بی جے پی رہنماؤں نوپور شرما اور نوین جندال کے پیغمبر اسلامﷺ پر متنازعہ بیانات کی وجہ سے مسلم ممالک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔جس کی وجہ سے بھارت کی سفارتی امیج کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ Consequences of Controversial Remarks ایران، مصر، سعودی عرب، قطر، کویت اور پاکستان سمیت اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے نہ صرف اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے بلکہ بعض ممالک نے بھارت کے سفارت کاروں کو بھی طلب کیا ہے۔
یہ تنازع بی جے پی کے قومی ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے تبصروں سے شروع ہوا۔ نوپور نے ایک ٹی وی مباحثے میں پیغمبر اسلامﷺ پر توہین آمیز ریمارکس کیے تھے۔تاہم بی جے پی نے عرب ممالک کے احتجاج کے بعد فوری کارروائی کرتے ہوئے دونوں لیڈروں کو معطل کر دیا۔ لیکن جس طرح سے مغربی ایشیائی ممالک نے ردعمل ظاہر کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ بھارت کے سفارت کاروں کو حالات کو معمول پر لانے کے لیے کئی گنا کوششیں کرنی ہوں گی۔
اس تنازعہ کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مغربی ایشیا کے مسلم ممالک بھارتی اشیا کی درآمد پر پابندیاں عائد کرسکتے ہیں، جب کہ بھارت نے ان ممالک میں اپنی اشیا کی اچھی شناخت بنائی ہے۔اسی طرح بھارت سے بھی بڑی تعداد میں لوگ کام کی تلاش میں وہاں جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے ورکنگ ویزا پر پابندیاں لگ سکتی ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت میں سرمایہ کاری کا منفی ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر حالیہ برسوں میں جس طرح سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سرمایہ کاری کے لیے بھارت میں کافی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
دوسرا - بھارت 'ایکٹ ایسٹ پالیسی' کی سٹریٹجک اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ان ممالک کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ان ممالک میں بھی 42 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ یہاں کی آبادی 18 فیصد بدھ اور 17 فیصد عیسائی ہے۔ یہاں بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تنازعات پہلے سے ہی چل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2020 میں، بھارت نے مسلم اکثریتی ملائیشیا سے خریدے گئے پام آئل کی درآمد پر کنٹرول لگا دیا۔ تب ملائیشیا نے آرٹیکل 370 کو ہٹانے اور سی اے اے کو قانون بنانے کی مخالفت کی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر آسیان ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں تو بھارت کی انڈو پیسفک پالیسی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہاں بھارت کو چین جیسی طاقت کا سامنا ہے۔ چوتھا یہ کہ مالدیپ جیسے مسلم ممالک جہاں بھارت نے چین کو شکست دے کر مشکل سے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔ یہاں بھی بھارت مخالف جذبات ابلنے لگے۔ یہاں انہوں نے بھارت کے خلاف قرارداد لانے کی تیاری بھی کی تھی لیکن وہ منظور نہ ہو سکی۔
یہ بھی پڑھیں:
India on OIC: بھارت نے گستاخ نوپور شرما معاملے پر او آئی سی کو تنگ ذہن قرار دیا
BJP suspends Nupur Sharma: پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی، نپور شرما پارٹی سے معطل
پانچویں وجہ- بھارت حالیہ دنوں میں مسلم ممالک میں سے پاکستان کو کافی حد تک الگ تھلگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ بھارت اب یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان دوبارہ کوئی ہمدردی حاصل کرے۔ کئی مسلم ممالک میں ایسے جذبات پھر سے اٹھنے لگے ہیں۔
چھٹی وجہ کشمیری علیحدگی پسند تحریک کے عسکری اسلامی جزو کی حوصلہ افزائی کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں وادی میں مزید بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسٹریٹجک امور کے ماہر سنجے سنگھ کہتے ہیں، ' یہ تنازعہ بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑی تباہی جیسی صورتحال لا سکتی ہے۔ او آئی سی سمیت تمام مسلم ممالک حتیٰ کہ ایران بھی بھارت میں جو کچھ ہوا اس سے ناراض ہیں۔ سنگھ نے کہا، 'پیغمبر محمد کو اسلام کے تمام فرقے مانتے ہیں۔ بھارت میں شیعہ اور سنی کی اچھی آبادی ہے۔ امت اس نفرت انگیز بیان پر بین الاقوامی اور ملکی سطح کے اختلافات کو بھلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ تنازع ایسے وقت میں ابھرا ہے جس وقت امریکی محکمہ خارجہ کی 'بین الاقوامی مذہبی آزادی رپورٹ 2021'، جو جمعرات (2 جون 2022) کو جاری کی گئی، بھارت میں مذہبی آزادی کی حیثیت پر سوال اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ 'بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف فرقوں کے لوگ رہتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔'
USCIRF کی رپورٹ میں بھارت کو 'خاص تشویش کا ملک' (CPC) کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اسے 15 ممالک کے گروپ میں رکھا گیا ہے جس میں روس، چین، طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان، برما، اریٹیریا، ایران، نائجیریا، شمالی کوریا، سعودی عرب ، شام، تاجکستان، ترکمانستان اور ویتنام شامل ہیں۔