ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج اس وقت پھوٹ پڑے جب 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر مناسب طریقے سے سر پر اسکارف نہ پہننے کے پاداش میں حراست میں لے لیا اور پھر اس خاتون کی زیر حراست موت واقع ہوگئی۔ اس احتجاج میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں، بلکہ وہ ایران کے دیگر 80 شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ Iran protests
صوبہ کردستان کا شہر ساقیز جہاں مہسا امینی کو دفن کیا گیا، وہاں کردوں کی اکثریت ہے اور وہ لوگ سنی اسلام پر عمل پیرا ہیں۔ جب امینی کی موت کے 40ویں دن سوگوار خاندان کے لیے خراج عقیدت اور اظہار یکجہتی کے لیے سینکڑوں ایرانی، مہسا کی قبر پر جمع ہوئے تو اس وقت ایک پرتشدد واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں متعدد شرکاء ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ بظاہر یہ دہشت گرد گروہ داعش کا کارنامہ تھا کیونکہ کرد ان کے خلاف مغرب بطور خاص امریکہ کے کہنے پر شام میں لڑ رہے ہیں اور داعش کے ذمہ داری قبول کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، احتجاج نہ صرف جاری رہا بلکہ دیگر شہروں میں شدت اختیار کر گیا۔
ساقیز میں احتجاج کرنے والی نوجوان خواتین نے اپنے سروں کے اسکارف پھاڑ کر عوام کے سامنے آگ لگا دی۔ جس کے بعد یہ ملک کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والا پہلا ایرانی شہر بن گیا۔ مظاہرے پرتشدد ہونے کے بعد قابو سے باہر ہو گئے، اور پھر ایرانی حکومت کو ان پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کرنا پڑا۔ ایران میں مظاہرین کی ہلاکتوں نے احتجاج کو ناگزیر بنا دیا، ایرانی رواج کے مطابق لوگ اپنے عزیزوں کے انتقال کے 40ویں دن غم اور تعزیت اور سوگواروں سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ سوگوار لوگوں کا خیال ہے کہ امینی کا قتل صرف اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ وہ کرد تھی۔ اور یہ علاقہ ایرانی انقلاب سے ہی ایرانی حکومت کے لیے کھٹک رہا ہے کیونکہ تنازعہ کی جڑیں زیادہ تر مغربی ایران کے کرد علاقے سے ہی ہیں۔
کردستان، جس کی علیحدگی کی تاریخ ہے، اصفہان اور زاہدان جیسے شہر پورے ملک میں خواتین پر نافذ قوانین کے خلاف خفیہ طور پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اصفہان فنکاری اور دستکاری کا شہر ہے، اور یہاں تقریباً 20,000 یہودیوں کا گھر ہے، اصفہان کی خواتین بھی ایران کے دیگر علاقوں کی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں اور انھوں نے بھی امینی کے قتل کے علاوہ سینکڑوں مظاہرین کے قتل کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا۔ اصفہان کافی حد تک ایک پرسکون شہر رہا ہے جہاں کے لوگ زیادہ تر تجارت و سیاحت میں مصروف رہتے ہیں۔ تیرہ عبادت گاہوں والا شہر، شاید ہی کسی بدامنی یا تنازعہ کا حصہ رہا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سابق سپریم لیڈر، آیت اللہ خمینی نے 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد انہیں رہنے کی اجازت دی۔
ان تبصروں کی روشنی میں اصفہان کا ہنگامہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ حال ہی میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ایران میں جاری بدامنی اور مظاہروں کے لیے مغرب اور صیہونی ذمہ دار ہیں لیکن انھوں نے اپنے تبصروں میں نہ تو فارسی صیہونیوں کا ذکر کیا اور نہ ہی ان علاقوں کا ذکر کیا جو ملک میں سنی یا دیگر اقلیتوں کے زیر تسلط ہیں۔انھوں نے اپنے تبصروں میں امریکہ کو ملک میں بغاوت کے لیے نشانہ بنایا اور کردوں کو امریکہ کی جانب سے فوجی امداد حاصل ہونا، ایران کے لیے تشویشناک ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں، حکومتوں کی توجہ اصفہان، زاہدان اور ساقیز پر مرکوز ہیں۔ ان شہروں میں ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، جس نے تجزیہ کاروں کو کافی مواد فراہم کیا ہے۔ سب سے پہلے بین الاقوامی انسان حقوق کی تنظیموں نے زاہدان جیسے مقامات پر امتیازی سلوک کی اطلاع دی ہے جہاں ایران پر احتجاج کو روکنے کے لیے قتل عام جیسے مظالم کا الزام لگایا گیا ہے۔
زاہدان ان چند ایرانی شہروں میں سے ایک ہے جہاں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ انہوں نے ایرانی حکومت پر سنی خواتین کی آوازیں خاموش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ یہ شہر صوبہ سیستان اور بلوچستان کا دارالحکومت ہے، جہاں پر احتجاج شروع ہونے کے بعد سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جمعہ کے دن کسی بھی بڑےاحتجاج کے امکان کو ختم کرنے کے لیے مساجد کے سامنے بھارتی نفری تعینات کی جاتی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک ملک بھر میں 300 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 14,000 افراد کو یا تو حراست میں لیا گیا یا جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ ستمبر میں مہسا امینی کی موت کے بعد ملک میں اضطراب کی کیفیت بہت زیادہ ہے جو کہ مرکزی حکومت کے لیے سب سے زیادہ تشویش ہے۔ حکومت کی جانب سے متعدد حکمت عملیوں اپنانے کے باوجود احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو ان کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹایا جاسکا ہے۔ ان حکمت عملیوں میں سے ایک قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کے تصور کو دوبارہ زندہ کرنا تھا، جن کو 2020 میں عراق میں امریکی ڈرون کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا تھا۔
حکومت کی طرف سے استعمال کیے گئے تمام حربے بلآخر ناکام ہی ثابت ہوئے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احتجاج اب ایرانی نظام میں بھی داخل ہو گیا ہے۔ اس ہفتے، ایرانی واٹر پولو ایتھلیٹس نے بنکاک میں منعقد ایشیائی چیمپئن شپ میں قومی ترانہ گانے سے انکار کر دیا۔ وفا حخمنشی، چنئیین فٹ بال کلب کے کھلاڑی نے بھی خواتین کے احتجاج کی حمایت کا اظہار اس وقت کیا جب انھوں نے بنگال کے خلاف گول کیا۔
ایرانی انتظامیہ شکوک و شبہات کے مسئلے سے نبرد آزما ہے، جس نے لِبرل، آزاد پسند خیال اور اسلامی قدامت پسند افراد کے درمیان ایک بڑی تقسیم کو جنم دیا ہے۔ جس کی وجہ سے زاہدان، اصفہان اور ساقیز وغیرہ جیسے اقلیتی شہروں میں ایرانی لبرل حیران و پریشان ہیں، اور ان کے درمیان اب حکومت کو امن و امان برقرار رکھنے کا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔