ETV Bharat / opinion

امریکا میں اقتدار کے حصول کی دوڑ میں نسل پرستی ایک اہم موضوع

سینئر صحافی سمیتا شرما نے اپنے پروگرام ’’بیٹل گراونڈ، امریکا 2020ء ‘‘ کی دوسری قسط میں امریکا کے دو معروف تجزیہ کاروں سے بات کی۔ ناول نگار ڈاکٹر رانڈال بلازک اور فریڈم انسٹی چیوٹ اور ولسن سینٹر کی ایک سینئر ریسرچ فیلو فرح ناز اسپاہانی سے بات چیت کی۔اس انٹرویو میں سمیتا شرما نے امریکا میں ہورہے نسلی معاملات کے حوالے سے بات چیت کی۔ پڑھیں پورا آرٹیکل

امریکا میں اقتدار کے حصول کی دوڈ میں نسل پرستی ایک اہم موضوع
امریکا میں اقتدار کے حصول کی دوڈ میں نسل پرستی ایک اہم موضوع
author img

By

Published : Aug 26, 2020, 5:05 PM IST

امریکا میں لوگ ریپبلیکن کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امریکی ماہر سیاسیات اور مصنف فرانکس فوکویامہ نے سال 2018ء میں اپنی تصنیف ’’شناخت‘‘ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے امریکی شہری ذات اور نسل کی بنیاد پر ریپلکین کو اپنا ووٹ دیتے تھے۔ لیکن اب اس کی جگہ لوگ امیگریشن کے مسئلے کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کررہے ہیں۔ اپنی بات کے جواز میں انہوں نے ماہرین سیاسیات حجنال اور ابراجانو کے طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کو پیش کیا ہے۔

فوکویامہ نے اپنی کتاب (صفحہ 132) میں لکھا ہے، ’’ 1960ء کی دہائی میں شہری حقوق کی تحریک کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی میں افریقی امریکیوں کی شمولیت کے نتیجے میں جنوبی امریکا ریبلیکنز کے خیمے میں چلا گیا۔ آج امیگریشن کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی کردار ادا کررہا ہے۔ میکسیکین اور مسلمان امیگریشن کی مخالفت ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ایک اہم حصہ ہے۔‘‘

آج جب ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات کےلئے ووٹ مانگ رہے ہیں، امیگریشن اور نسلی معاملہ اُن کے انتخابی بحث و مباحثے کا سب سے اہم موضوع بن کر رہ گیا ہے۔

ریبپلیکن نیشن کنونشن کے آغاز میں اقوام متحدہ میں اپنی خدمات دے چکی سابق امریکی سفیر اور ساوتھ کارولینا کے سابق گورنر نیکی ہیلے نے سیاہ فام خاتون کملا ہیرس کو نائب صدر کے عہدے کا اُمیدوار نامزد کرنے پر اپنی ناپسنددیدگی کا اظہار کیا۔ دونوں ہیلے اور ہیرس کے والدین بھارتی نژاد تھے۔ ہیلے نے اپنی تقریر میں کہا، ’’ڈیموکریٹک پارٹی میں اب کہنا ایک روایت بن گئی ہے کہ امریکا نسل پرست ہے۔ یہ ایک جھوٹ ہے۔ امریکا ایک نسل پرست ملک نہیں ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھارتی نژاد امیگرنٹس کی بیٹی ہوں۔‘‘ انہوں نے حاضرین کو یہ بھی بتادیا کہ اُن کے والد پگڑی پہنا کرتے تھے اور اُن کی والدہ ساڑھی پہنتی تھیں۔

ہیلے نے مزید کہا، ’’ امریکا اُبھر رہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اسکی تعمیر میں امریکا کو مزید آزادانہ، منصفانہ اور سب کے لئے بہتر بنایا جائے۔ ڈیموکریٹک پارٹی دھنگوں اور تشدد کی معاملات سے نظریں چُرا رہی ہے۔‘‘

تو کیا امریکا نسل پرست ہے؟ کیا 2020ء کے انتخابات کے حوالے سے سماجی اور سیاسی حلقوں میں ایک منظم طریقے سے نسلی مسائل اُبھارے جارہے ہیں؟ سینئر صحافی سمیتا شرما نے اپنے پروگرام ’’بیٹل گراونڈ، امریکا 2020ء ‘‘ کی دوسری قسط میں امریکا کے دو معروف تجزیہ کاروں سے بات کی:

ان میں شامل سماجیات کے پروفیسر اور نفرت سے جڑے جرائم کے محقق اور ناول نگار ڈاکٹر رانڈال بلازک کہتے ہیں کہ امریکا میں نسلی معاملات کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و تمحیض جاری ہے۔

ڈاکٹر بلازک نے شمال مغرب امریکا کی ایک ریاست اوریگون کے پورٹ لیند، جہاں ایک زمانے سے سفید فام لوگوں کی بالادستی ہوا کرتی تھی، میں کہا، ’’ہم نے امریکا میں نسلی معاملات کو سلجھانے کے لئے ٹھیک طرح سے کام نہیں کیا ہے۔ سینکڑوں برسوں تک جاری رہنے والے ادارتی نسل پرستی کے حوالے سے کوئی مصالحتی اقدام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ 2020ء میں ابھر کر پھر سامنے آگیا ہے اور شائد موجودہ وبا نے بھی اس میں ایک کردار ادا کیا۔ اب بالآخر نسل پرستی کے موضوع پر گفتگو سر فہرست ہے اور یہ گفتگو سفید فام لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہے، جو یہ جاننے کی کوشش کررہے کہ آخر اس معاملے سے کیسے نمٹا جاسکے۔‘‘

نیکی ہیلے کا کہنا ہے کہ امریکا میں نسل پرستی نہیں ہے لیکن دوسری جانب نیشنل سیکورٹی گارڈز کینوشا اور وسکون سن کے سڑکوں پر تشدد اور دھنگوں کو قابو کرنے کے لئے پیٹرولنگ کررہے ہیں۔

موجودہ تناو اُس وقت شروع ہوا، جب ایک ایک 29 سالہ سیاہ فام جیکوب بلیک پر، اسکے تین کم عمر بچوں کو موجودگی میں، ایک سفید فام پولیس آفیسر نے گولیاں چلائیں۔ اس پولیس آفیسر کو بعد میں رخصت پر بھیج دیا گیا۔ اگرچہ اس فائرنگ میں بلیک بچ گیا لیکن اس کے نتیجے میں ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے نام سے جاری تحریک کو ایک نئی جلا مل گئی۔ یہ ملک گیر تحریک تین ماہ قبل جارج فلوئیڈ نامی ایک سیاہ فام شخص کی سفید فام پولیس آفیسر کے ہاتھوں موت کی وجہ سے شروع ہوگئی تھی۔

ماضی میں بھی امریکی انتخابات میں سیاہ فاموں کی ہلاکتوں اور نسل پرستی کے مسائل موضوع بحث رہے ہیں۔ لیکن مذہبی فریڈم انسٹی چیوٹ اور ولسن سینٹر کی ایک سینئر ریسرچ فیلو فرح ناز اسپاہانی کے مطابق اس بار قومی سطح پر بحث و مباحثے میں منظم طریقے سے نسل پرستی کا موضوع زیر بحث ہے۔

واشنگٹن ڈی سی سے بات کرتے ہوئے مس اسپاہانی نے کہا، ’’ ایسا نہیں ہے کہ امریکا میں نسلی معاملات پر اس سے پہلے بات نہیں کی گئی ہے۔ خواہ یہ آئین کی بات ہو، غلامی یا شہری حقوق کی تحریک کی بات ہو یا پھر مارٹن لوتھر کنگ کی۔ ان سارے موضوعات پر پہلے بھی بات کی جاتی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان موضوعات پر پہلے بات نہیں کی گئی ہے یا پھر ان موضوعات پر سنجیدگی سے بات نہیں کی گئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ پہلے کئی لوگوں کو گولی نہیں ماردی گئی ہو۔ لیکن منظم طریقے کی نسل پرستی، جو امریکی تاریخ اور جغرافعیہ کا حصہ رہا ہے، کے موضوع پر پہلی بار بات چیت ہورہی ہے اور میرے خیال سے اب کی بار یہی ایک بڑا فرق ہے کہ منظم طریقے سے نسل پرستی کا موضوع زیر بحث ہے۔‘‘

اسپاہانی نے مزید کہا، ’’ پہلی بار امریکا کی بڑی سیاسی جماعت (ڈیموکریٹس) منظم نسل پرستی پر بات کررہی ہے۔ خواہ اس کے حق میں یا اس کی مخالفت میں، لیکن سیاسی حلقوں میں، سیاستدانوں اور میڈیا کی جانب سے اس پر بات چیت کی جارہی ہے۔ یہ موضوع امریکا بھر میں چھایا ہوا ہے۔ لوگ اس پر کوئی نہ کوئی رائے رکھتے ہیں۔ خواہ اُس موضوع پر کسی کی کوئی بھی رائے ہو لیکن اس مسئلے سے نمٹنا لازمی ہوگیا ہے۔‘‘

تاہم دوسری جانب ریپبلیکنز نے اپنی مہم کے دوران ڈیموکریٹس پر الٹرا لیفٹ ہونے، سخت گیر اور ’بلیک لائیوز‘ کے کارکن ہونے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ وہ ڈیموکریٹس کو مظاہرین اور پرتشدد انبوہ گردوں کے حامی قرار دے رہے ہیں اور رائے دہندگان سے کہہ رہے ہیں کہ ان کو شکست سے دوچار کردیا جائے۔

اس بحث میں سمیتا شرما نے سوال پوچھا کہ کیا منظم طریقے کی نسل پرستی کے موضوع پر اس بحث کے نتیجے میں امریکیوں کو مزید یکجٹ کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا یہ صورتحال قدامت پسند سفید فام امریکیوں کو یک جٹ کرسکتی ہے؟ اور یہ کیا جو بیدن اور کملا ہیرس کی ٹیم اس موضوع کے بل پر ٹرمپ کے خلاف محاذ کھڑا کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر بلازک کہتے ہیں، ’’ اس ہفتے ریپبلکین نیشنل کنونشن میں ہم نے اسے دو حصوں میں منقسم دیکھا۔ ایک جانب خوف طاری ہے اور دوسری جانب اس بحث ومباحثے کے خلاف استدلال بھی ہے۔ امریکا بدل رہا ہے۔ ہم اس تبدیلی کو روک نہیں سکتے ہیں۔ یا تو ہم اس میں اپنی رضا سے شامل ہوجائیں گے یا پھر ہم اس کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ ٹرمپ کا یہ ٹویٹ کرنا کہ ’سُبربن خواتین خانہ (شہر کے مضافاتی علاقوں میں آرام دہ زندگی بسر کرتے والے لوگ) مجھے ووٹ دیں گی کیونکہ میں اُن لوگوں (غالباً سیاہ فام لوگوں) کو اُن کے آس پڑوس سے دور رکھوں گا‘ در اصل ایک ایسی بات ہے، جو 1950ء کی دہائی میں بولی جاتی تھی۔ اس سے نہ صرف (ٹرمپ کی) پالیسی کا عندیہ ملتا ہے بلکہ سوچ کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نسلی عدم مساوات کے معاملے پر کم عمر اور بزرگ امریکی بٹے ہوئے ہیں، ڈاکٹر بالازک نے جواب دیا، ’’ ہم امریکا میں واقعی نسلوں کا فرق دیکھ رہے ہیں۔ امریکی مردم شماری بیرو نے پیشگوئی کی ہے کہ سال2050ء تک امریکی سفید فام سیاہ فامز کے مقابلے میں بہت کم ہونگے۔ یہ عملی طور پر مختلف اقلیتوں پر مشتمل ملک ہوگا۔ کئی لوگوں ، جن میں نوجوان شامل ہیں، اس پر خوش ہیں لیکن سفید فام برزگ اس بدلتی ہوئی صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ اُن کو لگ رہا ہے کہ اُن کا ملک، جو 1776ء میں قائم کیا گیا تھا، اُن سے چھینا جارہا ہے۔ وہ اس صورتحال کا دفاع کرنا چاہتے ہیں اور ایک دیوار حائل کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ امیگریشن پر پابندی لگادی جائے۔ وہ اُس ماضی کی بازیافت چاہتے ہیں، جب امریکا عمومی طور پر سفید فام لوگوں کا ملک تصور کیا جاتا تھا اور اسے مختلف جگہوں سے آنے والے لوگوں، امیگرنٹس یا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔ اُنہیں لگ رہا ہے کہ امریکا میں سفید فام لوگوں کو ایک چیلنج درپیش ہے۔‘‘

فرح ناز اسپاہا نی، جو پاکستانی النسل ہیں، نے اپنے تجربات کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’میں اب سے پینتیس سال قبل امریکا آئی تھی۔ اُس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ اُس وقت امریکا مختلف تھا۔ اُس زمانے میں امیگرنٹس کا استقبال کیا جاتا تھا۔ لیکن میرے زمانے میں زیادہ تر لوگ تعلیم کے حصول کےلئے یہاں آتے تھے۔ اُن کا تعلق پڑھے لکھے خاندانوں سے ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب یہاں آنے والے امیگرنٹس بھی مختلف ہیں اور اس وجہ سے ان کے استقبال میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ یہاں کے عمر رسیدہ لوگ خوفزدہ ہیں۔ اُنہیں لگ رہا ہے کہ ان کا طرز زندگی، اُن کا خدا، ان کی عبادت گاہیں، اُن کی زمین یعنی سب کچھ بدل رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ ٹرمپ کو اپنا ووٹ دیں گے۔ اس لحاظ سے ٹرمپ کے حق میں پڑنے والے ووٹ لازمی طور پر ایک مثبت ووٹ نہیں ہوں گے۔‘‘

امریکا میں لوگ ریپبلیکن کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امریکی ماہر سیاسیات اور مصنف فرانکس فوکویامہ نے سال 2018ء میں اپنی تصنیف ’’شناخت‘‘ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے امریکی شہری ذات اور نسل کی بنیاد پر ریپلکین کو اپنا ووٹ دیتے تھے۔ لیکن اب اس کی جگہ لوگ امیگریشن کے مسئلے کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کررہے ہیں۔ اپنی بات کے جواز میں انہوں نے ماہرین سیاسیات حجنال اور ابراجانو کے طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کو پیش کیا ہے۔

فوکویامہ نے اپنی کتاب (صفحہ 132) میں لکھا ہے، ’’ 1960ء کی دہائی میں شہری حقوق کی تحریک کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی میں افریقی امریکیوں کی شمولیت کے نتیجے میں جنوبی امریکا ریبلیکنز کے خیمے میں چلا گیا۔ آج امیگریشن کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی کردار ادا کررہا ہے۔ میکسیکین اور مسلمان امیگریشن کی مخالفت ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ایک اہم حصہ ہے۔‘‘

آج جب ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات کےلئے ووٹ مانگ رہے ہیں، امیگریشن اور نسلی معاملہ اُن کے انتخابی بحث و مباحثے کا سب سے اہم موضوع بن کر رہ گیا ہے۔

ریبپلیکن نیشن کنونشن کے آغاز میں اقوام متحدہ میں اپنی خدمات دے چکی سابق امریکی سفیر اور ساوتھ کارولینا کے سابق گورنر نیکی ہیلے نے سیاہ فام خاتون کملا ہیرس کو نائب صدر کے عہدے کا اُمیدوار نامزد کرنے پر اپنی ناپسنددیدگی کا اظہار کیا۔ دونوں ہیلے اور ہیرس کے والدین بھارتی نژاد تھے۔ ہیلے نے اپنی تقریر میں کہا، ’’ڈیموکریٹک پارٹی میں اب کہنا ایک روایت بن گئی ہے کہ امریکا نسل پرست ہے۔ یہ ایک جھوٹ ہے۔ امریکا ایک نسل پرست ملک نہیں ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھارتی نژاد امیگرنٹس کی بیٹی ہوں۔‘‘ انہوں نے حاضرین کو یہ بھی بتادیا کہ اُن کے والد پگڑی پہنا کرتے تھے اور اُن کی والدہ ساڑھی پہنتی تھیں۔

ہیلے نے مزید کہا، ’’ امریکا اُبھر رہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اسکی تعمیر میں امریکا کو مزید آزادانہ، منصفانہ اور سب کے لئے بہتر بنایا جائے۔ ڈیموکریٹک پارٹی دھنگوں اور تشدد کی معاملات سے نظریں چُرا رہی ہے۔‘‘

تو کیا امریکا نسل پرست ہے؟ کیا 2020ء کے انتخابات کے حوالے سے سماجی اور سیاسی حلقوں میں ایک منظم طریقے سے نسلی مسائل اُبھارے جارہے ہیں؟ سینئر صحافی سمیتا شرما نے اپنے پروگرام ’’بیٹل گراونڈ، امریکا 2020ء ‘‘ کی دوسری قسط میں امریکا کے دو معروف تجزیہ کاروں سے بات کی:

ان میں شامل سماجیات کے پروفیسر اور نفرت سے جڑے جرائم کے محقق اور ناول نگار ڈاکٹر رانڈال بلازک کہتے ہیں کہ امریکا میں نسلی معاملات کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و تمحیض جاری ہے۔

ڈاکٹر بلازک نے شمال مغرب امریکا کی ایک ریاست اوریگون کے پورٹ لیند، جہاں ایک زمانے سے سفید فام لوگوں کی بالادستی ہوا کرتی تھی، میں کہا، ’’ہم نے امریکا میں نسلی معاملات کو سلجھانے کے لئے ٹھیک طرح سے کام نہیں کیا ہے۔ سینکڑوں برسوں تک جاری رہنے والے ادارتی نسل پرستی کے حوالے سے کوئی مصالحتی اقدام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ 2020ء میں ابھر کر پھر سامنے آگیا ہے اور شائد موجودہ وبا نے بھی اس میں ایک کردار ادا کیا۔ اب بالآخر نسل پرستی کے موضوع پر گفتگو سر فہرست ہے اور یہ گفتگو سفید فام لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہے، جو یہ جاننے کی کوشش کررہے کہ آخر اس معاملے سے کیسے نمٹا جاسکے۔‘‘

نیکی ہیلے کا کہنا ہے کہ امریکا میں نسل پرستی نہیں ہے لیکن دوسری جانب نیشنل سیکورٹی گارڈز کینوشا اور وسکون سن کے سڑکوں پر تشدد اور دھنگوں کو قابو کرنے کے لئے پیٹرولنگ کررہے ہیں۔

موجودہ تناو اُس وقت شروع ہوا، جب ایک ایک 29 سالہ سیاہ فام جیکوب بلیک پر، اسکے تین کم عمر بچوں کو موجودگی میں، ایک سفید فام پولیس آفیسر نے گولیاں چلائیں۔ اس پولیس آفیسر کو بعد میں رخصت پر بھیج دیا گیا۔ اگرچہ اس فائرنگ میں بلیک بچ گیا لیکن اس کے نتیجے میں ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے نام سے جاری تحریک کو ایک نئی جلا مل گئی۔ یہ ملک گیر تحریک تین ماہ قبل جارج فلوئیڈ نامی ایک سیاہ فام شخص کی سفید فام پولیس آفیسر کے ہاتھوں موت کی وجہ سے شروع ہوگئی تھی۔

ماضی میں بھی امریکی انتخابات میں سیاہ فاموں کی ہلاکتوں اور نسل پرستی کے مسائل موضوع بحث رہے ہیں۔ لیکن مذہبی فریڈم انسٹی چیوٹ اور ولسن سینٹر کی ایک سینئر ریسرچ فیلو فرح ناز اسپاہانی کے مطابق اس بار قومی سطح پر بحث و مباحثے میں منظم طریقے سے نسل پرستی کا موضوع زیر بحث ہے۔

واشنگٹن ڈی سی سے بات کرتے ہوئے مس اسپاہانی نے کہا، ’’ ایسا نہیں ہے کہ امریکا میں نسلی معاملات پر اس سے پہلے بات نہیں کی گئی ہے۔ خواہ یہ آئین کی بات ہو، غلامی یا شہری حقوق کی تحریک کی بات ہو یا پھر مارٹن لوتھر کنگ کی۔ ان سارے موضوعات پر پہلے بھی بات کی جاتی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان موضوعات پر پہلے بات نہیں کی گئی ہے یا پھر ان موضوعات پر سنجیدگی سے بات نہیں کی گئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ پہلے کئی لوگوں کو گولی نہیں ماردی گئی ہو۔ لیکن منظم طریقے کی نسل پرستی، جو امریکی تاریخ اور جغرافعیہ کا حصہ رہا ہے، کے موضوع پر پہلی بار بات چیت ہورہی ہے اور میرے خیال سے اب کی بار یہی ایک بڑا فرق ہے کہ منظم طریقے سے نسل پرستی کا موضوع زیر بحث ہے۔‘‘

اسپاہانی نے مزید کہا، ’’ پہلی بار امریکا کی بڑی سیاسی جماعت (ڈیموکریٹس) منظم نسل پرستی پر بات کررہی ہے۔ خواہ اس کے حق میں یا اس کی مخالفت میں، لیکن سیاسی حلقوں میں، سیاستدانوں اور میڈیا کی جانب سے اس پر بات چیت کی جارہی ہے۔ یہ موضوع امریکا بھر میں چھایا ہوا ہے۔ لوگ اس پر کوئی نہ کوئی رائے رکھتے ہیں۔ خواہ اُس موضوع پر کسی کی کوئی بھی رائے ہو لیکن اس مسئلے سے نمٹنا لازمی ہوگیا ہے۔‘‘

تاہم دوسری جانب ریپبلیکنز نے اپنی مہم کے دوران ڈیموکریٹس پر الٹرا لیفٹ ہونے، سخت گیر اور ’بلیک لائیوز‘ کے کارکن ہونے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ وہ ڈیموکریٹس کو مظاہرین اور پرتشدد انبوہ گردوں کے حامی قرار دے رہے ہیں اور رائے دہندگان سے کہہ رہے ہیں کہ ان کو شکست سے دوچار کردیا جائے۔

اس بحث میں سمیتا شرما نے سوال پوچھا کہ کیا منظم طریقے کی نسل پرستی کے موضوع پر اس بحث کے نتیجے میں امریکیوں کو مزید یکجٹ کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا یہ صورتحال قدامت پسند سفید فام امریکیوں کو یک جٹ کرسکتی ہے؟ اور یہ کیا جو بیدن اور کملا ہیرس کی ٹیم اس موضوع کے بل پر ٹرمپ کے خلاف محاذ کھڑا کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر بلازک کہتے ہیں، ’’ اس ہفتے ریپبلکین نیشنل کنونشن میں ہم نے اسے دو حصوں میں منقسم دیکھا۔ ایک جانب خوف طاری ہے اور دوسری جانب اس بحث ومباحثے کے خلاف استدلال بھی ہے۔ امریکا بدل رہا ہے۔ ہم اس تبدیلی کو روک نہیں سکتے ہیں۔ یا تو ہم اس میں اپنی رضا سے شامل ہوجائیں گے یا پھر ہم اس کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ ٹرمپ کا یہ ٹویٹ کرنا کہ ’سُبربن خواتین خانہ (شہر کے مضافاتی علاقوں میں آرام دہ زندگی بسر کرتے والے لوگ) مجھے ووٹ دیں گی کیونکہ میں اُن لوگوں (غالباً سیاہ فام لوگوں) کو اُن کے آس پڑوس سے دور رکھوں گا‘ در اصل ایک ایسی بات ہے، جو 1950ء کی دہائی میں بولی جاتی تھی۔ اس سے نہ صرف (ٹرمپ کی) پالیسی کا عندیہ ملتا ہے بلکہ سوچ کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نسلی عدم مساوات کے معاملے پر کم عمر اور بزرگ امریکی بٹے ہوئے ہیں، ڈاکٹر بالازک نے جواب دیا، ’’ ہم امریکا میں واقعی نسلوں کا فرق دیکھ رہے ہیں۔ امریکی مردم شماری بیرو نے پیشگوئی کی ہے کہ سال2050ء تک امریکی سفید فام سیاہ فامز کے مقابلے میں بہت کم ہونگے۔ یہ عملی طور پر مختلف اقلیتوں پر مشتمل ملک ہوگا۔ کئی لوگوں ، جن میں نوجوان شامل ہیں، اس پر خوش ہیں لیکن سفید فام برزگ اس بدلتی ہوئی صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ اُن کو لگ رہا ہے کہ اُن کا ملک، جو 1776ء میں قائم کیا گیا تھا، اُن سے چھینا جارہا ہے۔ وہ اس صورتحال کا دفاع کرنا چاہتے ہیں اور ایک دیوار حائل کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ امیگریشن پر پابندی لگادی جائے۔ وہ اُس ماضی کی بازیافت چاہتے ہیں، جب امریکا عمومی طور پر سفید فام لوگوں کا ملک تصور کیا جاتا تھا اور اسے مختلف جگہوں سے آنے والے لوگوں، امیگرنٹس یا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔ اُنہیں لگ رہا ہے کہ امریکا میں سفید فام لوگوں کو ایک چیلنج درپیش ہے۔‘‘

فرح ناز اسپاہا نی، جو پاکستانی النسل ہیں، نے اپنے تجربات کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’میں اب سے پینتیس سال قبل امریکا آئی تھی۔ اُس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ اُس وقت امریکا مختلف تھا۔ اُس زمانے میں امیگرنٹس کا استقبال کیا جاتا تھا۔ لیکن میرے زمانے میں زیادہ تر لوگ تعلیم کے حصول کےلئے یہاں آتے تھے۔ اُن کا تعلق پڑھے لکھے خاندانوں سے ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب یہاں آنے والے امیگرنٹس بھی مختلف ہیں اور اس وجہ سے ان کے استقبال میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ یہاں کے عمر رسیدہ لوگ خوفزدہ ہیں۔ اُنہیں لگ رہا ہے کہ ان کا طرز زندگی، اُن کا خدا، ان کی عبادت گاہیں، اُن کی زمین یعنی سب کچھ بدل رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ ٹرمپ کو اپنا ووٹ دیں گے۔ اس لحاظ سے ٹرمپ کے حق میں پڑنے والے ووٹ لازمی طور پر ایک مثبت ووٹ نہیں ہوں گے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.