بھارتی خلائی تحقیقی ادارہ 'اسرو' اپنی گونا گوں ترقی کے لیے معروف ہے جس نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔
بھارتی خلائی ایجنسی اسرو اپنے 'گگن یان' نامی پروجکٹ کی تیاری میں بھی مصروف ہے، جس کے تحت سنہ 2022 تک تین خلا بازوں کو خلا میں بھیجا جائے گا۔
اسرو نے اپنا خلائی اسٹیشن بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس میں خلاباز 15-20 دن تک خلا میں رہ سکتے ہیں۔
اسرو نے اپنا پہلا راکٹ 21 نومبر 1993 کو ریاست کیرالہ کے 'تھمبا اکویٹوریل راکٹ لانچنگ سینٹر' سے لانچ کیا تھا۔
اسرو کے مطابق 'گگن یان' پروگرام 2021 کی کامیابی کے 5 سے 7 برسوں کے اندر اسپیس لانچ کیا جاسکتا ہے اور اس خلائی اسٹیشن میں مائیکرو گریویٹی کے تجربے کیے جائے گے۔
اسپیس اسٹیشن کیوں؟
خلائی اسٹیشن سائنسی، صنعتی، خلائی تحقیق اور خلائی سیاحت جیسے کئی امور میں میں کارآمد ہوسکتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن میں مائیکرو گریویٹی کے تجربات کیے جائیں گے جس سے اس بات کا پتہ لگایا جا سکے گا کہ مائیکرو گریویٹی کا انسانی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔
یہ تحقیق بھارتی خلا بازوں کو مریخ پر جانے کے لیے تیاری کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے جہاں انہیں کئی ماہ تک مائیکرو گریویٹی میں رہنا ہوں گا۔
زمین کے مقابلے میں خلا میں زیادہ مائیکرو گریویٹی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے کرسٹلز بنتے ہیں جو سیمی کنڈکٹرز اور ادویات کو بنانے میں کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
زمین کے برعکس خلا میں تجربے زیادہ کامیاب رہتے ہیں کیونکہ خلا میں وہ معدنیات نہیں پائے جاتے ہیں جو زمین کے آس پاس پائے جاتے ہیں۔
خلائی اسٹیشنز پر نصب کیے گئے ٹیلی سکوپز سے دیگر کہکہشاؤں اور ستاروں کو غور سے دیکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اسپیس اسٹیشن کیسے قائم کیا جاتا ہے؟
خلائی اسٹیشن کے مختلف اجزا کو راکٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے مدار میں پہنچایا جاتا ہے وہاں خلاباز ان اجزا کو جوڑتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن کی تعمیر اور مرمت ڈوکنگ ٹیکنالوجی سےکی جاتی ہے۔
خلائی اسٹیشنز کی تاریخ پر ایک نظر
سب سے پہلا خلائی اسٹیشن سوویت یونین نے سنہ 1971 میں قائم کیا تھا۔ اس کا نام 'سالیت' تھا۔
پہلے امریکی اسپیس اسٹیشن کا نام 'اسکائی لیب' تھا۔ یہ سنہ 1973 میں تباہ ہو گیا تھا۔
سوویت یونین نے 16 نومبر سنہ 2000 میں 'میر' نامی ایک اور اسپیس اسٹیشن لانچ کیا تھا۔
سنہ 2011 میں چین نے تیسرا خلائی مرکز تیانگانگ 1 قائم کیا۔
پھر سنہ 2016 میں تیانگانگ-2 لانچ کیا۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک نظر؟
امریکی صدر رونالڈ ریگن نے مختلف ممالک کے تعاون سے پہلا بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
روس جاپان برازیل کینیڈا جیسے تقریبا اٹھارہ ممالک نے اس پروجکٹ پر مشترکہ طور پر کام کیا۔
بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کے فوائد
انسانی جسم میں لاکھوں پروٹین یعنی لحمیات پائے جاتے ہیں
ہر پروٹین میں انسانی جسم کا کوئی راز چھپا ہوا ہے
خلا میں ان پروٹینز پر تحقیق کرنے میں آسانی ہوتی ہے
بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن میں 'پرولیا' نامی ایک دوا بھی تیار کی گئی۔
بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن میں ایک ویکسین بھی تیار کی گئی جو سالمو نیلا جیسے جراثیم کو ختم کرنے میں مدد کرتی ہے۔
سالمونیلا جیسے جراثیم سے ہر برس بہت سے لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔