم کردار رہا ہے۔ راجیش کھنہ کی فلم 'آرادھنا' میں لکھے نغمے 'میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو' کے ذریعے راجیش کھنہ تو سپر اسٹار بنے ہی، ساتھ میں کشور کمار کو بھی وہ مقام حاصل ہو گیا جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ Bollywood Songwriter Anand Bakshi

راجیش کھنہ کو سپراسٹار بنانے والے نغمہ نگار آنند بخشی کی آج 20 ویں برسی
راجیش کھنہ کو سپراسٹار بنانے والے نغمہ نگار آنند بخشی کی آج 20 ویں برسی

اپنے سدا بہار گیتوں سے سامعین کو دیوانہ بنانے والے بالی ووڈ کے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے تقریبا چار دہائی تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔ پاکستان کے راولپنڈی شہر میں 21 جولائی 1930 کو پیدا ہوئے آنند بخشی کو ان کے رشتہ دار پیار سے نند یا نندو کہہ کر پکارتے تھے۔ بخشی ان کے خاندان کا لقب تھا جبکہ ان کے اہل خانہ نے ان کا نام آنند پرکاش رکھا تھا۔لیکن فلمی دنیا میں آنے کے بعد سے آنند بخشی کے نام سے ان کی پہچان بنی۔ Anand Bakshi Death Anniversary

آنند بخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانے کے خوف سے انہوں نے اپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ فلمی دنیا میں گلوکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ Bollywood Songwriter Anand Bakshi۔ آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے 14 سال کی عمر میں ہی گھر سے بھاگ کر فلم نگری ممبئی آگئے جہاں انہوں نے رائل انڈين نیوی میں کیڈٹ کے طور پر دو سال تک کام کیا۔ کسی تنازعہ کی وجہ سے انہیں وہ نوکری چھوڑنی پڑی۔

بچپن سے ہی مضبوط ارادے والے آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے نئے جوش کے ساتھ دوبارہ ممبئی پہنچے جہاں ان کی ملاقات اس زمانے کے مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی۔ شاید قسمت کو یہی منظور تھا کہ وہ نغمہ نگار ہی بنیں۔ بھگوان دادا نے انہیں اپنی فلم’’بھلا آدمی‘‘ میں نغمہ نگار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنی شناخت بنانے میں بھلے ہی کامیاب نہیں ہو پائے لیکن ایک نغمہ نگار کے طور پر ان فلمی کیریئر کا سفر شروع ہو گیا۔

آنند بخشی تقریباً سات برسوں تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے ۔ 1965 میں فلم ’’ جب جب پھول کھلے‘‘ ریلیز ہوئی تو ان کےنغمے’’پردیسیوں سے نہ اكھياں ملانا ، یہ سماں سماں ہے یہ پیار کا، ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘‘ سپر ہٹ رہے اور نغمہ نگار کے طور پر ان کی شناخت بن گئی۔ اسی سال فلم ’’ہمالیہ کی گود میں ان کا نغمہ 'چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا' کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔ سال 1967 میں ریلیز سنیل دت اور نوتن کی فلم 'ملن' کے نغمہ 'ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کے گاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے' جیسے سدابہار نغموں کے ذریعے انہوں نے نغمہ نگار کے طور پر نئی بلندیوں کو چھو لیا۔

سپر اسٹار راجیش کھنہ کے کیریئر کو بلندیوں تک پہنچانے میں آنندبخشی کے نغموں کا اہم تعاون رہا ہے۔ راجیش کھنہ کی فلم 'آرادھنا' میں لکھے نغمے 'میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو' کے ذریعے راجیش کھنہ تو سپر اسٹار بنے ہی، ساتھ میں کشور کمار کو بھی وہ مقام حاصل ہو گیا جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ آرادھنا کی کامیابی کے بعد آر ڈی برمن، آنندبخشی کے پسندیدہ موسیقار بن گئے۔ اس کے بعد اس جوڑی نے ایک سے بڑھ کر ایک موسیقی سے لبریز نغموں سے سامعین کو مسحور کر دیا۔ آنند بخشی کو ان کے اپنے نغموں کے لئے تقریباً 40 بار فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن چار مرتبہ ہی وہ اس ایوارڈ سے نوازے گئے ۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں دو نسل کے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ہے جن ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، چترگپت، آنند ملند، كليان جي-آنند جی، ویجو شاہ، روشن اور راجیش روشن جیسے موسیقار شامل ہیں۔

فلم انڈسٹری میں بطور نغمہ نگار جگہ بنانے کے بعد بھی گلوکار بننے کی آنند بخشی کی حسرت ہمیشہ بنی رہی ۔ انہوں نے ستر کی دہائی میں آئی فلم موم کی گڑیا میں 'میں ڈھونڈ رہا تھا سپنوں میں' اور 'باغوں میں بہار آئی' جیسے دو نغے گائے، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی فلم 'چرس' کا گیت 'آجا تیری یاد آئی' کی چند لائنوں میں اور کچھ دیگر فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی ہے۔ تقریباً چار دہائی تک فلمی نغموں کے بے تاج بادشاہ آنند بخشی نے 550 سے بھی زائد فلموں میں تقریباً 4000 گیت لکھے۔ اپنے نغموں سے تقریبا چار دہائی تک سامعین کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار آنند بخشی 30 مارچ 2002 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

یو این آئی

مزید پڑھیں: Will Smith Apology: ول اسمتھ نے آخر کار کرس راک سے معافی مانگی

اپنے سدا بہار گیتوں سے سامعین کو دیوانہ بنانے والے بالی ووڈ کے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے تقریبا چار دہائی تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔ پاکستان کے راولپنڈی شہر میں 21 جولائی 1930 کو پیدا ہوئے آنند بخشی کو ان کے رشتہ دار پیار سے نند یا نندو کہہ کر پکارتے تھے۔ بخشی ان کے خاندان کا لقب تھا جبکہ ان کے اہل خانہ نے ان کا نام آنند پرکاش رکھا تھا۔لیکن فلمی دنیا میں آنے کے بعد سے آنند بخشی کے نام سے ان کی پہچان بنی۔ Anand Bakshi Death Anniversary

آنند بخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانے کے خوف سے انہوں نے اپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ فلمی دنیا میں گلوکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ Bollywood Songwriter Anand Bakshi۔ آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے 14 سال کی عمر میں ہی گھر سے بھاگ کر فلم نگری ممبئی آگئے جہاں انہوں نے رائل انڈين نیوی میں کیڈٹ کے طور پر دو سال تک کام کیا۔ کسی تنازعہ کی وجہ سے انہیں وہ نوکری چھوڑنی پڑی۔

بچپن سے ہی مضبوط ارادے والے آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے نئے جوش کے ساتھ دوبارہ ممبئی پہنچے جہاں ان کی ملاقات اس زمانے کے مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی۔ شاید قسمت کو یہی منظور تھا کہ وہ نغمہ نگار ہی بنیں۔ بھگوان دادا نے انہیں اپنی فلم’’بھلا آدمی‘‘ میں نغمہ نگار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنی شناخت بنانے میں بھلے ہی کامیاب نہیں ہو پائے لیکن ایک نغمہ نگار کے طور پر ان فلمی کیریئر کا سفر شروع ہو گیا۔

آنند بخشی تقریباً سات برسوں تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے ۔ 1965 میں فلم ’’ جب جب پھول کھلے‘‘ ریلیز ہوئی تو ان کےنغمے’’پردیسیوں سے نہ اكھياں ملانا ، یہ سماں سماں ہے یہ پیار کا، ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘‘ سپر ہٹ رہے اور نغمہ نگار کے طور پر ان کی شناخت بن گئی۔ اسی سال فلم ’’ہمالیہ کی گود میں ان کا نغمہ 'چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا' کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔ سال 1967 میں ریلیز سنیل دت اور نوتن کی فلم 'ملن' کے نغمہ 'ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کے گاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے' جیسے سدابہار نغموں کے ذریعے انہوں نے نغمہ نگار کے طور پر نئی بلندیوں کو چھو لیا۔

سپر اسٹار راجیش کھنہ کے کیریئر کو بلندیوں تک پہنچانے میں آنندبخشی کے نغموں کا اہم تعاون رہا ہے۔ راجیش کھنہ کی فلم 'آرادھنا' میں لکھے نغمے 'میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو' کے ذریعے راجیش کھنہ تو سپر اسٹار بنے ہی، ساتھ میں کشور کمار کو بھی وہ مقام حاصل ہو گیا جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ آرادھنا کی کامیابی کے بعد آر ڈی برمن، آنندبخشی کے پسندیدہ موسیقار بن گئے۔ اس کے بعد اس جوڑی نے ایک سے بڑھ کر ایک موسیقی سے لبریز نغموں سے سامعین کو مسحور کر دیا۔ آنند بخشی کو ان کے اپنے نغموں کے لئے تقریباً 40 بار فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن چار مرتبہ ہی وہ اس ایوارڈ سے نوازے گئے ۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں دو نسل کے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ہے جن ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، چترگپت، آنند ملند، كليان جي-آنند جی، ویجو شاہ، روشن اور راجیش روشن جیسے موسیقار شامل ہیں۔

فلم انڈسٹری میں بطور نغمہ نگار جگہ بنانے کے بعد بھی گلوکار بننے کی آنند بخشی کی حسرت ہمیشہ بنی رہی ۔ انہوں نے ستر کی دہائی میں آئی فلم موم کی گڑیا میں 'میں ڈھونڈ رہا تھا سپنوں میں' اور 'باغوں میں بہار آئی' جیسے دو نغے گائے، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی فلم 'چرس' کا گیت 'آجا تیری یاد آئی' کی چند لائنوں میں اور کچھ دیگر فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی ہے۔ تقریباً چار دہائی تک فلمی نغموں کے بے تاج بادشاہ آنند بخشی نے 550 سے بھی زائد فلموں میں تقریباً 4000 گیت لکھے۔ اپنے نغموں سے تقریبا چار دہائی تک سامعین کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار آنند بخشی 30 مارچ 2002 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

یو این آئی

مزید پڑھیں: Will Smith Apology: ول اسمتھ نے آخر کار کرس راک سے معافی مانگی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.