بینک افسر کے طور پر اپنے کیریئر کی شروعات کرنے کے بعد بالی ووڈ میں اپنے نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار تقریباً چار دہائیوں سے فلمی مداحوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔ Bollywood Song writer Sameer Anjan Birthday
مشہور شاعر اور نغمہ نگار شتلا پانڈے عرف سمیر کی پیدائش 24 فروری 1958 کو بنارس میں ہوئی۔ ان کے والد انجان فلمی دنیا کے مشہور نغمہ نگار تھے۔ بچپن سے ہی سمیر کا رجحان اپنے والد کے پیشہ کی جانب تھا۔ وہ بھی فلم انڈسٹری میں نغمہ نگار بننا چاہتے تھے لیکن ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ کسی مختلف شعبے میں اپنا مستقبل روشن کریں۔
سمیر نے بنارس ہندو یونیورسٹی سے گریجویٹ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد گھر والوں کے زور دینے پر انہوں نے اپنے کیرئیر کی شروعات بینک میں ایک افسر کے طور پر کی۔ بینک کی نوکری ان کے مزاج کے مترادف تھی۔ کچھ دنوں بعد ان کا دل اس کام سے بھر گیا اور انہوں نے نوکری چھوڑ دی۔ Songs Written by Lyricist Sameer
اسی (80) کی دہائی میں نغمہ نگار بننے کا خواب لے کر سمیر ممبئی آگئے۔ تقریباً 3 سال تک ممبئی میں رہنے کے بعد وہ نغمہ نگار بننے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ یقین دہانی تو سبھی کراتے تھے لیکن انہیں کام کرنے کا موقع کوئی نہیں دیتا تھا۔ بہت کوشش کرنے کے بعد 1983 میں انہیں فلم’ بے خبر ‘میں گیت لکھنے کا موقع ملا۔
دریں اثنا سمیر کو انصاف کون کرے گا، جواب ہم دیں گے، دو قیدی، رکھ والا، مہا سنگرام، بیوی ہو تو ایسی، باپ نمبری بیٹا دس نمبری، جیسی بڑے بجٹ کی کئی فلموں میں نغمہ نگاری کا موقع ملا لیکن ان فلموں کی ناکامی کی وجہ سے وہ فلمی دنیا میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائے۔
تقریباً دس برسوں تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کے بعد سال 1990 میں عامر خان اور مادھوری دکشت کی فلم ’دل‘ کے نغمے لکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم کا ایک مشہور گانا ’مجھے نیند نہ آئے مجھے چین نہ آئے‘ کی کامیابی کے بعد سمیر نغمہ نگار کے طور پر اپنی پہنچان بنانے میں کامیاب رہے۔ سال 1990 میں ہی انہیں مہیش بھٹ کی فلم عاشقی میں بھی نغمے لکھنے کا موقع ملا۔
فلم عاشقی میں ’سانسوں کی ضرورت ہے جیسے، میں دنیا بھلا دوں گا اور نظر کے سامنے جگر کے پاس ، جیسے نغموں کی کامیابی کے بعد سمیر کو کئی اچھی فلموں کے آفر ملنے لگے جس میں بیٹا، بول رادھا بول، ساتھی ، پھول اور کانٹے جیسی بڑے بجٹ کی فلمیں شامل تھیں۔ ان فلموں کی کامیابی کے بعد سمیر کامیابی کی بلندیوں سر کرنے لگے۔
سال 1997 میں اپنے والد انجان کی موت کے بعد سمیر کو گہرا صدمہ پہنچا۔ انہوں نے کچھ وقت تک فلم انڈسٹری سے کنارہ کرلیا اور واپس بنارس چلے گئے لیکن ان کا دل بنارس میں نہیں لگا اور ایک بار پھر وہ نئے جوش کے ساتھ ممبئی آگئے اور 1999 میں ریلیز فلم حسینہ مان جائے گی سے اپنے فلمی کیئریر کا دوبارہ آغاز کیا۔
سمیرنے اپنے تین دہائیوں پر مشتمل فلمی کیرئر میں تقریباً 500 ہندی فلموں کے لئے گیت لکھے۔ ان کے فلمی سفر میں اگر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ سمیر نے سب سے زیادہ کام موسیقار ندیم شرون اور آنند ملند کے ساتھ کیا ہے۔ یوں تو سمیر نے کئی فلمی ہیروز کے لئے گیت لکھے لیکن گووندا پر فلمائے گئے نغمے سب سے زیادہ مقبول ہوئے۔ گووندا کی فلم سورگ جو 1990 میں ریلیز ہوئی تھی اس فلم کی کامیابی کے بعد انہوں نے گووندا کے لئے متعدد فلموں کے لئے نغمے لکھے جن میں راجہ بابو، ہیرو نمبر ون، حسینہ مان جائے گی، ساجن چلے سسرال، بڑے میاں چھوٹے میاں، راجہ جی، جورو کا غلام ، ہیرو نمبر ون، دولہے راجہ، آنٹی نمبر ون، شکاری اور بھاگم بھاگ جیسی فلمیں شامل ہیں۔
سمیر کو اب تک تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نواز جاچکا ہے۔ سب سے پہلے انہیں 1990 میں فلم عاشقی کے لئے ، اس کے بعد 1992 میں فلم دیوانہ کے لئے، اور 1993 میں فلم ہم ہیں راہی پیار کے‘ کے لئے بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا جاچکا ہے۔
سمیر نے اپنےتین دہائیوں پر مشتمل فلمی سفر میں تقریباً چھ ہزار فلمی اور غیر فلمی نغمے لکھے۔ انہوں نے ہندی کے علاوہ بھوجپوری، مراٹھی فلموں کے لئے بھی گیت لکھے۔ سمیر کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: Sridevi Death Anniversary: روپ کی رانی کے ساتھ اداکاری کی ملکہ تھیں سری دیوی
یو این آئی