ETV Bharat / sitara

ہندی سنیما کے کامیاب ہدایت کار، فلمساز اور اسٹائلش اداکار فیروز خان - اردو نیوز بالی وڈ

فیروز خان کے بارے میں اگر کہا جائے کہ وہ بہ حیثیت ہدایت کار اور فلمساز زیادہ کامیاب تھے تو یہ کچھ غلط نہیں ہو گا۔ انہوں نے خود کو محض اداکاری تک محدود نہیں رکھا بلکہ فلمیں پروڈیوس بھی کی اور ہدایت کاری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا۔

firoz khan
فیروز خان
author img

By

Published : Apr 27, 2021, 9:46 AM IST

فیروز خان کی پیدائش 25 ستمبر 1939 کو بنگلور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد پٹھان اور والدہ کا تعلق ایرانی نسل سے تھا۔ انہوں نے اپنی آرزؤوں اور امنگوں کے ساتھ پروقار اور شاہانہ زندگی بسرکی اور بھارتی سنیما کو اپنی اداکاری اور فن کاری کا بیش بہا خزانہ عطا کیا۔

فلموں کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان نے پردۂ سیمیں پر اپنی فنی صلاحیتوں اور ہمہ جہت اداکاری کی بدولت فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل کیا جو انہیں مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔

فلم کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان صرف ایک اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت تھی، منفرد اسلوب تھا جو انہوں دیگر فن کاروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس انفرادیت کو انہوں نے تاحیات برقرار رکھا۔

کہا جاسکتا ہے کہ فیروز خان نے اپنی آرزؤوں اور امنگوں کے ساتھ پروقار اور شاہانہ زندگی بسرکی اور بھارتی سنیما کو اپنی اداکاری اور فن کاری کا بیش بہا خزانہ عطا کیا۔

فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت ایک اسٹائل آئی کون کے طور پر سمجھی جاتی تھی۔ ان کی منفرد اداکاری اور شاہانہ انداز ہمیشہ لوگوں کے لئے باعث کشش رہی۔ وہ نہایت نفاست پسند انسان تھے۔ خوب صورت ملبوسات 'قیمتی گاڑیوں عمدہ نسل کے گھوڑوں سے انہیں بے پناہ لگاؤ تھا' جس کا دیدار ان کی ہر فلم میں کیا جاسکتا ہے۔

فیروز خان نے اپنے کیریئر کی ابتداثانوی درجے کی فلموں سے کی۔1960میں انہوں نے'دیدی' نامی فلم میں بطور معاون اداکارکام کیا۔ بعد ازاں کئی برسوں تک وہ بی اورسی گر یڈ فلموں میں کام کرتے رہے۔ سال 1965میں ریلیز ہونے والی فلم 'اونچے لوگ' ان کے کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔

بعد ازاں انہوں نے سپرہٹ فلم 'آرزو' میں بطور معاون اداکار بہترین کام کرکے خوب شہرت کمائی اور اب انہیں اول درجے کی فلموں میں کام ملنے کا راستہ ہموار ہوگیا۔سال 1969 میں فیروز خان کو”آدمی اور انسان“ میں بہترین اداکاری کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

حالانکہ اس وقت فیروز خان نے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت تو قائم کرلی تھی لیکن انہیں فلموں میں لیڈ رول کے لئے بہت کم ہدایت کار و فلم ساز منتخب کرتے تھے اس لئے انہوں نے خود کو اداکاری تک ہی محدود نہ رکھ کر فلم سازی اور ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھ دیا اور کامیاب بھی رہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکار سے زیادہ ہدایت کار اور فلم ساز تھے تو غلط نہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اسکرپٹ لکھی جاتی تھی اور وہ اپنی فلموں میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے تھے۔ سنہ 1975 میں انہوں نے اپرادھ نامی فلم بنائی جو زیادہ کامیاب تو نہ ہوسکی لیکن 1975میں جب انہوں نے فلم ’دھرماتما‘بنائی تو وہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنی۔ اس فلم میں فیروز خان نے بطور ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم میں افغانستان کے قدرتی مناظر کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا تھا۔

سنہ 1980میں آئی شہرہ آفاق فلم’قربانی‘ اس قدرہٹ ثابت ہوئی کہ اس فلم کی ہدایت کاری کے بعد ان کا شمار صف اول کے ہدایت کاروں میں ہونے لگا۔ اس فلم میں ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا گیا تھا جس میں ہالی ووڈ کی طرز پر گلاس کا استعمال کیا گیا تھا۔

اس فلم کو سپر ہٹ بنانے میں پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کی آواز کا بھی بڑا رول تھا۔ انہوں نے اس فلم میں ”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے“ نغمہ گاکر لوگوں کو حیرت انگیز و مسحور کردیا تھا اور ہر خاص وعام کے لبوں پر یہ نغمہ گنگنانے لگا۔

سنہ 1986 میں آئی ان کی ایک اور فلم جو اداکاری، تکنیک، فوٹوگرافی اور ہرزاویہ سے بہترین فلم تھی وہ تھی جاں باز۔اس پر بھی فیروز خان نے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ بعدازاں 1988میں ’دیاوان‘ 1992میں یلغار’1998میں پریم اگن 2003میں جانشین اور 2005میں ایک کھلاڑی ایک حسینہ بنائی۔

پریم اگن اور جانشین اور ایک حسینہ تھی، میں انہوں نے اپنے بیٹے اداکار فردین خان کو متعارف کرایا۔آخری عمرہی میں انہوں نے کامیڈی فلم ' ویلکم ' میں کام کیا۔ یہ ان کی آخری فلم تھی اس کے بعد سے وہ مستقل بیمار رہنے لگے۔

مزید پڑھیں:

ویلن سے ہیرو بننے والے صدا بہار اداکار ونود کھنہ

فیرو خان کو فلمی صنعت میں ان کی کارکردگی کے لئے سال 2000 میں فلم فیئر کے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پردہ سیمیں اور ذاتی زندگی میں آن بان اور شان کے ساتھ چمکنے والا یہ ستارہ 27 اپریل 2009 کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

یو این آئی

فیروز خان کی پیدائش 25 ستمبر 1939 کو بنگلور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد پٹھان اور والدہ کا تعلق ایرانی نسل سے تھا۔ انہوں نے اپنی آرزؤوں اور امنگوں کے ساتھ پروقار اور شاہانہ زندگی بسرکی اور بھارتی سنیما کو اپنی اداکاری اور فن کاری کا بیش بہا خزانہ عطا کیا۔

فلموں کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان نے پردۂ سیمیں پر اپنی فنی صلاحیتوں اور ہمہ جہت اداکاری کی بدولت فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل کیا جو انہیں مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔

فلم کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان صرف ایک اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت تھی، منفرد اسلوب تھا جو انہوں دیگر فن کاروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس انفرادیت کو انہوں نے تاحیات برقرار رکھا۔

کہا جاسکتا ہے کہ فیروز خان نے اپنی آرزؤوں اور امنگوں کے ساتھ پروقار اور شاہانہ زندگی بسرکی اور بھارتی سنیما کو اپنی اداکاری اور فن کاری کا بیش بہا خزانہ عطا کیا۔

فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت ایک اسٹائل آئی کون کے طور پر سمجھی جاتی تھی۔ ان کی منفرد اداکاری اور شاہانہ انداز ہمیشہ لوگوں کے لئے باعث کشش رہی۔ وہ نہایت نفاست پسند انسان تھے۔ خوب صورت ملبوسات 'قیمتی گاڑیوں عمدہ نسل کے گھوڑوں سے انہیں بے پناہ لگاؤ تھا' جس کا دیدار ان کی ہر فلم میں کیا جاسکتا ہے۔

فیروز خان نے اپنے کیریئر کی ابتداثانوی درجے کی فلموں سے کی۔1960میں انہوں نے'دیدی' نامی فلم میں بطور معاون اداکارکام کیا۔ بعد ازاں کئی برسوں تک وہ بی اورسی گر یڈ فلموں میں کام کرتے رہے۔ سال 1965میں ریلیز ہونے والی فلم 'اونچے لوگ' ان کے کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔

بعد ازاں انہوں نے سپرہٹ فلم 'آرزو' میں بطور معاون اداکار بہترین کام کرکے خوب شہرت کمائی اور اب انہیں اول درجے کی فلموں میں کام ملنے کا راستہ ہموار ہوگیا۔سال 1969 میں فیروز خان کو”آدمی اور انسان“ میں بہترین اداکاری کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

حالانکہ اس وقت فیروز خان نے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت تو قائم کرلی تھی لیکن انہیں فلموں میں لیڈ رول کے لئے بہت کم ہدایت کار و فلم ساز منتخب کرتے تھے اس لئے انہوں نے خود کو اداکاری تک ہی محدود نہ رکھ کر فلم سازی اور ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھ دیا اور کامیاب بھی رہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکار سے زیادہ ہدایت کار اور فلم ساز تھے تو غلط نہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اسکرپٹ لکھی جاتی تھی اور وہ اپنی فلموں میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے تھے۔ سنہ 1975 میں انہوں نے اپرادھ نامی فلم بنائی جو زیادہ کامیاب تو نہ ہوسکی لیکن 1975میں جب انہوں نے فلم ’دھرماتما‘بنائی تو وہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنی۔ اس فلم میں فیروز خان نے بطور ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم میں افغانستان کے قدرتی مناظر کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا تھا۔

سنہ 1980میں آئی شہرہ آفاق فلم’قربانی‘ اس قدرہٹ ثابت ہوئی کہ اس فلم کی ہدایت کاری کے بعد ان کا شمار صف اول کے ہدایت کاروں میں ہونے لگا۔ اس فلم میں ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا گیا تھا جس میں ہالی ووڈ کی طرز پر گلاس کا استعمال کیا گیا تھا۔

اس فلم کو سپر ہٹ بنانے میں پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کی آواز کا بھی بڑا رول تھا۔ انہوں نے اس فلم میں ”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے“ نغمہ گاکر لوگوں کو حیرت انگیز و مسحور کردیا تھا اور ہر خاص وعام کے لبوں پر یہ نغمہ گنگنانے لگا۔

سنہ 1986 میں آئی ان کی ایک اور فلم جو اداکاری، تکنیک، فوٹوگرافی اور ہرزاویہ سے بہترین فلم تھی وہ تھی جاں باز۔اس پر بھی فیروز خان نے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ بعدازاں 1988میں ’دیاوان‘ 1992میں یلغار’1998میں پریم اگن 2003میں جانشین اور 2005میں ایک کھلاڑی ایک حسینہ بنائی۔

پریم اگن اور جانشین اور ایک حسینہ تھی، میں انہوں نے اپنے بیٹے اداکار فردین خان کو متعارف کرایا۔آخری عمرہی میں انہوں نے کامیڈی فلم ' ویلکم ' میں کام کیا۔ یہ ان کی آخری فلم تھی اس کے بعد سے وہ مستقل بیمار رہنے لگے۔

مزید پڑھیں:

ویلن سے ہیرو بننے والے صدا بہار اداکار ونود کھنہ

فیرو خان کو فلمی صنعت میں ان کی کارکردگی کے لئے سال 2000 میں فلم فیئر کے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پردہ سیمیں اور ذاتی زندگی میں آن بان اور شان کے ساتھ چمکنے والا یہ ستارہ 27 اپریل 2009 کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.