ETV Bharat / opinion

نئی تعلیمی پالیسی کایا پلٹ سکتی ہے

یونیورسٹی آف حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر اپا رائو پوڈلی نے نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت کو موجودہ وبا یعنی کووِڈ 19 کے دور کو ایک نادر موقع کے بطور اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ کووِڈ 19کی وجہ سے پہلے ہی دُنیا بھر میں تعلیمی منصوبوں کو مفلوج بنادیا ہے اور اس کی وجہ سے پورا تعلیمی سال ضائع ہوجانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ تعلیمی اداروں کو انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کو وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ سیکھنے والوں کو بہتر مواقع میسر ہوں اور وہ دُنیا کے کسی حصے میں اُن کی قدر و منزلت بڑھ جائے۔

نئی تعلیمی پالیسی کایا پلٹ سکتی ہے
نئی تعلیمی پالیسی کایا پلٹ سکتی ہے
author img

By

Published : Aug 3, 2020, 12:15 PM IST

عالمی معیشت میں ملک کی ترقی کا انحصار ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ تعلیمی معیار کتنا بہتر ہے اور اس شعبے میں کتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یعنی ملک کی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ طلبا و طالبات کے مجموعی اندراج کا تناسب یعنی گراس اینرولمنٹ ریشیو (جی ای آر) کیا ہے اور کیا نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھر کر ملک کی ترقی کےلئے اُن کی خدمات استعمال کی جارہی ہیں یا نہیں۔اس ہدف کے حصول کےلئے تعلیمی شعبے میں مواقعے بڑھانے ہوں گے اور ڈگریاں تفویض کرنے کے نظام کو بہتر بنانے اور سیکھنے سکھانے کے مکانزم کو لچکدار بنانا ہوگا۔

حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کےلئے طویل عرصہ سے متوقع تعلیمی پالیسی کو متعارف کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ یہ پالیسی دستاویز ڈاکٹر کستوری رنگن کی زیر نگرانی سرکردہ ماہرین نے ایک طویل صلاح و مشورے کے عمل سے گزرتے ہوئے تیار کیا ہے۔ دستاویز کے ڈرافٹ کو پہلے لوگوں کی آرا جاننے کےلئے عوام کے سامنے لایا گیا تھا اور بالآخر اس پالیسی کو کابینہ نے اپنی منظوری دے دی ہے اور اسے جلد ہی توثیق کےلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

یہ نئی تعلیمی پالیسی دیر آئد درست آئد کے مصداق ہمارے سامنے آچکی ہے۔ یہ یقین کرنا محال ہے کہ ایک ملک کو اس طرح کی ایک نئی تعلیمی پالیسی کے لئے تین دہائیوں کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ ان تین دہائیوں کے دوران دُنیا بھر میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران کمپیوٹر سے جڑی ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بڑھ چکا ہے، ایک موثر مواصلاتی نظام قائم ہوگیا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر بہت آسان بن گیا ہے۔ اس عرصے میں نوجوانوں کے رویوں میں رونما ہوئی تبدیلی کو دیکھ کر حکومت نے اس بات کا بھر پور اندازہ لگایا ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ متعلقہ کمیٹی نے موجودہ نسل کے خوابوں کی تعبیر کےلئے احتیاط کے ساتھ کام کیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کو مرتب کرتے ہوئے حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کی ہے کہ بھارتی نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے حصول کےلئے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔

نصاب مادری زبان میں:

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کئی طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ اسکولوں میں پانچویں جماعت تک بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی اور اگر ممکن ہو تو اسے ہائر ایجوکیشن تک رائج کیا جاسکتا ہے۔ کئی ممالک میں مقامی زبانوں میں سکھانے کا طریقہ کار سود مند ثابت ہوچکا ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، کوریا اور چین وغیرہ جیسے ممالک اس ضمن میں اہم مثالیں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق کے حوالے سے یہ ممالک دُنیا کے کئی دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں۔ ان مثالوں سے سیکھنا بہت ضروری ہے۔

اعلیٰ تعلیم کی عُمدگی کے لئے کئی سود مند تبدیلیوں کو منظوری:

اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے اور سیکھنے والوں کے لئے غیر معمولی اور لچکدار سہولیات فراہم کرنے کے مقصد سے کمیٹی کی جانب سے کئی پے درپے تبدیلیاں لانے کی تجاویز کو کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت انڈر گریجویٹ پروگرام تین یا چار سال پر محیط ہوگا اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام ایک یا دو سال پر محیط ہوگا۔ چار سالہ بیچلرز ڈگری کو حاصل کرنے والے طلبا تحقیقی ڈگریاں حاصل کرنے یعنی پی ایچ ڈی کرنے کی جانب راغب ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس گریجویشن پروگرام میں طلبا و طالبات کو چار سالہ ڈگری کے حصول کے دوران پروجیکٹ رپورٹ لکھنے کی صلاحیت بھی حاصل ہوگی۔

پرانے نظام میں سب سے بڑی تبدیلی یہ لائی گئی ہے کہ اب طلبا کو نہ صرف اُن اداروں میں، جہاں وہ زیر تعلیم ہوں، میں بڑی تعداد میں کورسز کی چوائس میسر ہوگی بلکہ اُنہیں جزوی طور پر دوسرے اداروں میں بھی اپنا انداج کرانے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ اس ضمن میں اس حد تک لچک لائی گئی ہے کہ طلبا اپنے پورے کورس کا کچھ حصہ یا پورا کورس بھی آن لائن ہی مکمل کرسکتے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے حکومت کا مقصد مضبوط تعلیمی مراکز قائم کرنا ہے۔ یہاں تک کہ خود مختار کالجوں، جو یونیورسٹیوں کے ساتھ منسلک نہ ہوں، کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

کسی بھی تعلیمی ادارے کے خود مختار بننے کےلئے یہ شرط ہوگی کہ اسکے پاس اکریڈیشن سکوئر ہوں، یعنی وہ معیار تعلیم کے لحاظ سے بہتر ریکارڈ کے حامل ہوں۔ جو ادارے معیار کو بہتر بنائیں، اچھے انفراسٹکچر کے حامل ہوں اور سیکھنے سکھانے کے بہتر طریقے اپنائیں، صرف انہیں کو اکریڈیشن سکوئر یعنی بہتر معیار ہونے کی سند حاصل ہوگی۔ وہ ادارے، جو پہلے ہی اس اعلیٰ معیار اور ان اوصاف کے حامل ہوں، کو گزشتہ پانچ سال کے دوران بتدریج خود مختاری تفویض کی گئی ہے۔ ان اداروں کو با اختیار بنانے کا سب سے بڑا قدم پہلے ہی انسٹی چیوشنز آف امیننس ( آئی او ای) سکیم کے تحت اٹھایا گیا ہے۔ اس سکیم کے تحت بعض بہترین تعلیمی اداروں کو انسٹی چیوشنز آف امیننس ( آئی او ای) کا درجہ دیا گیا ہے، تاکہ تعلیم کے معاملے میں بھارت کے اُس رُتبے کی بازیافت ہو، جو اسے نالندا اور تاکشاسلہ کے ادوار میں حاصل تھا۔

کووِڈ 19کے بحران کو ایک نادر موقعہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت:

نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے حکومت کو موجودہ وبا یعنی کووِڈ 19 کے دور کو ایک نادر موقعہ کے بطور اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ کووِڈ 19کی وجہ سے پہلے ہی دُنیا بھر میں تعلیمی منصوبوں کو مفلوج بنادیا ہے اور اس کی وجہ سے پورا تعلیمی سال ضائع ہوجانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ تعلیمی اداروں کو انفارمیشن اینڈ کمونی کیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کو وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ سیکھنے والوں کو بہتر مواقع میسر ہوں اور وہ دُنیا کے کسی حصے میں اُن کی قدر و منزلت بڑھ جائے۔ اس طرح کے انفراسٹکچر کو بہتر بنانے کے نتیجے میں سال 2035ء تک اندراج میں پچاس فیصد تک کا اضافہ کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے، بلکہ اس طرح سے یہ خواب اس سے پہلے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر آن لائن تعلیم کےلئے بہتر تعلیمی مواد کی فراہمی کےلئے لاکھوں اساتذہ کو تربیت دینے کی ضرورت ہوگی۔

حکومت کی جانب سے نیک نیتی سے سامنے لائی گئی نئی تعلیمی پالیسی اور اس کے عملی نفاذ کےلئے ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی نیت یقیناً قابل سراہنا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق حکومت کے عزم کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعی بھارت میں تعلیمی نظام کی کایا پلٹ دے گی۔ ہمیں یہ اُمید کرنی چاہیے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد ابتدائی دس سال میں ہی ہمیں اس کے فوائد حاصل ہوجانا شروع ہوگا۔

( پروفیسر اپا رائو پوڈلی، یونیورسٹی آف حیدر آباد کے وائس چانسلر اور جے سی بوس فیلو ہیں۔)

عالمی معیشت میں ملک کی ترقی کا انحصار ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ تعلیمی معیار کتنا بہتر ہے اور اس شعبے میں کتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یعنی ملک کی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ طلبا و طالبات کے مجموعی اندراج کا تناسب یعنی گراس اینرولمنٹ ریشیو (جی ای آر) کیا ہے اور کیا نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھر کر ملک کی ترقی کےلئے اُن کی خدمات استعمال کی جارہی ہیں یا نہیں۔اس ہدف کے حصول کےلئے تعلیمی شعبے میں مواقعے بڑھانے ہوں گے اور ڈگریاں تفویض کرنے کے نظام کو بہتر بنانے اور سیکھنے سکھانے کے مکانزم کو لچکدار بنانا ہوگا۔

حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کےلئے طویل عرصہ سے متوقع تعلیمی پالیسی کو متعارف کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ یہ پالیسی دستاویز ڈاکٹر کستوری رنگن کی زیر نگرانی سرکردہ ماہرین نے ایک طویل صلاح و مشورے کے عمل سے گزرتے ہوئے تیار کیا ہے۔ دستاویز کے ڈرافٹ کو پہلے لوگوں کی آرا جاننے کےلئے عوام کے سامنے لایا گیا تھا اور بالآخر اس پالیسی کو کابینہ نے اپنی منظوری دے دی ہے اور اسے جلد ہی توثیق کےلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

یہ نئی تعلیمی پالیسی دیر آئد درست آئد کے مصداق ہمارے سامنے آچکی ہے۔ یہ یقین کرنا محال ہے کہ ایک ملک کو اس طرح کی ایک نئی تعلیمی پالیسی کے لئے تین دہائیوں کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ ان تین دہائیوں کے دوران دُنیا بھر میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران کمپیوٹر سے جڑی ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بڑھ چکا ہے، ایک موثر مواصلاتی نظام قائم ہوگیا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر بہت آسان بن گیا ہے۔ اس عرصے میں نوجوانوں کے رویوں میں رونما ہوئی تبدیلی کو دیکھ کر حکومت نے اس بات کا بھر پور اندازہ لگایا ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ متعلقہ کمیٹی نے موجودہ نسل کے خوابوں کی تعبیر کےلئے احتیاط کے ساتھ کام کیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کو مرتب کرتے ہوئے حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کی ہے کہ بھارتی نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے حصول کےلئے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔

نصاب مادری زبان میں:

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کئی طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ اسکولوں میں پانچویں جماعت تک بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی اور اگر ممکن ہو تو اسے ہائر ایجوکیشن تک رائج کیا جاسکتا ہے۔ کئی ممالک میں مقامی زبانوں میں سکھانے کا طریقہ کار سود مند ثابت ہوچکا ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، کوریا اور چین وغیرہ جیسے ممالک اس ضمن میں اہم مثالیں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق کے حوالے سے یہ ممالک دُنیا کے کئی دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں۔ ان مثالوں سے سیکھنا بہت ضروری ہے۔

اعلیٰ تعلیم کی عُمدگی کے لئے کئی سود مند تبدیلیوں کو منظوری:

اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے اور سیکھنے والوں کے لئے غیر معمولی اور لچکدار سہولیات فراہم کرنے کے مقصد سے کمیٹی کی جانب سے کئی پے درپے تبدیلیاں لانے کی تجاویز کو کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت انڈر گریجویٹ پروگرام تین یا چار سال پر محیط ہوگا اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام ایک یا دو سال پر محیط ہوگا۔ چار سالہ بیچلرز ڈگری کو حاصل کرنے والے طلبا تحقیقی ڈگریاں حاصل کرنے یعنی پی ایچ ڈی کرنے کی جانب راغب ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس گریجویشن پروگرام میں طلبا و طالبات کو چار سالہ ڈگری کے حصول کے دوران پروجیکٹ رپورٹ لکھنے کی صلاحیت بھی حاصل ہوگی۔

پرانے نظام میں سب سے بڑی تبدیلی یہ لائی گئی ہے کہ اب طلبا کو نہ صرف اُن اداروں میں، جہاں وہ زیر تعلیم ہوں، میں بڑی تعداد میں کورسز کی چوائس میسر ہوگی بلکہ اُنہیں جزوی طور پر دوسرے اداروں میں بھی اپنا انداج کرانے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ اس ضمن میں اس حد تک لچک لائی گئی ہے کہ طلبا اپنے پورے کورس کا کچھ حصہ یا پورا کورس بھی آن لائن ہی مکمل کرسکتے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے حکومت کا مقصد مضبوط تعلیمی مراکز قائم کرنا ہے۔ یہاں تک کہ خود مختار کالجوں، جو یونیورسٹیوں کے ساتھ منسلک نہ ہوں، کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

کسی بھی تعلیمی ادارے کے خود مختار بننے کےلئے یہ شرط ہوگی کہ اسکے پاس اکریڈیشن سکوئر ہوں، یعنی وہ معیار تعلیم کے لحاظ سے بہتر ریکارڈ کے حامل ہوں۔ جو ادارے معیار کو بہتر بنائیں، اچھے انفراسٹکچر کے حامل ہوں اور سیکھنے سکھانے کے بہتر طریقے اپنائیں، صرف انہیں کو اکریڈیشن سکوئر یعنی بہتر معیار ہونے کی سند حاصل ہوگی۔ وہ ادارے، جو پہلے ہی اس اعلیٰ معیار اور ان اوصاف کے حامل ہوں، کو گزشتہ پانچ سال کے دوران بتدریج خود مختاری تفویض کی گئی ہے۔ ان اداروں کو با اختیار بنانے کا سب سے بڑا قدم پہلے ہی انسٹی چیوشنز آف امیننس ( آئی او ای) سکیم کے تحت اٹھایا گیا ہے۔ اس سکیم کے تحت بعض بہترین تعلیمی اداروں کو انسٹی چیوشنز آف امیننس ( آئی او ای) کا درجہ دیا گیا ہے، تاکہ تعلیم کے معاملے میں بھارت کے اُس رُتبے کی بازیافت ہو، جو اسے نالندا اور تاکشاسلہ کے ادوار میں حاصل تھا۔

کووِڈ 19کے بحران کو ایک نادر موقعہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت:

نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے حکومت کو موجودہ وبا یعنی کووِڈ 19 کے دور کو ایک نادر موقعہ کے بطور اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ کووِڈ 19کی وجہ سے پہلے ہی دُنیا بھر میں تعلیمی منصوبوں کو مفلوج بنادیا ہے اور اس کی وجہ سے پورا تعلیمی سال ضائع ہوجانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ تعلیمی اداروں کو انفارمیشن اینڈ کمونی کیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کو وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ سیکھنے والوں کو بہتر مواقع میسر ہوں اور وہ دُنیا کے کسی حصے میں اُن کی قدر و منزلت بڑھ جائے۔ اس طرح کے انفراسٹکچر کو بہتر بنانے کے نتیجے میں سال 2035ء تک اندراج میں پچاس فیصد تک کا اضافہ کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے، بلکہ اس طرح سے یہ خواب اس سے پہلے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر آن لائن تعلیم کےلئے بہتر تعلیمی مواد کی فراہمی کےلئے لاکھوں اساتذہ کو تربیت دینے کی ضرورت ہوگی۔

حکومت کی جانب سے نیک نیتی سے سامنے لائی گئی نئی تعلیمی پالیسی اور اس کے عملی نفاذ کےلئے ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی نیت یقیناً قابل سراہنا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق حکومت کے عزم کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعی بھارت میں تعلیمی نظام کی کایا پلٹ دے گی۔ ہمیں یہ اُمید کرنی چاہیے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد ابتدائی دس سال میں ہی ہمیں اس کے فوائد حاصل ہوجانا شروع ہوگا۔

( پروفیسر اپا رائو پوڈلی، یونیورسٹی آف حیدر آباد کے وائس چانسلر اور جے سی بوس فیلو ہیں۔)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.