بلال بٹ
چین نے 2013 میں بارڈر روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کا آغاز اس لیے کیا تاکہ اس کے اقتصادی انفراسٹرکچر کی چھاپ رکن ممالک پر ثبت ہو۔ بھارت بی آر آئی کا حصہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ چین بی آر آئی کی 10ویں سالگرہ منائے، جی 20 کے ممالک نے انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور یا آئی ایم ای ای ای سی قائم کرنے کا اعلان کیا، جو بحری جہازوں اور ریل رابطوں کے ذریعے بھارت کو بالترتیب مغربی ایشیا اور یورپ سے جوڑنے والا ہے۔
نئی دہلی میں دو روزہ سربراہی اجلاس کے دوران امریکہ، مغربی ایشیا، یورپی یونین کے ممالک اس راہداری پر متفق ہوئے کہ تجارتی راستہ جو تیز رفتار اور پریشانی سے پاک تجارت کے لیے بھارت کو سعودی عرب کے راستے یورپ سے جوڑے گا۔ یہ معاہدہ چین کے بی آر آئی کا مقابلہ کرے گا اور خطے میں پاکستان کی جیو پولیٹیکل اور اسٹریٹجک اہمیت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ بھارت کے لیے اسے وسطی ایشیا سے ملانے کے لیے قدرتی اور تاریخی طور پر اہم زمینی راستہ پاکستان سے گزرتا ہے، لیکن اس راستے کو نہ تو پاکستان اور نہ ہی بھارت اہمیت کی فہرست میں رکھ سکتے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم اور ہر دو ممالک کے درمیان دشمنیوں کی وجہ سے ان قدرتی تجارتی راستوں کو بھارت، وسطی ایشیا اور اس سے آگے کے خطوں کے ساتھ تجارت کے لیے غیر منافع بخش اور بے کار بنا دیا گیا۔ اب جبکہ ایشیا اور یورپ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور کے ذریعے اقتصادی طور پر جڑنے جا رہے ہیں، پاکستان خطے میں بھارت کے لیے مکمل طور پر غیر متعلق ہوگا سوائے کشمیر سمیت ان کے درمیان چند متنازعہ مسائل کے۔
پاکستان میں چین کا بی آر آئی منصوبہ، سی پی ای سی (چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور) کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اس سے گزرنے والے بہت سے صوبوں جیسے گلگت بلتستان اور بلوچستان میں علیحدگی پسند اس منصوبے کے سخت مخالف ہیں۔ اس منصوبے سے ملک میں جن مسائل کا سامنا ہے وہ مستقبل میں پاکستان اور چین کے درمیان تلخی ہی لائے گا۔ اب جب کہ بھارت کے لیے ایک متبادل راستہ بند ہو رہا ہے۔ پاکستان، چین اور ان کے چھوٹے وقت کے اتحادی اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کریں گے۔
سعودی عرب انڈیا مڈل ایسٹ کوریڈور کا ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور طویل عرصے سے پاکستان کا دوست رہا ہے، درحقیقت تجارتی راستے کا بیج ریاض میں اس وقت بویا گیا جب امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے سیکیورٹی ایڈوائزرز اس سطح کے مذاکرات کے دوران ملے۔ اس لیے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سعودی پر اثر انداز ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ اسرائیل کی شمولیت ممکنہ طور پر ایک مسئلہ پیدا کر سکتی تھی اگر امریکہ نے پہلے ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ نہ کیا ہوتا۔ اس معاہدے کے بعد ہی نئی دہلی میں اس منصوبے پر مہر ثبت ہو گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
- بھارت مشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری سعودی عرب کے لیے بڑی اہمیت کی حامل: محمد بن سلمان
- سعودی عرب بھارت کے لیے اہم ترین اسٹریٹجک شراکت داروں میں سے ایک ہے: وزیراعظم مودی
اس راہداری میں بڑے پیمانے پر شپنگ، ریلوے رابطے ہوں گے اور یہ بھارت اور دیگر تجارتی ممالک کے درمیان سفر کے وقت کو 35 فیصد سے زیادہ کم کر دے گا۔ اگرچہ مناسب ترتیب ابھی تک دستیاب نہیں ہے تاہم یہ بتایا جارہا ہے کہ توانائی، بجلی اور کیبلز کی ڈیجیٹل ترسیل کیلئے سمندری راستے استعمال میں لائے جائیں گے۔ آنے والے مہینوں میں ایک تفصیلی منصوبہ متوقع ہے۔ اس سے بھارت کو بڑا فائدہ ہونے والا ہے کیونکہ یہ ملک چابہار بندرگاہ کے ذریعے وسطی ایشیا سے جڑنے کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا تھا۔
بھارت چابہار اور زاہدان کے درمیان ریل رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کو نظرانداز کر کے وسطی ایشیا سے رابطہ قائم کیا جاسکے جسے بظاہر چین نے پاکستان کے کہنے پر روک دیا تھا۔ امریکہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایران کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ایسا ہو۔ چابہار ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں بھارت کی بندرگاہ ہے۔ اب جبکہ جی ٹونٹی ممالک نے بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپ اور اسرائیل کے درمیان تجارتی روٹ پر اتفاق کیا ہے، تمام شراکت دار ممالک اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
اس کوریڈور کی رین لنک میں برقی اور توانائی کی پائپ لائن ساتھ ساتھ گزرے گی اور اس معاہدے میں حصہ دار ممالک کے لیے توانائی کی باحفاظت ترسیل کو یقینی بنائے گی۔ یہ اقتصادی کوریڈور خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو زائل کرے گی اور چین کی اجارہ داری کو توڑ دے گی۔ اقتصادی راہداری میں وہ ممالک بھی شامل ہوں گے جو چین کی توسیع پسندانہ سوچ سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت خطے میں چین کے ممکنہ متبادل کے طور ابھر رہا ہے اور اسی وجہ سے مغرب اس کی پزیرائی کر رہا ہے۔
اقتصادی راہداری نے کئی ممالک کے نقطہ نظر میں بڑی تبدیلی لائی ہے خاص طور پر ان ممالک میں جنہیں چین کے ساتھ کوئی پرخاش ہے۔ اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے دورے کے دوران چین کے بی آر آئی سے دستبرداری کا اسوقت اشارہ دیا جب انہوں نے سعودی عرب کی مشرقی بندرگاہ کے ذریعے بھارت کو یورپ سے جوڑنے والے شمالی کوریڈور کا حصہ بننے کا عہد کیا۔
افریقی یونین کا جی 20 کا حصہ بننا اور بھارت کو عالمی جنوب کے رہنما کے طور پر دیکھنا چین کے لیے ایک اذیت ناک ہوگا کیونکہ کمزور ممالک کے تئیں چین کا رویہ غلبے کے جذبات سے پر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے پس منظر میں کہ بھارت اور امریکہ دونوں اگلے سال عام انتخابات منعقد کریں گے، اس نئی اقتصادی کا تذکرہ دونوں ممالک کے لیڈران، اپنی انتخابی مہم کے دوران کافی تواتر کے ساتھ کریں گے۔
(بلال بٹ ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر ہیں)