20 فروری کو تیسرے مرحلے کے لیے یوپی کے 16 اضلاع کی 59 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یعنی تیسرے مرحلے کا چیلنج کافی بڑا ہونے والا ہے کیونکہ یہ مرحلہ پہلے دو مرحلوں کے مقابلے زیادہ اضلاع ہیں۔UP Assembly Election 3rd Phase
اس مرحلے میں یوپی کے تین حصوں اودھ، مغربی یوپی اور بندیل کھنڈ میں پولنگ ہوگی۔ مغربی یوپی کے پانچ اضلاع فیروز آباد، مین پوری، ایٹا، کاس گنج اور ہاتھرس ہیں، جہاں 19 نشستیں ہیں، جب کہ 6 اضلاع اودھ، کانپور، کانپور دیہات، اوریا، فرخ آباد، قنوج اور اٹاوہ کے 27 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔
اگر بندیل کھنڈ کی بات کریں تو اس مرحلے میں 5 اضلاع میں انتخابات ہیں، جن میں جھانسی، جالون، للت پور، ہمیر پور اور مہوبہ کی 13 اسمبلی سیٹیں ہیں۔
ایسے میں 59 سیٹوں کا تیسرا مرحلہ ہر سیاسی پارٹی کے لیے بہت اہم ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں تمام پارٹیوں کی جانب سے کافی محنت بھی کی گئی ہے۔UP Assembly Election 3rd Phase
ان سیٹوں پر ریاست کی حکمراں بی جے پی اپنی سابقہ کارکردگی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، جب کہ ایس پی پچھلے نتائج کو بدل کر اپنے حق میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
2017 کے اسمبلی انتخابات میں، بی جے پی اتحاد نے 59 سیٹوں میں سے 49 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، جب کہ ایس پی کو صرف 8 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ وہیں کانگریس اور بی ایس پی کے کھاتے میں صرف ایک ایک سیٹ آئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: کرہل سیٹ پر دلچسپ مقابلہ، اکھلیش کے لیے کرہل سیٹ فتح کرنا آسان نہیں ہوگا
اس مرحلے میں جن 16 اضلاع میں انتخابات ہونے ہیں، ان میں سے 9 اضلاع میں یادو رائے دہندگان کی زیادہ آبادی ہے۔ اس میں فیروز آباد، مین پوری، اٹاوہ اور ایٹہ جیسے اضلاع شامل ہیں۔
2017 میں 30 یادو اکثریتی سیٹوں کے باوجود ایس پی صرف 6 سیٹیں جیت سکی یا یوں کہیں کہ اُس وقت اقتدار میں رہنے کے باوجود یہاں سماج وادی پارٹی کی سب سے خراب کارکردگی دیکھنے میں آئی۔
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی یادو اکثریتی علاقے والے ضلع کو اپنے حق میں کرنے کے لیے سپا پر اقربہ پروری کا الزام عائد کر رہی ہے۔
2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کی لہر پر سوار تھی جس کا اسے فائدہ ہوا۔ لیکن اس الیکشن میں بھی اسی جیسا فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہند و مسلم کے علاوہ اب سب سے زیادہ شور حجاب پر کیا جا رہا ہے۔
اس مرحلے میں 30 ایسی سیٹیں ہیں، جہاں او بی سی اور خاص کر یادو ووٹروں کی آبادی ہے۔ یہ سیٹیں فیروز آباد، قنوج، مین پوری، اٹاوہ جیسے اضلاع میں آتی ہیں۔
وہیں اس مرحلے میں ایس پی صدر اکھلیش یادو مین پوری کی کرہل سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اکھلیش کو جیتنے کے لیے چچا شیو پال یادو اور ان کے والد اور ریاست کے سابق وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو بھی انتخابی مہم کے لیے میدان میں اترے ہیں۔
ساتھ ہی بی جے پی نے اس سیٹ سے مرکزی وزیر ایس پی سنگھ بگھیل کو میدان میں اتار کر یہاں کا مقابلہ دلچسپ بنا دیا ہے۔
واضح رہے کہ کرہل اس مرحلے کی سب سے اہم ترین نشست میں سے ایک ہے۔ اس سیٹ پر اکھلیش یادو کا مقابلہ بی جے پی امیدوار ایس پی سنگھ بگھیل سے ہے، جو مرکز میں وزیر رہتے ہوئے اس سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ضلعی اعتبار سے اسمبلی نشست
تیسرے مرحلے میں یوپی کے تین حصوں اودھ، مغربی یوپی اور بندیل کھنڈ میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ جس میں مغربی یوپی کے پانچ اضلاع فیروز آباد، مین پوری، ایٹہ، کاس گنج اور ہاتھرس ہیں، جن میں 19 اسمبلی سیٹیں ہیں۔
اودھ ریجن کے 6 اضلاع ہیں یعنی کانپور، کانپور دیہات، اوریہ، فرخ آباد، قنوج، اٹاوہ، جن میں 27 اسمبلی سیٹیں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بندیل کھنڈ کے جھانسی، جالون، للت پور، ہمیر پور، مہوبہ اضلاع میں پولنگ ہے، جہاں 13 اسمبلی سیٹیں ہیں۔
ان سیٹوں پر 2017 اسمبلی انتخاب کے نتائج
2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اتحاد نے یہاں 59 میں سے 49 سیٹیں جیتی تھیں اور ایس پی کے کھاتے میں صرف 8 سیٹیں آئی تھیں، وہیں کانگریس اور بی ایس پی کو صرف ایک ایک سیٹ ملی۔
تیسرے مرحلے میں کل 627 امیدوار میدان میں ہیں
تیسرے مرحلے میں 16 اضلاع کی 59 سیٹوں کے لیے کل 627 امیدوار میدان میں ہیں، جہاں 20 فروری کو ووٹنگ ہونی ہے۔ تیسرے مرحلے میں ہاتھرس، فیروز آباد اضلاع، کاس گنج، ایٹہ، مین پوری، فرخ آباد، قنوج، اٹاوہ، اوریا، کانپور، کانپور دیہات، جالون، جھانسی، للت پور، ہمیر پور اور مہوبہ اضلاع میں 59 سیٹیں ہیں۔
بی جے پی اور ایس پی کے چیلنجز کیا ہیں؟
تیسرے مرحلے میں جہاں بی جے پی کے لیے اپنی سیٹیں بچانے کا چیلنج ہے وہیں ایس پی اور بی ایس پی کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ پچھلی بار کے انتخابی نتائج کو دیکھیں تو ایس پی صدر اکھلیش یادو خود تیسرے مرحلے میں کرہل اسمبلی سیٹ سے انتخابی میدان میں قسمت آزما رہے ہیں۔
وہیں ان کے چچا شیو پال یادو اٹاوہ کی جسونت نگر اسمبلی سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔ بندیل کھنڈ میں جن اضلاع میں انتخابات ہوئے ہیں، پچھلی بار ایس پی-بی ایس پی-کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔
دراصل ایٹا، قنوج، اٹاوہ، فرخ آباد، کانپور دیہات جیسے اضلاع میں بھی ایس پی کو جھٹکا لگا تھا۔
اس کے ساتھ ہی 2012 کے انتخابات میں ایس پی نے ان اضلاع میں کلین سویپ کیا تھا۔ اس وقت تیسرے مرحلے میں ایس پی کو 37 سیٹیں ملی تھیں اور 2017 میں صرف 8 سیٹوں پر ہی مطمئن ہونا پڑا تھا۔
یہاں بی جے پی کا غیر یادو او بی سی کارڈ کافی کامیاب رہا۔ شاکیہ اور لودھ کے ووٹر بالکل بی جے پی کے حق میں چلے گئے، لیکن اس بار ایس پی نے بھی ان ووٹوں کو منتقل کرنے کا خاص انتظام کیا ہے۔
کئی وی آئی پی رہنماؤں کے لیے یہ کافی اہم مرحلہ ہے
تیسرے مرحلے میں صرف اکھلیش یادو اور شیو پال یادو ہی نہیں بلکہ یوگی حکومت کے کئی تجربہ کار وزراء کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
مرکزی وزیر ایس پی سنگھ بگھیل کرہل سیٹ سے اکھلیش کے خلاف مقابلہ کر رہے ہیں، جب کہ فرخ آباد سیٹ پر سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی بیوی لوئیس خورشید کانگریس کی طرف سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
رامویر اپادھیائے، جو کبھی بی ایس پی کا برہمن چہرہ تھا، اب بی جے پی کے ٹکٹ پر سادآباد اسمبلی سیٹ سے انتخابی میدان میں ہے۔
اس کے علاوہ کانپور کی مہاراج پور اسمبلی سیٹ پر یوگی حکومت کے وزیر ستیش مہانا کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ قنوج کی محفوظ سیٹ سے آئی پی ایس کی نوکری چھوڑنے والے بی جے پی امیدوار عاصم ارون کا بھی امتحان ہے۔
سرسا گنج اسمبلی سیٹ پر ملائم سنگھ یادو کے سمدھی ہریوم یادو بی جے پی کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہیں، جب کہ کانگریس کے سینئر رہنما اجے کپور کانپور کی قدوائی نگر سیٹ سے دوبارہ میدان میں ہیں اور حاجی عرفان سولنکی ہیٹ ٹرک کرنے کے لیے سیسماؤ سیٹ پر اترے ہیں۔