ETV Bharat / sitara

شہنشاہ مکالمات کی برسی پر خصوصی پیشکش

ہندی سنیما کی دنیا میں یوں تو اپنی بااثر اداکاری سے کئی فلمی ستاروں نے شائقین کے دلوں پر راج کیا، لیکن ایک ایسا بھی ستارہ تھا جس نے نہ صرف سامعین کے دل پر راج کیا بلکہ فلم انڈسٹری نے بھی انہیں ’راجکمار‘کا درجہ دیا اور وہ تھے مکالمات کے شہشاہ کل بھوش پنڈت عرف راج کمار ۔

شہنشاہ مکالمات کی برسی پر خصوصی پیشکش
شہنشاہ مکالمات کی برسی پر خصوصی پیشکش
author img

By

Published : Jul 3, 2020, 11:25 AM IST

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 8 اکتوبر 1926 کو پیدا ہوئے راج کمار گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ممبئی کے ماہم پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

ایک رات گشت کے دوران ایک سپاہی نے راجکمار سے کہا، حضور آپ رنگ، ڈھنگ اور قد کے لحاظ سے کسی ہیرو سے کم نہیں ہیں۔ فلموں میں اگر آپ ہیرو بن جائیں تو لاکھوں دلوں پر راج کر سکتے ہیں۔ سپاہی کی یہ بات راجکمار کے دل میں اترگئی۔

راج کمار ممبئی کے جس تھانے میں ملازم تھے، وہاں اکثر فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگو ں کا آنا جانا تھا۔ایک مرتبہ پولیس اسٹیشن میں فلم ساز بلدیو دوبے کچھ ضروری کام کے لئے آئے تھے ۔وہ راجکمار کے بات کرنے کے انداز سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے راجکمار سے اپنی فلم شاہی بازار میں اداکار کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی۔ راج کمار سپاہی کی بات سن کر پہلے ہی اداکار بننے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ اس لئے انہوں نے فورا ہی اپنی سب انسپکٹر کی نوکری سے استعفیٰ دیا اور ان کی پیشکش قبول کرلی گئی۔

شاہی بازار بننے میں کافی وقت لگ گیا اور راج کمار کو زندگی گزر بسر کرنا مشکل سا ہو گیا، اس لئے انہوں نے 1952 میں آئی فلم رنگیلی میں ایک چھوٹا سا کردار قبول کر لیا۔ یہ فلم سنیماگھروں میں کب آئی اور کب گئی، یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اس درمیان ان کی فلم شاہی بازار بھی ریلیز ہوگئی، جو باکس آفس پر فلاپ ثابت ہوئی۔

اس فلم کی ناکامی کے بعد راج کمار کے تمام رشتہ دار کہنے لگے کہ تمہارا چہرہ فلموں کے لئے مناسب نہیں ہے وہیں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ راج کمار ویلین کے رول کے لئے موزوں رہیں گے۔

سنہ 1952 سے 1957 تک راج کمار فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے ۔ رنگیلی کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا، وہ اسے قبول کرتے گئے۔ اس دوران انہیں انمول سہار، اوسر ،گھمنڈ، نیل منی اور کرشن سداما جیسی کئی فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوپائی۔

محبوب خان کی 1957 میں آئی فلم مدر انڈیا میں راج کمار گاؤں کے ایک کسان کے چھوٹے سے کردار میں نظر آئے ۔حالانکہ یہ فلم مکمل طور سے اداکارہ نرگس پر مرکوز تھی، پھر بھی وہ اپنی اداکاری کے تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے ۔ اس فلم میں بااثر اداکاری کے لیے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی اور فلم کی کامیابی کے بعد وہ اداکار کے طور پر فلم انڈسٹری میں شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔

مدر انڈیا
مدر انڈیا

سنہ 1959 میں آئی فلم 'پیغام' میں ان کے مدمقابل شہنشاہ جذبات دلیپ کمار تھے اس کے باوجود راج کمار یہاں بھی اپنی مضبوط اداکاری کے ذریعے ناظرین کی دادو تحسین حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد دل اپنا اور پریت پرائی، گھرانہ، گودان، دل ایک مندر اور دوج کا چاند جیسی فلموں سے ملی کامیابی کے ذریعے وہ ناظرین کے درمیان اپنی اداکاری کا سکہ جمانے کے لئے ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں وہ اپنا کردار خود منتخب کرسکتے تھے ۔

پیغام
پیغام

سنہ 1965 میں آئی فلم کاجل کی زبردست کامیابی کے بعد راج کمار نے اداکار کے طور پر اپنی الگ شناخت بنا لی تھی۔ بی آر چوپڑا کی 1965 میں آئی فلم 'وقت' میں اپنی لاجواب اداکاری سے وہ ایک بار پھر ناظرین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ فلم میں راج کمار کے ادا کردہ ڈائیلاگ جیسے 'چنائے سیٹھ، جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پہ پتھر نہیں پھینکا کرتے .. یا چنائے سیٹھ، یہ چاقو ہے بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں، ہاتھ کٹ جائے تو خون نکل آتا ہے .. ناظرین میں کافی مقبول ہوئے ۔ فلم وقت کی کامیابی سے راج کمار شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

اس کے بعد انہوں نے ہرناز، نیل کمل، میرے حضور، ہیر رانجھا اور پاکیزہ، میں رومانوی کردار بھی کئے، جو ان کے فلمی کردار سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود راج کمار ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے ۔

کمال امروہی کی فلم پاکیزہ مکمل طور پر مینا کماری پر مرکوز فلم تھی۔ اس کے باوجود راج کمار اپنی شاندار اداکاری سے ناظرین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ پاکیزہ میں ان کی طرف سے ادا کیا گیا ایک مکالمہ 'آپ کے پاؤں دیکھے بہت حسین ہیں انہیں زمین پر مت رکھئے گا میلے ہو جائیں گے ..' اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ ان کی آواز کی نقل کرنے لگے۔

سودا گر
سودا گر

سنہ 1978 میں آئی فلم کرم یوگی میں راج کمار کی اداکاری قابل دید تھی۔ اس فلم میں انہوں نے دو الگ الگ کرداروں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ سنہ 1991 میں آئی فلم سوداگر .. میں راج کمار کی اداکاری کے نئے طول و عرض دیکھنے کو ملے۔ سبھاش گھئی کی فلم میں راج کمار 1959 میں آئی فلم پیغام کے بعد دوسری بار دلیپ کمار کے مدمقابل تھے اور فلم بین ان دونوں عظیم اداکاروں کو ایک ساتھ دیکھنے کے لئے بے قرار تھے ۔

ترنگا
ترنگا

نوے (90) کی دہائی میں راج کمار نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کردیا۔ اس دوران ان کی ترنگا ، پولیس اور مجرم ، انسانیت کے دیوتا، بے تاج بادشاہ اور جواب جیسی فلمیں آئیں۔ تنہا رہنے والے راج کمار نے شاید محسوس کر لیا تھا کہ موت ان کے کافی قریب ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹے پرو راجکمار کو اپنے پاس بلا لیا اور کہا.. دیکھو موت اور زندگی انسان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے ۔ میری موت کے بارے میں میرے دوست چیتن آنند کے علاوہ اور کسی کو نہیں بتانا۔ میری آخری رسومات ادا کرنے کے بعد ہی فلم انڈسٹری کو مطلع کرنا۔ تقریبا چار دہائی تک اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں پر حکومت کرنے والے عظیم اداکار راجکمار 3 جولائی 1996 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 8 اکتوبر 1926 کو پیدا ہوئے راج کمار گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ممبئی کے ماہم پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

ایک رات گشت کے دوران ایک سپاہی نے راجکمار سے کہا، حضور آپ رنگ، ڈھنگ اور قد کے لحاظ سے کسی ہیرو سے کم نہیں ہیں۔ فلموں میں اگر آپ ہیرو بن جائیں تو لاکھوں دلوں پر راج کر سکتے ہیں۔ سپاہی کی یہ بات راجکمار کے دل میں اترگئی۔

راج کمار ممبئی کے جس تھانے میں ملازم تھے، وہاں اکثر فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگو ں کا آنا جانا تھا۔ایک مرتبہ پولیس اسٹیشن میں فلم ساز بلدیو دوبے کچھ ضروری کام کے لئے آئے تھے ۔وہ راجکمار کے بات کرنے کے انداز سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے راجکمار سے اپنی فلم شاہی بازار میں اداکار کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی۔ راج کمار سپاہی کی بات سن کر پہلے ہی اداکار بننے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ اس لئے انہوں نے فورا ہی اپنی سب انسپکٹر کی نوکری سے استعفیٰ دیا اور ان کی پیشکش قبول کرلی گئی۔

شاہی بازار بننے میں کافی وقت لگ گیا اور راج کمار کو زندگی گزر بسر کرنا مشکل سا ہو گیا، اس لئے انہوں نے 1952 میں آئی فلم رنگیلی میں ایک چھوٹا سا کردار قبول کر لیا۔ یہ فلم سنیماگھروں میں کب آئی اور کب گئی، یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اس درمیان ان کی فلم شاہی بازار بھی ریلیز ہوگئی، جو باکس آفس پر فلاپ ثابت ہوئی۔

اس فلم کی ناکامی کے بعد راج کمار کے تمام رشتہ دار کہنے لگے کہ تمہارا چہرہ فلموں کے لئے مناسب نہیں ہے وہیں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ راج کمار ویلین کے رول کے لئے موزوں رہیں گے۔

سنہ 1952 سے 1957 تک راج کمار فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے ۔ رنگیلی کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا، وہ اسے قبول کرتے گئے۔ اس دوران انہیں انمول سہار، اوسر ،گھمنڈ، نیل منی اور کرشن سداما جیسی کئی فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوپائی۔

محبوب خان کی 1957 میں آئی فلم مدر انڈیا میں راج کمار گاؤں کے ایک کسان کے چھوٹے سے کردار میں نظر آئے ۔حالانکہ یہ فلم مکمل طور سے اداکارہ نرگس پر مرکوز تھی، پھر بھی وہ اپنی اداکاری کے تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے ۔ اس فلم میں بااثر اداکاری کے لیے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی اور فلم کی کامیابی کے بعد وہ اداکار کے طور پر فلم انڈسٹری میں شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔

مدر انڈیا
مدر انڈیا

سنہ 1959 میں آئی فلم 'پیغام' میں ان کے مدمقابل شہنشاہ جذبات دلیپ کمار تھے اس کے باوجود راج کمار یہاں بھی اپنی مضبوط اداکاری کے ذریعے ناظرین کی دادو تحسین حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد دل اپنا اور پریت پرائی، گھرانہ، گودان، دل ایک مندر اور دوج کا چاند جیسی فلموں سے ملی کامیابی کے ذریعے وہ ناظرین کے درمیان اپنی اداکاری کا سکہ جمانے کے لئے ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں وہ اپنا کردار خود منتخب کرسکتے تھے ۔

پیغام
پیغام

سنہ 1965 میں آئی فلم کاجل کی زبردست کامیابی کے بعد راج کمار نے اداکار کے طور پر اپنی الگ شناخت بنا لی تھی۔ بی آر چوپڑا کی 1965 میں آئی فلم 'وقت' میں اپنی لاجواب اداکاری سے وہ ایک بار پھر ناظرین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ فلم میں راج کمار کے ادا کردہ ڈائیلاگ جیسے 'چنائے سیٹھ، جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پہ پتھر نہیں پھینکا کرتے .. یا چنائے سیٹھ، یہ چاقو ہے بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں، ہاتھ کٹ جائے تو خون نکل آتا ہے .. ناظرین میں کافی مقبول ہوئے ۔ فلم وقت کی کامیابی سے راج کمار شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

اس کے بعد انہوں نے ہرناز، نیل کمل، میرے حضور، ہیر رانجھا اور پاکیزہ، میں رومانوی کردار بھی کئے، جو ان کے فلمی کردار سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود راج کمار ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے ۔

کمال امروہی کی فلم پاکیزہ مکمل طور پر مینا کماری پر مرکوز فلم تھی۔ اس کے باوجود راج کمار اپنی شاندار اداکاری سے ناظرین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ پاکیزہ میں ان کی طرف سے ادا کیا گیا ایک مکالمہ 'آپ کے پاؤں دیکھے بہت حسین ہیں انہیں زمین پر مت رکھئے گا میلے ہو جائیں گے ..' اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ ان کی آواز کی نقل کرنے لگے۔

سودا گر
سودا گر

سنہ 1978 میں آئی فلم کرم یوگی میں راج کمار کی اداکاری قابل دید تھی۔ اس فلم میں انہوں نے دو الگ الگ کرداروں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ سنہ 1991 میں آئی فلم سوداگر .. میں راج کمار کی اداکاری کے نئے طول و عرض دیکھنے کو ملے۔ سبھاش گھئی کی فلم میں راج کمار 1959 میں آئی فلم پیغام کے بعد دوسری بار دلیپ کمار کے مدمقابل تھے اور فلم بین ان دونوں عظیم اداکاروں کو ایک ساتھ دیکھنے کے لئے بے قرار تھے ۔

ترنگا
ترنگا

نوے (90) کی دہائی میں راج کمار نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کردیا۔ اس دوران ان کی ترنگا ، پولیس اور مجرم ، انسانیت کے دیوتا، بے تاج بادشاہ اور جواب جیسی فلمیں آئیں۔ تنہا رہنے والے راج کمار نے شاید محسوس کر لیا تھا کہ موت ان کے کافی قریب ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹے پرو راجکمار کو اپنے پاس بلا لیا اور کہا.. دیکھو موت اور زندگی انسان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے ۔ میری موت کے بارے میں میرے دوست چیتن آنند کے علاوہ اور کسی کو نہیں بتانا۔ میری آخری رسومات ادا کرنے کے بعد ہی فلم انڈسٹری کو مطلع کرنا۔ تقریبا چار دہائی تک اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں پر حکومت کرنے والے عظیم اداکار راجکمار 3 جولائی 1996 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.