نئی دہلی: کانگریس پارٹی میں ایک بار پھر اس کی قیادت کے سوال کو لے کر بحران پیدا ہوگیایہ۔ یہ بحران ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے، جب یہ سوال موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ کیا ملک کی اس قدیم سیاسی جماعت کی باگ ڈور گاندھی خاندان کے ہاتھوں میں ہی رہنی چاہیے یا پھر اس کی قیادت خاندان سے باہر کی لیڈرشپ کے ہاتھوں میں دی جانی چاہیے۔ اگر کانگریس کی قیادت گاندھی خاندان کے ہاتھوں میں ہی رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے، تو صرف سونیا گاندھی یا پھر راہل گاندھی کے ہی دو نام بطور متبادل موجود ہیں۔ اصل مسئلہ بھی یہی ہے۔
جولائی کا وہ خط جس میں پارٹی کے 23 سرکردہ رہنماؤں نے سونیا گاندھی کو کانگریس کا عبوری صدر مقرر کرنے کے حق میں اپنی رائے دی تھی،کانگریس ورکنگ کیٹی کی مجوزہ میٹنگ جو 24 اگست کو منعقد ہونے جارہی ہے اور جس میں پارٹی قیادت کے مسئلے پر بحث ہونے جارہی ہے،اس کو سامنے لایا گیا ہے۔ اس سے یہ صاف اشارہ ملتا ہے کہ پارٹی کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سال 2014 وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی کانگریس کے تنزل کا سوال شروع ہوگیا تھا تو اس کے ساتھ ہی اس پارٹی کی لیڈر شپ کا مسئلہ پس پردہ چلا گیا تھا۔
ایک جانب کئی خامیوں اور معاشی و سکیورٹی معاملات پر چیلنجز کے باوجود بی جے پی مضبوط ہوتی جارہی ہے اور دوسری جانب کانگریس اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ کانگریس کو اپنی اس بدحالی اور پارٹی کے اندر پائی جانے والئ مایوسی کا تدارک کرنا ہوگا۔ کانگریس پارٹی میں قیادت کا بحران کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ سال 2014ء میں اُس وقت بھی پیدا ہوا تھا جب انتخابات میں انتہائی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے پارٹی کو لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے محض 44 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور اس کی وجہ سے سونیا گاندھی نے پارٹی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا۔
پانچ سال بعد پھر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی، جب مئی 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 543 میں سے محض 52سیٹیں ملنے پر کانگریس صدر راہل گاندھی نے اس شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ دے دیا۔
اُس وقت بعض لوگوں نے راہل گاندھی کی جانب سے مستعفی ہوجانے کو تنقید سے بچنے کی اُن کی ایک کوشش سے تعبیر کیا تھا، لیکن بہرحال حقائق خود گاندھی خاندان سمیت سب کے سامنے تھے۔ اُس موقع پر راہل گاندھی نے حالات کا بخوبی اندازہ لگاتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت گاندھی خاندان سے باہر کے کسی فرد کے ہاتھوں میں دے دی جائے، لیکن بعد میں بہت غور وخوض کے بعد سونیا گاندھی کو پارٹی کا عبوری صدر مقرر کیا گیا اور اس طرح سے یہ مسئلہ اُس وقت ٹل گیا۔
اب جبکہ سونیا گاندھی نے بطور عبوری صدر 10 اگست کو ایک سال پورا کردیا ہے، پارٹی کی قیادت کا سوال پھر اُبھر کر سامنے آگیا ہے اور یہ تاثر مل رہا ہے کہ راہل گاندھی کو پھر سے گدی پر بٹھا دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے لئے یہ ویسی ہی صورتحال ہوگی، جو پہلے موجود تھی۔
اب سونیا گاندھی کی جانب سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ سے ایک دن قبل پارٹی کو ایک نیا لیڈر منتخب کرنے کا چیلنج دیا ہے۔ اس طرح سے راہل گاندھی کے وفاداروں اور اُن کے مخالفین میں پس پردہ جنگ شروع ہوگئی ہے۔
سال 2017ء میں راہل گاندھی کی جانب سے صدارت سنبھالنے کے بعد پارٹی کو 2018ء میں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ اُمید بندھ گئی تھی کہ پارٹی کو سال 2019ء کے قومی انتخابات میں جو دھچکا لگا تھا اب وہ اس سے اُبھرر ہی ہے۔ لیکن انجام کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں تھا۔
اس سال پارٹی نے عدم استقلال اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے مدھیہ پردیش میں جیوتیر ادتیہ سندھیا کی بغاوت کی وجہ کمل ناتھ کی حکومت گرگئی اور ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی۔ جبکہ راجستھان کانگریس نے بی جے پی کو شکست دے کر اشوک گہلوٹ کی حکومت برسر اقتدار آئی۔
اس وقت کانگریس صرف پنجاب، راجستھان، چھتیس گڑھ اور پانڈی چری میں برسر اقتدار ہے اور مہاراشٹر اور جہار کھنڈ میں مخلوط حکومتوں کی اکائیوں کے بطور شامل ہے۔ جبکہ عملی طور پر یہ پارٹی اترپردیش، بنگال اور بہار جیسی بڑی ریاستوں میں کہیں نظر نہیں آتی ہے۔
گزشتہ سال کانگریس نے کرناٹک میں جنتادل کے ساتھ اپنی مخلوط سرکار کو اقتدار کی بھوکی بی جے پی کے سامنے کھو دیا۔ کیونکہ پارٹی کے کئی اراکین پارلیمنٹ نے زعفرانی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔
جب سال 1998ء سے سال 2017ء تک سونیا گاندھی پارٹی کی صدر تھیں، اُس وقت اُن کی قیادت میں پارٹی کے اندر صلاح و مشورے اور اتفاق رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔اس پر ان کی سراہنا بھی کی جاتی تھی۔ اسی کے پیش نظر انہیں گزشتہ سال بطور عبوری صدر مقرر کیا گیا تھا۔ اُنہیں اس خوبی کی وجہ سے آج بھی پارٹی کے سینئر اور نئے لیڈران پسند کرتے ہیں۔ انہیں پارٹی کو متحد رکھنے میں معاون سمجھا جاتا ہے، لیکن انہیں ان کی صحت کے حوالے سے کچھ مسائل درپیش ہیں۔ جبکہ کانگریس کو کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو اسے آنے والی کئی دہائیوں تک آگے لیکر جانے کی اہلیت کا حامل ہو۔
راہل گاندھی نے جب سال 2017ء میں پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی، تو اُن کی کم عمری کی وجہ سے اس قدیم پارٹی میں ایک نیا جوش پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن اُن کا گزشتہ سال مستعفیٰ ہوجانے حیران کن تھا۔
کانگریس کو تنظیم میں نازک مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے نئی نسل کے لیڈروں کو آگے لانا ہوگا اور انہیں اہم ذمہ داریاں سونپنی ہونگیں۔ اس پارٹی کو بے روزگاری، معاشی تنزل، فرقہ واریت، بڑھتی ہوئی غربت اور کسانوں کو درپیش مسائل کے خلاف لڑنا چاہیئے کیونکہ یہ وہ مسائل ہیں، جن کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔
لیکن یہ سب کچھ ایک موثر طریقے سے انجام دینے سے قبل کانگریس کو اپنے اندرونی پارٹی مسائل حل کرنے ہونگے۔ اگر قیادت گاندھی خاندان کے بغیر کسی اور کے ہاتھوں میں دینا کا فیصلہ کیا گیا تو ظاہر ہے اسے خود اختیاری نہیں مل سکتی ہے۔ بلکہ کسی ایسے شخص کو ہی سامنے لایا جائے گا، جو پارٹی میں گاندھی خاندان کا اثرو رسوخ براقرار رکھنے میں مدد دے گا۔
جو لوگ راہل گاندھی کی حمایت کررہے ہیں، اُن کا استدلال ہے کہ راہل پچھلے ایک سال سے وزیر اعظم مودی اور اُن کی پالیسیوں کے خلاف اکیلے ہی کامیابی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ جب کہ راہل گاندھی کے منیجرز بھی مسلسل ان کی امیج بہتر بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ راہل گاندھی کی جانب سے حال ہی میں بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ معیشت اور کووِڈ19 پر بات چیت کو پالیسی معاملات پر راہل کے فہم و فراست سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں جب پارٹی سے نکالے گئے سنجے جہا نے اس خط کے بارے میں بات کی، جو اُن کے بقول پارٹی کے لیڈران نے لکھا ہے اور جس میں کانگریس پارٹی کو سر نو منظم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تو پارٹی نے فوراً اس کی تردید کی۔ لیکن اب کچھ دن بعد ہی حقائق سب کے سامنے آگئے ہیں۔
کانگریس کو رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے لازمی طور پر حقائق سے منہ چرانے کے بجائے انہیں تسلیم کرنا ہوگا۔