ETV Bharat / opinion

نئی تعلیمی پالیسی: امکانات اور خدشات

یونیورسٹی آف دہلی کے سوامی شردھا آنند کالج میں ڈیپارٹمٹ آف ہسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کمار سنجے سنگھ نے نئے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے کہا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں آن لائن فاصلاتی تعلیم (او ڈی ایل) اور بڑے پیمانے پر آن لائن کورسز متعارف کرانے کی بات کہی گئی ہے۔

author img

By

Published : Aug 1, 2020, 12:16 PM IST

Updated : Aug 1, 2020, 12:56 PM IST

نئی تعلیمی پالیسی: امکانات اور خدشات
نئی تعلیمی پالیسی: امکانات اور خدشات

پالیسی ڈاکو منٹ کے مطابق اس طرح سے طلبا کے اندارج میں پچاس فیصد کے اضافے کا ہدف کافی حد تک پورا ہوگا۔ لیکن کووِڈ-19 لاک ڈاون کے دوران آن لائن ٹیچنگ کے تجربے نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ غریب طبقے کے لوگ اس طرح کے تعلیمی نظام سے استفادہ حاصل نہیں کرپاتے ہیں- کیونکہ ان کے پاس آن لائن کورسز میں شمولیت کےلئے مطلوبہ الیکٹرانک آلات میسر نہیں ہوتے ہیں۔ نئی پالیسی میں دور جدید میں کام آنے والے کورسز کو فروغ دینے کی طرف زیادہ رجحان نظر آتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں موجودہ کمزور ریسرچ مطابقت نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس ہائر ایجوکیشن کی ترقی کی موجودہ استعداد اتنی زیادہ ہے۔

29 جولائی 2020ء کو نئی ایجوکیشن پالیسی متعارف کرائی گئی، نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء ایک وسیع پیمانے کی پالیسی ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد ملک بھر کے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر بہتر بنانا ہے۔ اس پالیسی کا ہدف دونوں یعنی پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کو مکمل طور اورہال کرنا ہے۔ نئی ایجوکیشن پالیسی میں آٹھ مختلف پہلوئوں پر زور دیا گیا ہے۔

(۱)۔ اسکولنگ اور بنیادی تعلیم

(۲)۔ اسکولوں کے وسائل اور ان کا انفراسٹکچر

(۳)۔ طلبا کی مجموعی ترقی

(۴)۔ یکساں لحاظ سے سب کو شامل کرنا

(۵)۔ تعلیمی نظام کا جائزہ لینا

(۶)۔ نصابِ تعلیم اور فن تعلیم کا فریم ورک

(۷)۔ اساتذہ کی تقرری اور اُنکی تعلیمی قابلیت

(۸)۔ سرکاری محکموں، انجمنوں اور اداروں کا کردار

دراصل حکومت تعلیمی شعبے کے ان بنیادی پہلوئوں میں بہتری لاتے ہوئے تعلیمی اخراجات میں سال2035 ء تک پچاس فیصد کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ تعلیمی نظام میں اختراعی اور تخلیقی طریقے اختیار کرکے حکومت در اصل بھارت کو تعلیم کے حوالے سے ایک عالمی طاقت بنانے کے ہداف کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ معلمانہ لحاظ سے اس نئی تعلیمی پالیسی کے نتیجے میں پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کے نصاب میں زبردست تبدیلی آئے گی۔ جہاں تک پرائمری تعلیم کا تعلق ہے، اس میں مادری زبان کی نشو نما کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ پانچویں جماعت تک مادری زبان میں ہی نصاب پڑھایا جائے گا۔ اسی طرح فنون عامہ (لبرل آرٹس) کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس کے ذریعے پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظم و ضبط کو فروغ دیا جائے گا۔ یعنی پرائمری ایجوکیشن میں فنون عامہ کے ذریعے بچوں کو پیشہ ورانہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکول ایجوکیشن چار مرحلوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلے بنیادی مرحلہ (تین سال سے آٹھ سال کی عمر کے بچوں کےلئے)، اس کے بعد تیاری کا مرحلہ (آٹھ سال سے گیارہ سال کے بچوں کےلئے)، تیسرا درمیانی مرحلہ (گیارہ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کےلئے اور آخر میں سیکنڈری سٹیج (چودہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کےلئے) پر مشتمل ہوگا۔ فنون عامہ سے متعلق نقطہ نظر کا بنیادی مقصد اسے پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے اور یہ طریقہ کار ہائر ایجوکیشن کے مرحلے تک اپنایا جائے گا، جس کے بعد طلبا کو اپنی پسند کے مضامین چُننے کا اختیار حاصل ہوگا یعنی اس کے بعد چوائس بیسڈ کریڈٹ سسٹم (سی بی سی ایس) متعارف ہوگا۔

اس کے علاوہ آرٹس اور سائنس کے مضامین میں انڈر گریجویشن پروگارم کے لئے موجودہ تین سالہ نظام میں وسعت دیکر اسے چار سال پر محیط کردیا جائے گا۔ تاہم طلبا کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ انڈر گریجویشن کے ابتدائی ایک سال بعد (سرٹیفیکیٹ پروگرام کے تحت)، دو سال بعد ڈپلوما پروگرام کے تحت یا تین سال بعد ڈگری پروگرام کے تحت کورس چھوڑ سکتے ہیں۔ صرف اُن طلبا، جو تحقیق کے شعبے میں جانا چاہتے ہوں، کو گریجویشن کےلئے چار سال پورے کرنے ہونگے۔ طلبا کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ انڈر گریجویشن کورس کے دوران تعلیم چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ بھی جوائن کرسکتے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی میں ہائر ایجوکیشن کے اداروں کی وسیع پیمانے پر تنظیم نو کی تجویز دی گئی ہے اور اس کی شروعات انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کا نام تبدیل کرکے اسے منسٹری آف ایجوکیشن یعنی وزارتِ تعلیم رکھ کر کیا گیا ہے۔ مرکز کے ماتحت راشٹریہ شِکھشا آیوگ (آر ایس اے)، جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں، اب فیصلہ سازی کے معاملے میں سب سے بڑا ادارہ ہوگا۔ اس کے ذریعے نگہداشت اور تمام سطحوں پر قواعد و ضوابط کے اطلاق کا جائزہ لیا جائے گا اور اسکے علاوہ اس کا کام تعلیمی وسائل اور مہارت کی نشو نما کرنے کے ساتھ ساتھ اسے فروغ دینا بھی ہوگا۔ راشٹریہ شِکھشا آیوگ (آر ایس اے)، مرکزی وزرا اور مرکز سے منسلک سینئر بیروکریٹس پر مشتمل ہوگا۔ راشٹریہ شِکھشا آیوگ (آر ایس اے)، اپنی ایگزیکٹو کونسل کی وساطت سے بجٹ کا تخمینہ اور اسکی واگذاری، اداروں کی دیکھ بھال، تعلیمی معیار مقرر کرنے اور ہائر ایجوکیشن کے اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرے گا۔ دونوں پرائیویٹ اور پبلک ہائر ایجوکیشن اداروں کو یکساں ضابطہ کے تحت لایا جائے گا اور انکے نتائج کے پیمانے بھی یکساں ہونگے۔ نئی پالیسی میں افیلیٹڈ یونیورسٹیوں کو بند کرنے کی تجویز شامل ہے۔ یہ یونیورسٹیاں تین طرح کے اداروں کا نعیم البدل ہوتی ہیں۔ ایک بین مضامین (ملٹی ڈسپلنری) تحقیقی یونیورسٹیاں ( ٹائپ ۱)، بین مضامین ٹیچنگ یونیورسٹیاں (ٹائپ ۲) اور خود مختار بین مضامین کالجز ( ٹائپ ۳)۔ اب میرٹ کی بنیاد پر فیکلٹی کی تقرریاں اور ان کی برقراری کے فیصلے لئے جائیں گے۔

یہ سمجھنا سادہ لوحی ہوگی کہ ابتدائی مرحلے پر کچھ مسائل پیدا ہوئے بغیر ہی اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی اصلاحات ممکن ہونگے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی اصلاحات کو لاگو کرنے کے حوالے سے ابتدائی مرحلے پر تکالیف برداشت کرنا ہر گز کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس طرح کی تکلیف برداشت کرکے ہی نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء کو عملی طور پر لاگو کرنا ممکن ہوپائے گا۔

یورپ میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لئے بولونگنا کنونشن کو 1998.99ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ اس عمل کے تحت متعلقہ ممالک نے جو اہداف مقرر کئے تھے، اُن میں تین مرحلوں ( بیچلر،ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ) والے تعلیمی ڈھانچے کو متعارف اور لاگو کیا گیا۔ یورپ میں ان تعلیمی اصلاحات کا مقصد معیار تعلیم کو بلند کرنا تھا تاکہ طلبا کو یہ اعتماد حاصل کہ وہ اس قدر معیاری تعلیم سے فیصیاب ہوئے ہیں، کہ وہ مختلف نظام کے تحت اور مختلف کام کی جگہوں پر اپنی خدمات احسن طریقے سے انجام دینے کے اہل ہیں۔

تاہم نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء کے حوالے کچھ خدشات اور سوالات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ در اصل اس پالیسی میں بعض معاملات کے حوالے خاموشی اختیار کی گئی ہے یا پھر ان معاملات سے متعلق تضاد بیانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پہلا اہم سوال یہ ہے کہ پالیسی میں 2035 ء تک طلبا کے اندراج میں پچاس فیصد تک کے اضافے کی توقع کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ طلبا کی تعداد میں اس متوقع اضافے کےلئے تیاری کرنی ہوگی اور اس ضمن میں پرائمری ایجوکیشن کی سطح پر انفراسٹکچر میں بنانا ہوگا۔ اس کام کےلئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ نئی تعلیمی پالیسی میں اس سوال کا یا تو سرسری جواب دیا گیا ہے یا پھر یہ اُمید کی جارہی ہے کہ پرائیویٹ ذرائع سے یا انسانی بنیادوں پر کنٹری بیوشن میسر ہوگا۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دیہات میں پرائمری ایجوکشین کے حوالے سے اس طرح کا کوئی مالی کنٹری بیوشن دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں آن لائن فاصلاتی تعلیم (او ڈی ایل) اور بڑے پیمانے پر آن لائن کورسز متعارف کرانے کی بات کہی گئی ہے۔ پالیسی ڈاکو منٹ کے مطابق اس طرح سے طلبا کے اندارج میں پچاس فیصد کے اضافے کا ہدف کافی حد تک پورا ہوگا۔ لیکن کووِڈ19 لاک ڈاون کے دوران آن لائن ٹیچنگ کے تجربے نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ غریب طبقے کے لوگ اس طرح کے تعلیمی نظام سے استفادہ حاصل نہیں کرپاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس آن لائن کورسز میں شمولیت کےلئے مطلوبہ الیکٹرانک آلات میسر نہیں ہوتے ہیں۔ نئی پالیسی میں دور جدید میں کام آنے والے کورسز کو فروغ دینے کی طرف زیادہ رجحان نظر آتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں موجودہ کمزور ریسرچ مطابقت نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس ہائر ایجوکیشن کی ترقی کی موجودہ استعداد اتنی زیادہ ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت انڈر گریجویٹ پروگرام کو چار سال پر محیط کرنے کے نتیجے میں طلبا کو ایک اضافی سال صرف کرنا پڑے گا اور یہ بات غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے کوئی معمولی بات نہیں ہوگی۔ نئی پالیسی کے تحت اندر گریجویٹ پروگرام میں کسی بھی سال چھوڑ کر جانے کا اختیار ملنے پر غریب طلبا کو بیچ میں ہی تعلیم چھوڑنے پر مائل کرئے گی اور اس طرح سے غربت کی مجبوری کی وجہ سے یہ طبقہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں آگے نہیں بڑھے گا۔ اس رجحان کو اس وجہ سے بھی تقویت ملنے کا امکان ہے کیونکہ نئی ایجوکیشن پالیسی میں تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کےلئے ایجوکیشنل لون دیئے جانے کی طرفداری کی گئی ہے۔ بہرحال ان ساری باتوں کو پس پردے رکھنے کے بجائے ان پر بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت ہے۔

( کمار سنجے سنگھ، یونیورسٹی آف دہلی کے سوامی شردھا آنند کالج میں ڈیپارٹمٹ آف ہسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)

پالیسی ڈاکو منٹ کے مطابق اس طرح سے طلبا کے اندارج میں پچاس فیصد کے اضافے کا ہدف کافی حد تک پورا ہوگا۔ لیکن کووِڈ-19 لاک ڈاون کے دوران آن لائن ٹیچنگ کے تجربے نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ غریب طبقے کے لوگ اس طرح کے تعلیمی نظام سے استفادہ حاصل نہیں کرپاتے ہیں- کیونکہ ان کے پاس آن لائن کورسز میں شمولیت کےلئے مطلوبہ الیکٹرانک آلات میسر نہیں ہوتے ہیں۔ نئی پالیسی میں دور جدید میں کام آنے والے کورسز کو فروغ دینے کی طرف زیادہ رجحان نظر آتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں موجودہ کمزور ریسرچ مطابقت نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس ہائر ایجوکیشن کی ترقی کی موجودہ استعداد اتنی زیادہ ہے۔

29 جولائی 2020ء کو نئی ایجوکیشن پالیسی متعارف کرائی گئی، نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء ایک وسیع پیمانے کی پالیسی ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد ملک بھر کے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر بہتر بنانا ہے۔ اس پالیسی کا ہدف دونوں یعنی پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کو مکمل طور اورہال کرنا ہے۔ نئی ایجوکیشن پالیسی میں آٹھ مختلف پہلوئوں پر زور دیا گیا ہے۔

(۱)۔ اسکولنگ اور بنیادی تعلیم

(۲)۔ اسکولوں کے وسائل اور ان کا انفراسٹکچر

(۳)۔ طلبا کی مجموعی ترقی

(۴)۔ یکساں لحاظ سے سب کو شامل کرنا

(۵)۔ تعلیمی نظام کا جائزہ لینا

(۶)۔ نصابِ تعلیم اور فن تعلیم کا فریم ورک

(۷)۔ اساتذہ کی تقرری اور اُنکی تعلیمی قابلیت

(۸)۔ سرکاری محکموں، انجمنوں اور اداروں کا کردار

دراصل حکومت تعلیمی شعبے کے ان بنیادی پہلوئوں میں بہتری لاتے ہوئے تعلیمی اخراجات میں سال2035 ء تک پچاس فیصد کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ تعلیمی نظام میں اختراعی اور تخلیقی طریقے اختیار کرکے حکومت در اصل بھارت کو تعلیم کے حوالے سے ایک عالمی طاقت بنانے کے ہداف کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ معلمانہ لحاظ سے اس نئی تعلیمی پالیسی کے نتیجے میں پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کے نصاب میں زبردست تبدیلی آئے گی۔ جہاں تک پرائمری تعلیم کا تعلق ہے، اس میں مادری زبان کی نشو نما کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ پانچویں جماعت تک مادری زبان میں ہی نصاب پڑھایا جائے گا۔ اسی طرح فنون عامہ (لبرل آرٹس) کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس کے ذریعے پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظم و ضبط کو فروغ دیا جائے گا۔ یعنی پرائمری ایجوکیشن میں فنون عامہ کے ذریعے بچوں کو پیشہ ورانہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکول ایجوکیشن چار مرحلوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلے بنیادی مرحلہ (تین سال سے آٹھ سال کی عمر کے بچوں کےلئے)، اس کے بعد تیاری کا مرحلہ (آٹھ سال سے گیارہ سال کے بچوں کےلئے)، تیسرا درمیانی مرحلہ (گیارہ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کےلئے اور آخر میں سیکنڈری سٹیج (چودہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کےلئے) پر مشتمل ہوگا۔ فنون عامہ سے متعلق نقطہ نظر کا بنیادی مقصد اسے پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے اور یہ طریقہ کار ہائر ایجوکیشن کے مرحلے تک اپنایا جائے گا، جس کے بعد طلبا کو اپنی پسند کے مضامین چُننے کا اختیار حاصل ہوگا یعنی اس کے بعد چوائس بیسڈ کریڈٹ سسٹم (سی بی سی ایس) متعارف ہوگا۔

اس کے علاوہ آرٹس اور سائنس کے مضامین میں انڈر گریجویشن پروگارم کے لئے موجودہ تین سالہ نظام میں وسعت دیکر اسے چار سال پر محیط کردیا جائے گا۔ تاہم طلبا کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ انڈر گریجویشن کے ابتدائی ایک سال بعد (سرٹیفیکیٹ پروگرام کے تحت)، دو سال بعد ڈپلوما پروگرام کے تحت یا تین سال بعد ڈگری پروگرام کے تحت کورس چھوڑ سکتے ہیں۔ صرف اُن طلبا، جو تحقیق کے شعبے میں جانا چاہتے ہوں، کو گریجویشن کےلئے چار سال پورے کرنے ہونگے۔ طلبا کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ انڈر گریجویشن کورس کے دوران تعلیم چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ بھی جوائن کرسکتے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی میں ہائر ایجوکیشن کے اداروں کی وسیع پیمانے پر تنظیم نو کی تجویز دی گئی ہے اور اس کی شروعات انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کا نام تبدیل کرکے اسے منسٹری آف ایجوکیشن یعنی وزارتِ تعلیم رکھ کر کیا گیا ہے۔ مرکز کے ماتحت راشٹریہ شِکھشا آیوگ (آر ایس اے)، جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں، اب فیصلہ سازی کے معاملے میں سب سے بڑا ادارہ ہوگا۔ اس کے ذریعے نگہداشت اور تمام سطحوں پر قواعد و ضوابط کے اطلاق کا جائزہ لیا جائے گا اور اسکے علاوہ اس کا کام تعلیمی وسائل اور مہارت کی نشو نما کرنے کے ساتھ ساتھ اسے فروغ دینا بھی ہوگا۔ راشٹریہ شِکھشا آیوگ (آر ایس اے)، مرکزی وزرا اور مرکز سے منسلک سینئر بیروکریٹس پر مشتمل ہوگا۔ راشٹریہ شِکھشا آیوگ (آر ایس اے)، اپنی ایگزیکٹو کونسل کی وساطت سے بجٹ کا تخمینہ اور اسکی واگذاری، اداروں کی دیکھ بھال، تعلیمی معیار مقرر کرنے اور ہائر ایجوکیشن کے اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرے گا۔ دونوں پرائیویٹ اور پبلک ہائر ایجوکیشن اداروں کو یکساں ضابطہ کے تحت لایا جائے گا اور انکے نتائج کے پیمانے بھی یکساں ہونگے۔ نئی پالیسی میں افیلیٹڈ یونیورسٹیوں کو بند کرنے کی تجویز شامل ہے۔ یہ یونیورسٹیاں تین طرح کے اداروں کا نعیم البدل ہوتی ہیں۔ ایک بین مضامین (ملٹی ڈسپلنری) تحقیقی یونیورسٹیاں ( ٹائپ ۱)، بین مضامین ٹیچنگ یونیورسٹیاں (ٹائپ ۲) اور خود مختار بین مضامین کالجز ( ٹائپ ۳)۔ اب میرٹ کی بنیاد پر فیکلٹی کی تقرریاں اور ان کی برقراری کے فیصلے لئے جائیں گے۔

یہ سمجھنا سادہ لوحی ہوگی کہ ابتدائی مرحلے پر کچھ مسائل پیدا ہوئے بغیر ہی اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی اصلاحات ممکن ہونگے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی اصلاحات کو لاگو کرنے کے حوالے سے ابتدائی مرحلے پر تکالیف برداشت کرنا ہر گز کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس طرح کی تکلیف برداشت کرکے ہی نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء کو عملی طور پر لاگو کرنا ممکن ہوپائے گا۔

یورپ میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لئے بولونگنا کنونشن کو 1998.99ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ اس عمل کے تحت متعلقہ ممالک نے جو اہداف مقرر کئے تھے، اُن میں تین مرحلوں ( بیچلر،ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ) والے تعلیمی ڈھانچے کو متعارف اور لاگو کیا گیا۔ یورپ میں ان تعلیمی اصلاحات کا مقصد معیار تعلیم کو بلند کرنا تھا تاکہ طلبا کو یہ اعتماد حاصل کہ وہ اس قدر معیاری تعلیم سے فیصیاب ہوئے ہیں، کہ وہ مختلف نظام کے تحت اور مختلف کام کی جگہوں پر اپنی خدمات احسن طریقے سے انجام دینے کے اہل ہیں۔

تاہم نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء کے حوالے کچھ خدشات اور سوالات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ در اصل اس پالیسی میں بعض معاملات کے حوالے خاموشی اختیار کی گئی ہے یا پھر ان معاملات سے متعلق تضاد بیانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پہلا اہم سوال یہ ہے کہ پالیسی میں 2035 ء تک طلبا کے اندراج میں پچاس فیصد تک کے اضافے کی توقع کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ طلبا کی تعداد میں اس متوقع اضافے کےلئے تیاری کرنی ہوگی اور اس ضمن میں پرائمری ایجوکیشن کی سطح پر انفراسٹکچر میں بنانا ہوگا۔ اس کام کےلئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ نئی تعلیمی پالیسی میں اس سوال کا یا تو سرسری جواب دیا گیا ہے یا پھر یہ اُمید کی جارہی ہے کہ پرائیویٹ ذرائع سے یا انسانی بنیادوں پر کنٹری بیوشن میسر ہوگا۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دیہات میں پرائمری ایجوکشین کے حوالے سے اس طرح کا کوئی مالی کنٹری بیوشن دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں آن لائن فاصلاتی تعلیم (او ڈی ایل) اور بڑے پیمانے پر آن لائن کورسز متعارف کرانے کی بات کہی گئی ہے۔ پالیسی ڈاکو منٹ کے مطابق اس طرح سے طلبا کے اندارج میں پچاس فیصد کے اضافے کا ہدف کافی حد تک پورا ہوگا۔ لیکن کووِڈ19 لاک ڈاون کے دوران آن لائن ٹیچنگ کے تجربے نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ غریب طبقے کے لوگ اس طرح کے تعلیمی نظام سے استفادہ حاصل نہیں کرپاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس آن لائن کورسز میں شمولیت کےلئے مطلوبہ الیکٹرانک آلات میسر نہیں ہوتے ہیں۔ نئی پالیسی میں دور جدید میں کام آنے والے کورسز کو فروغ دینے کی طرف زیادہ رجحان نظر آتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں موجودہ کمزور ریسرچ مطابقت نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس ہائر ایجوکیشن کی ترقی کی موجودہ استعداد اتنی زیادہ ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت انڈر گریجویٹ پروگرام کو چار سال پر محیط کرنے کے نتیجے میں طلبا کو ایک اضافی سال صرف کرنا پڑے گا اور یہ بات غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے کوئی معمولی بات نہیں ہوگی۔ نئی پالیسی کے تحت اندر گریجویٹ پروگرام میں کسی بھی سال چھوڑ کر جانے کا اختیار ملنے پر غریب طلبا کو بیچ میں ہی تعلیم چھوڑنے پر مائل کرئے گی اور اس طرح سے غربت کی مجبوری کی وجہ سے یہ طبقہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں آگے نہیں بڑھے گا۔ اس رجحان کو اس وجہ سے بھی تقویت ملنے کا امکان ہے کیونکہ نئی ایجوکیشن پالیسی میں تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کےلئے ایجوکیشنل لون دیئے جانے کی طرفداری کی گئی ہے۔ بہرحال ان ساری باتوں کو پس پردے رکھنے کے بجائے ان پر بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت ہے۔

( کمار سنجے سنگھ، یونیورسٹی آف دہلی کے سوامی شردھا آنند کالج میں ڈیپارٹمٹ آف ہسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)

Last Updated : Aug 1, 2020, 12:56 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.