ETV Bharat / opinion

نئی تعلیمی پالیسی: شاندار مستقبل کا راستہ!

اشوکا یونیورسٹی میں شعبۂ تخلیقی تحریر کے سربراہ اور انگریزی کے پروفیسر سائکت موجومدار نے نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ نئی تعلیمی پالیسی سے بھارت میں پیشہ وارانہ سوچ کی کافی تجدید ہوگی جسکے تحت تحقیق و تدریس کا کام بہتر ہوجائے گا۔

نئی تعلیمی پالیسی: شاندار مستقبل کا راستہ!
نئی تعلیمی پالیسی: شاندار مستقبل کا راستہ!
author img

By

Published : Aug 8, 2020, 3:11 PM IST

نئی تعلیمی پالیسی یا نیو ایجوکیشن پالیسی (این ای پی) 2020 ایک متاثر کُن اور متمنی دستاویز ہے جو مستقبل کے حوالے سے نئی روشنی اور امید لئے آتی ہے۔چونکہ میں کمیٹی کے کئی ممبران سے ملکر انکے ساتھ اس پر مفصل بات کرچکا ہوں،میں دستاویز کی جھکاؤ بجانبِ مستقبل والی نوعیت سے حیران نہیں ہوں۔نئی تعلیمی پالیسی کی اس دستاویز سے امید رکھنا فطری اور متوقع ہے۔

تعلیمی پالیسی کی ترتیب کیلئے قائم کمیٹی، جن ممبران کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے کا مجھے موقع ملا ہے ان میں معتبر سائنسدان ڈاکٹر کستوری رانجن، اور بزنس ایڈمنسٹریشن کا پسِ منظر رکھنے والے تعلیم دان ڈاکٹر ایم کے سریدھر مکام،جو ابھی بنگلور میں اعلیٰ تعلیم کے ’’ریسرچ اینڈ پالیسی سنٹر‘‘ کے سربراہ ہیں،شامل ہیں۔

لیکن شاید اس کمیٹی میں جدید سوچ کے سب سے نمایاں نمائندہ ،پرنسٹن ریاضی کے پروفیسر اور فیلڈز میڈل کے فاتح ، منجول بھارگ،جو ریاضی میں اپنی بیشتر صلاحیتوں کیلئے بھارتی کلاسیکل موسیقی کے تئیں اپنے لگاؤ کو وجہ مانتے ہیں۔ لیکن بھارت جیسے عظیم ملک کو مستقبل میں اس جانب راغب کرنا بھی ایک غیر معمولی اور خواہشمند مہم ہے لہٰذا اس کی کامیابی کا انحصار وسائل کی خاطر خواہ فراہمی اور بہت سے لوگوں کے تعاون پر ہوگا۔ جیسا کہ بار بار دہرایا جاتا ہے: کوئی بھی پالیسی اتنی ہی اچھی ہوتی ہے کہ جتنا اچھا اسکا نفاذ ہو۔

جب اعلی تعلیم کی بات آتی ہے تو کئی حیرت انگیز باتوں پر بات کرنا ضروری ہوجاتا ہے، سب سے پہلے نئی تعلیمی پالیسی میں ان نکات پر سخت تنقید ظاہر کی گئی ہے جس میں ہم ایک طرح کے مضامین پڑھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں، ملک کی عوامی یونیورسٹیز میں پڑھ چکے ہم سے کئیوں کیلئے اور بلاشبہ ان کے لیے جو آج بھی ایسا کر رہے ہیں، وہ آج بھی اس طرح کے تعلیمی نظام کے ڈھانچے میں ڈھلے ہوئے خود کو محسوس کر رہے ہیں۔طلباء کو ہائی اسکول میں ہی آرٹس، سائنس اور کامرس میں سے کسی ایک مضامین کو چننا پڑتا ہے جو ان کی کیرئیر کو بنانے اور یقنیا زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مزید دباؤ پیدا کرتا ہے۔

واضح طور پر امتحانات کے حساب سے نصاب طئے کرنے والا یہ نظام برطانوی نوآبادیتی یونیورسٹی کی میراث ہے، جو یونیورسٹی آف لندن سے ہے نہ کہ اوکس برج ماڈل پر مشتمل ہے۔یہ نظام آج بھی ویسا کا ویسا ہی ہے۔جبکہ آج کی دنیا 21 ویں صدی کے تعلیم کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ریاضی، موسیقی اور ادب جیسے موضوع کی تعلیم ایک ساتھ مل کر حاصل کرنے کی آزادی ہے، جس سے سیلیکون ویلی کے جدید ثقافت کو تقویت مل رہی ہے۔بھارت کی نئی اعلی تعلیمی نظام بھی ہمیں جلد ہی 21 ویں صدی کی جدید علمی معیشت کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔

اس (نئی تعلیمی پالیسی) سے بھارت میں پیشہ ورانہ سوچ کی کافی تجدید ہوگی جسکے تحت تحقیق و تدریس کا کام بہتر ہوجائے گا ۔البتہ اسکے لئے اعلیٰ سطح پر تحقیقی کام کے طریقہ کی تجدید درکار ہے جو بدلے میں مستقبل کے اساتذہ کی تربیت کرے گا۔ مجوزہ نیشنل ریسرچ فاونڈیشن اس اہم ضرورت کو پورا کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کو اسی انداز سے بنایا اور چلایا جائے گا کہ جس سوچ اور منصوبے کے تحت اسکے بارے میں سوچا گیا ہے۔ اس آرزو کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، یہ توقع صرف فطری طور پر کی جاتی ہے کہ تحقیق اور تدریسی عملہ کی ترقی (فیکلٹی ڈیو لویمنٹ) میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی ، اور این ای پی 2020 اس حوالے سے مایوس کُن نہیں ہے۔یہ بات دستاویز میں خصوصیت کے ساتھ درج ہے اور چونکہ اس ملک میں تحقیق و تربیت کا ناقص ماحول ہے - آندرے بیٹیل نے ایک بار ہمارے ڈاکٹریٹ کلچر کو تربیت یافتہ نااہلی کی پیداوار کہا تھا ۔ یہ ایک چبھنے والی ضرورت ہے۔البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے راتوں رات بدلا یا پورا نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ انتظامی تبدیلی کا معاملہ نہیں بلکہ تہذیب کی ترتیبِ نو کا معاملہ ہے لہٰذا اس حوالے سے کامیابی کی پیش گوئی کرنا آسان کام نہیں ہے۔

نئی اعلیٰ تعلیمی پالیسی کی ،غالباََ، سب سے اہم خصوصیت انڈرگریجویٹ طلبأ کو پیش کردہ وہ لچک ہے کہ جسکے تحت انکے لئے ڈگری پروگراموں سے اخراج کے کئی متبادل دستیاب کرائے گئے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ہی محسوس کیا ہے کہ انڈرگریجویٹ ایجوکیشن،جو گہرائی اور حد کو جوڑتی ہو، وہ چار سال دورانیہ کی ہونی چاہیئے اور اب نئی دستاویز نے اسے احساس کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔تاہم ڈگری پروگرام کے ہر چار سال میں لڑکھڑاتے خارجی متبادل (ایکزٹ اوپشنز) - ڈپلوما،ایڈوانسڈ ڈپلوما اور 3 اور 4 سالہ بی اے ڈگری – یہاں تک کہ جسے میں کسی حد تک پُر خطر (رِسکی) کہوں گا فی الواقع سنگین ہیں۔ اس بات کی پریشانی کو ٹالا نہیں جاسکتا ہے کہ کوئی ایک سال کے کالج کے بعد کس قسم کی اعلیٰ تعلیم کا راستہ اختیار کرسکتا ہے؟ حالانکہ ہمارے زمانے کے بی اے /بی ایس سی/بی کوم پاس اور آنرس میں آنرس مضمون کے بغیر کامیاب طلبأ دو سال کالج میں گذارتے تھے اور یہ ایک خوبصورت کنکال تعلیم سمجھی جاتی تھی۔امید ہے کہ ایک سال کے بعد چھوڑ کے چلے جانے کے اس متبادل (ایکزٹ اوپشن) کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا جو نہیں تو کالج کی تعلیم کو بے لطف یا معمولی بناکے رکھ سکتا ہے۔

باالآخر نئی (تعلیمی) پالیسی بین الاقوامی یونیورسٹیز (اسٹنڈارڈ رینکنگ سسٹم میں سرِ فہرست سو میں سے) کو بھارت میں اپنے کیمپس کھولنے کی اجازت دیتی ہے جو اپنے آپ میں ایک بڑا قدم ہے۔ بنیادی طور پر بھارتی (نظامِ) اعلی تعلیم کو آزاد کرنا اور اس کے نتائج یا تو مثبت یا منفی ، دونوں ہوسکتے ہیں جسکے بارے میں ابھی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔

بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے گھریلو منظر نامہ کیلئے اس (نئی تعلیمی پالیسی) کا مطلب کچھ بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس ( پالیسی) کی مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کیلئے بڑی اہمیت ہوگی،باالخصوص امریکہ و برطانیہ جہاں کی یونیورسٹیز اب رقومات کی کمی اور سکڑتے ہوئے میزانیہ سے لیکر کم ہورہے اندراجات اور حکومتوں کی مخالفانہ پالیسیوں تک کے کئی مسائل سے دوچار ہیں۔اپنی مالیات کے اہم حصوں کیلئے بہت طویل مدت سے بین الاقوامی داخلوں پر انحصار کرتی آرہی یونیورسٹیز کیلئے بھارت جیسے وسیع تعلیمی بازار میں کیمپس کھولنے کی سہولت کیلئے وسیع سرمایہ کاری اور تعاون کی ضرورت ہوگی اور سب سے اہم بات یہ کہ اس سب سے رقومات کی دستیابی کے مسائل سے دوچار ان بین الاقوامی یونیورسٹیز کیلئے حصولِ مالیات کے نئے راستے ہونگے۔ سنگاپور میں ییل - این یو ایس اور مشرقِ وسطیٰ میں نیو یارک یونیورسٹی کے مختلف کیمپسز پہلے ہی اہم مثالیں قائم کرچکے ہیں۔ یہ بات حیران کُن نہیں ہے کہ ٹائمز آف ہائیر ایجوکیشن نے بھارت میں اعلیٰ تعلیم کی اس آزادی پر ایک ’’لیڈ اسٹوری‘‘ چلائی ہے۔

بھارت میں گھریلو تعلیمی منظرنامہ کیلئے اس تعلیمی نظام کی آزادی کا مطلب کیا ہوگا؟ کیا اس سے خود مختار یونیورسٹیز کی ضرورت بڑھ جائے گی؟ کیا یہ انہیں ایک غیر صحتمند مقابلے میں لا چھوڑےگی؟ کیا یہ اسکی اسٹوڈنٹ باڈٰ کو ڈرین کرے گی؟ کیا اس سے اعلیٰ تعلیم کے تئیں عوامی ذہنیت کی سمت بدلے گی؟تبدیلی کے اثرات کس پر ہونگے؟کیا صرف ایک سہولت یافتہ قلیل اقلیت ہی فائدہ اٹھاسکے گی؟کیا اس سے ملک کے نوجوانوں کی کثیر آبادی پر مجموعی طور کوئی اثر ہوپائے گا؟ ان سوالات کا جواب تو فقط وقت ہی دے سکے گا۔ مستقبل کے بارے میں تو صرف اچھی خواہش کی ہی جاسکتی ہے لیکن یہ سودا مہنگا بھی ہوسکتا ہے!

سائکت موجومدار انگریزی کے ایک پروفیسر اور اشوکا یونیورسٹی میں شعبۂ تخلیقی تحریر کے سربراہ ہیں۔ سائکت ایک ساول نگار اور ناقد ہیں۔ وہ بھارت اور امریکہ میں پڑھے ہوئے ہیں جہاں وہ کئی سال تک پڑھاتے بھی رہے ہیں۔اشوکا یونیورسٹی میں آنے سے قبل وہ سٹینفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی یا نیو ایجوکیشن پالیسی (این ای پی) 2020 ایک متاثر کُن اور متمنی دستاویز ہے جو مستقبل کے حوالے سے نئی روشنی اور امید لئے آتی ہے۔چونکہ میں کمیٹی کے کئی ممبران سے ملکر انکے ساتھ اس پر مفصل بات کرچکا ہوں،میں دستاویز کی جھکاؤ بجانبِ مستقبل والی نوعیت سے حیران نہیں ہوں۔نئی تعلیمی پالیسی کی اس دستاویز سے امید رکھنا فطری اور متوقع ہے۔

تعلیمی پالیسی کی ترتیب کیلئے قائم کمیٹی، جن ممبران کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے کا مجھے موقع ملا ہے ان میں معتبر سائنسدان ڈاکٹر کستوری رانجن، اور بزنس ایڈمنسٹریشن کا پسِ منظر رکھنے والے تعلیم دان ڈاکٹر ایم کے سریدھر مکام،جو ابھی بنگلور میں اعلیٰ تعلیم کے ’’ریسرچ اینڈ پالیسی سنٹر‘‘ کے سربراہ ہیں،شامل ہیں۔

لیکن شاید اس کمیٹی میں جدید سوچ کے سب سے نمایاں نمائندہ ،پرنسٹن ریاضی کے پروفیسر اور فیلڈز میڈل کے فاتح ، منجول بھارگ،جو ریاضی میں اپنی بیشتر صلاحیتوں کیلئے بھارتی کلاسیکل موسیقی کے تئیں اپنے لگاؤ کو وجہ مانتے ہیں۔ لیکن بھارت جیسے عظیم ملک کو مستقبل میں اس جانب راغب کرنا بھی ایک غیر معمولی اور خواہشمند مہم ہے لہٰذا اس کی کامیابی کا انحصار وسائل کی خاطر خواہ فراہمی اور بہت سے لوگوں کے تعاون پر ہوگا۔ جیسا کہ بار بار دہرایا جاتا ہے: کوئی بھی پالیسی اتنی ہی اچھی ہوتی ہے کہ جتنا اچھا اسکا نفاذ ہو۔

جب اعلی تعلیم کی بات آتی ہے تو کئی حیرت انگیز باتوں پر بات کرنا ضروری ہوجاتا ہے، سب سے پہلے نئی تعلیمی پالیسی میں ان نکات پر سخت تنقید ظاہر کی گئی ہے جس میں ہم ایک طرح کے مضامین پڑھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں، ملک کی عوامی یونیورسٹیز میں پڑھ چکے ہم سے کئیوں کیلئے اور بلاشبہ ان کے لیے جو آج بھی ایسا کر رہے ہیں، وہ آج بھی اس طرح کے تعلیمی نظام کے ڈھانچے میں ڈھلے ہوئے خود کو محسوس کر رہے ہیں۔طلباء کو ہائی اسکول میں ہی آرٹس، سائنس اور کامرس میں سے کسی ایک مضامین کو چننا پڑتا ہے جو ان کی کیرئیر کو بنانے اور یقنیا زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مزید دباؤ پیدا کرتا ہے۔

واضح طور پر امتحانات کے حساب سے نصاب طئے کرنے والا یہ نظام برطانوی نوآبادیتی یونیورسٹی کی میراث ہے، جو یونیورسٹی آف لندن سے ہے نہ کہ اوکس برج ماڈل پر مشتمل ہے۔یہ نظام آج بھی ویسا کا ویسا ہی ہے۔جبکہ آج کی دنیا 21 ویں صدی کے تعلیم کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ریاضی، موسیقی اور ادب جیسے موضوع کی تعلیم ایک ساتھ مل کر حاصل کرنے کی آزادی ہے، جس سے سیلیکون ویلی کے جدید ثقافت کو تقویت مل رہی ہے۔بھارت کی نئی اعلی تعلیمی نظام بھی ہمیں جلد ہی 21 ویں صدی کی جدید علمی معیشت کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔

اس (نئی تعلیمی پالیسی) سے بھارت میں پیشہ ورانہ سوچ کی کافی تجدید ہوگی جسکے تحت تحقیق و تدریس کا کام بہتر ہوجائے گا ۔البتہ اسکے لئے اعلیٰ سطح پر تحقیقی کام کے طریقہ کی تجدید درکار ہے جو بدلے میں مستقبل کے اساتذہ کی تربیت کرے گا۔ مجوزہ نیشنل ریسرچ فاونڈیشن اس اہم ضرورت کو پورا کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کو اسی انداز سے بنایا اور چلایا جائے گا کہ جس سوچ اور منصوبے کے تحت اسکے بارے میں سوچا گیا ہے۔ اس آرزو کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، یہ توقع صرف فطری طور پر کی جاتی ہے کہ تحقیق اور تدریسی عملہ کی ترقی (فیکلٹی ڈیو لویمنٹ) میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی ، اور این ای پی 2020 اس حوالے سے مایوس کُن نہیں ہے۔یہ بات دستاویز میں خصوصیت کے ساتھ درج ہے اور چونکہ اس ملک میں تحقیق و تربیت کا ناقص ماحول ہے - آندرے بیٹیل نے ایک بار ہمارے ڈاکٹریٹ کلچر کو تربیت یافتہ نااہلی کی پیداوار کہا تھا ۔ یہ ایک چبھنے والی ضرورت ہے۔البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے راتوں رات بدلا یا پورا نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ انتظامی تبدیلی کا معاملہ نہیں بلکہ تہذیب کی ترتیبِ نو کا معاملہ ہے لہٰذا اس حوالے سے کامیابی کی پیش گوئی کرنا آسان کام نہیں ہے۔

نئی اعلیٰ تعلیمی پالیسی کی ،غالباََ، سب سے اہم خصوصیت انڈرگریجویٹ طلبأ کو پیش کردہ وہ لچک ہے کہ جسکے تحت انکے لئے ڈگری پروگراموں سے اخراج کے کئی متبادل دستیاب کرائے گئے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ہی محسوس کیا ہے کہ انڈرگریجویٹ ایجوکیشن،جو گہرائی اور حد کو جوڑتی ہو، وہ چار سال دورانیہ کی ہونی چاہیئے اور اب نئی دستاویز نے اسے احساس کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔تاہم ڈگری پروگرام کے ہر چار سال میں لڑکھڑاتے خارجی متبادل (ایکزٹ اوپشنز) - ڈپلوما،ایڈوانسڈ ڈپلوما اور 3 اور 4 سالہ بی اے ڈگری – یہاں تک کہ جسے میں کسی حد تک پُر خطر (رِسکی) کہوں گا فی الواقع سنگین ہیں۔ اس بات کی پریشانی کو ٹالا نہیں جاسکتا ہے کہ کوئی ایک سال کے کالج کے بعد کس قسم کی اعلیٰ تعلیم کا راستہ اختیار کرسکتا ہے؟ حالانکہ ہمارے زمانے کے بی اے /بی ایس سی/بی کوم پاس اور آنرس میں آنرس مضمون کے بغیر کامیاب طلبأ دو سال کالج میں گذارتے تھے اور یہ ایک خوبصورت کنکال تعلیم سمجھی جاتی تھی۔امید ہے کہ ایک سال کے بعد چھوڑ کے چلے جانے کے اس متبادل (ایکزٹ اوپشن) کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا جو نہیں تو کالج کی تعلیم کو بے لطف یا معمولی بناکے رکھ سکتا ہے۔

باالآخر نئی (تعلیمی) پالیسی بین الاقوامی یونیورسٹیز (اسٹنڈارڈ رینکنگ سسٹم میں سرِ فہرست سو میں سے) کو بھارت میں اپنے کیمپس کھولنے کی اجازت دیتی ہے جو اپنے آپ میں ایک بڑا قدم ہے۔ بنیادی طور پر بھارتی (نظامِ) اعلی تعلیم کو آزاد کرنا اور اس کے نتائج یا تو مثبت یا منفی ، دونوں ہوسکتے ہیں جسکے بارے میں ابھی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔

بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے گھریلو منظر نامہ کیلئے اس (نئی تعلیمی پالیسی) کا مطلب کچھ بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس ( پالیسی) کی مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کیلئے بڑی اہمیت ہوگی،باالخصوص امریکہ و برطانیہ جہاں کی یونیورسٹیز اب رقومات کی کمی اور سکڑتے ہوئے میزانیہ سے لیکر کم ہورہے اندراجات اور حکومتوں کی مخالفانہ پالیسیوں تک کے کئی مسائل سے دوچار ہیں۔اپنی مالیات کے اہم حصوں کیلئے بہت طویل مدت سے بین الاقوامی داخلوں پر انحصار کرتی آرہی یونیورسٹیز کیلئے بھارت جیسے وسیع تعلیمی بازار میں کیمپس کھولنے کی سہولت کیلئے وسیع سرمایہ کاری اور تعاون کی ضرورت ہوگی اور سب سے اہم بات یہ کہ اس سب سے رقومات کی دستیابی کے مسائل سے دوچار ان بین الاقوامی یونیورسٹیز کیلئے حصولِ مالیات کے نئے راستے ہونگے۔ سنگاپور میں ییل - این یو ایس اور مشرقِ وسطیٰ میں نیو یارک یونیورسٹی کے مختلف کیمپسز پہلے ہی اہم مثالیں قائم کرچکے ہیں۔ یہ بات حیران کُن نہیں ہے کہ ٹائمز آف ہائیر ایجوکیشن نے بھارت میں اعلیٰ تعلیم کی اس آزادی پر ایک ’’لیڈ اسٹوری‘‘ چلائی ہے۔

بھارت میں گھریلو تعلیمی منظرنامہ کیلئے اس تعلیمی نظام کی آزادی کا مطلب کیا ہوگا؟ کیا اس سے خود مختار یونیورسٹیز کی ضرورت بڑھ جائے گی؟ کیا یہ انہیں ایک غیر صحتمند مقابلے میں لا چھوڑےگی؟ کیا یہ اسکی اسٹوڈنٹ باڈٰ کو ڈرین کرے گی؟ کیا اس سے اعلیٰ تعلیم کے تئیں عوامی ذہنیت کی سمت بدلے گی؟تبدیلی کے اثرات کس پر ہونگے؟کیا صرف ایک سہولت یافتہ قلیل اقلیت ہی فائدہ اٹھاسکے گی؟کیا اس سے ملک کے نوجوانوں کی کثیر آبادی پر مجموعی طور کوئی اثر ہوپائے گا؟ ان سوالات کا جواب تو فقط وقت ہی دے سکے گا۔ مستقبل کے بارے میں تو صرف اچھی خواہش کی ہی جاسکتی ہے لیکن یہ سودا مہنگا بھی ہوسکتا ہے!

سائکت موجومدار انگریزی کے ایک پروفیسر اور اشوکا یونیورسٹی میں شعبۂ تخلیقی تحریر کے سربراہ ہیں۔ سائکت ایک ساول نگار اور ناقد ہیں۔ وہ بھارت اور امریکہ میں پڑھے ہوئے ہیں جہاں وہ کئی سال تک پڑھاتے بھی رہے ہیں۔اشوکا یونیورسٹی میں آنے سے قبل وہ سٹینفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.