میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعہ (19 جولائی) کو بھارتی وزارت دفاع میں ایک اعلیٰ سطحی میٹننگ میں اس معاملے پر غور و خوض کیا گیا اور آسٹریلیا کو بالا مار مشترکہ مشقوں کے لئے مدعو کرنے کا رسمی فیصلہ کیا گیا۔ ان بحری مشقوں میں بھارت کا ساتھ دینے کےلئے امریکا اور جاپان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ان مشقوں کا مقصد بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے مشترکہ اتحاد کو مزید متحرک کرنا ہے۔
اگرچہ چار ممالک کے اس اتحاد کی ان علامتی مشقوں کی اپنی اہمیت ہے اور چاروں ممالک کی بحری افواج کا آپسی تعاون اپنے آپ میں ایک اہم بات ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا یہ کہنا کہ لائن آف ایکچول کنٹرول پر جو کچھ بھی ہورہا ہے، ان مشقوں کی وجہ سے اس پر بھارت کے حق میں اثرات پڑیں گے، صیح نہیں ہوگا۔ یہ بات عیاں ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول پر پیدا شدہ تناؤ بحرحال بھارت اور چین کے درمیان ایک دوطرفہ مسئلہ ہے اور یہ تناؤ ختم ہوجانے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
دونوں ملکوں یعنی بھارت اور چین کی صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو عزم، اقتصادی قوت، ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت کے لحاظ سے چین کا ہی پلڑہ بھاری ہے۔ تاہم بحریہ کے حوالے سے بھارت بھی ایک بڑی طاقت ہے۔ سمندر میں جغرافیائی لحاظ سے بہتر پوزیشن اور گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران بحریہ کی قوت میں مسلسل اضافے کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس دفاعی شعبے میں بھارت کی حیثیت قوی ہے۔ لیکن بھارت کی یہ برتری بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ چین بھی بڑی تیزی سے بحری قوت کے توازن کی خلیج کو پاٹنے کےلئے کام کررہا ہے۔
چین سمندری حدود میں اسے لاحق سٹریٹجیک خطرات کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے۔ سمندری حدود میں امریکا کا غلبہ چین کے لئے پریشان کُن رہا ہے اور اس کی وجہ سے چین کا بحری توازن بگڑ گیا ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے گزشتہ پچیس سال کے دوران اپنی بحری قوت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ اس کی طاقت کی مشابہت سرد جنگ کے دوران روس کی بحری قوت کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔
فی الوقت چین کی جانب سے بین الاقوامی برادری کو دو طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ پتہ نہیں کہ چین کووِڈ 19 کی وبا کے حوالے سے واقعی وسیع پیمانے پر ایک مثبت کردار ادا کررہا ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ صدر زی جن پنگ کی حکومت کے جارحانہ رویہ کی وجہ سے کئی پڑوسی ممالک کو جارحیت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور دوسری جانب چین وسیع سمندری حدود پر اپنا حق جتلا رہا ہے۔ ساتھ ہی چین کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ کے اقدام کے ذریعے بھی اپنی پوزیشن مستحکم کررہا ہے۔ سال 2049ء تک عالمی قوت بننے کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے چین شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ وہ سال ہے جب چین کی کمونسٹ سٹیٹ کے قیام کا ایک سو سال پورا ہوجائے گا۔ چین اس کے بعد دُنیا پر اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔
جہاں تک بحری خطے کا تعلق ہے، اس میں انڈو پیسفک ہی ایک ایسا خطہ ہے، جس کے ذریعے چین کو چیلنج دیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ سمندری خطے ہے، جس میں بھارت، امریکا ، جاپان اور آسٹریلیا کے اتحاد کی ایک خاص اہمیت ہے۔ تاہم یہ اتحاد ابھی قوی نہیں ہے اور اسے کئی طرح کے مشکلات کا سامنا ہے۔ کیونکہ چین عالمی سطح پر اپنی تجارت، ٹیکنالوجی اور انفراسٹکچر کے حوالے سے اپنے پیر جما رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس اتحاد میں شامل ممالک چین کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات قائم ہیں، جس کی وجہ سے اتحاد اپنے آپ میں ایک تضاد ہے۔ عالمی مارکیٹ میں مختلف ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار کی وجہ سے بھی چین کے خلاف ایک اتحاد کا زیادہ مضبوط ہونا ممکن نہیں ہے۔ امریکا کا چین کے ساتھ ٹکراؤ کی تو گنجائش ہے لیکن بھارت، جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک، جن کے چین کے ساتھ غیر معمولی اور وسیع تجارتی تعلقات ہیں، کےلئے یہ کوئی آسان بات نہیں ہے۔ یہ بات چین پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ اس اتحاد میں شامل ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ نہ وہ اس اتحاد کے ہمخیال دوسرے ممالک کے ساتھ رشتے ختم کرکے صرف اپنے دائمی دوستوں جیسے کہ پاکستان، شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ ہی نہیں رہ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ روس جو چین کا ہمدرد ہے، وہ بھی چین کی بالادستی والی دُنیا میں اس کا ایک جونیئر پارٹنر بن کر رہنا پسند نہیں کرے گا۔
عالمی وبا کے اختتام کے بعد جوں ہی استحکام پیدا ہوگا اور عالمی معیشت بہتر ہونا شروع ہوجائے گی، بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کا اتحاد بھی متحرک ہونے لگے گا۔ کیونکہ سمندری حدود میں توسیع کرنا ایک مہنگا منصوبہ ہے۔ پہلے اتحاد میں شامل ہر ملک کو اپنی معاشی صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ اس عمل میں کتنا پیسہ خرچ کرنے کے متحمل ہیں۔
سمندری حدود میں اس اتحاد کے لئے متعدد آپشنز موجود ہیں اور اتحاد میں شامل یہ چاروں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں اور یہ بھی اُمید کی جاسکتی ہے کہ انڈونیشیا اور دیگر آسیان رکن ممالک بھی اس میں شامل ہوجائیں۔ مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے اور یہ عالمی روایت بھی ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم مودی نے بھی کئی بار مختلف بین الاقوامی میٹنگوں میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار بھی کیا ہے۔
امریکا بھی اس بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتا ہے حالانکہ امریکا نے سمندری حدود سے متعلق بین الاقوامی قانون (یو این سی ایل او ایس) پر اپنے دستخط نہیں کئے ہیں اور نہ ہی وہ اس ضمن میں کسی معاہدے کا حصہ رہا ہے لیکن امریکا سمندری حدود سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کررہا ہے۔ اس کے برعکس چین سمندری حدود سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرنے اور اس پر دستخط کرنے کے باوجود جنوبی چین کے سمندری حدود سے متعلق انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا فیصلہ مسترد کردیا ہے۔ چین کے اس رویے کو دیکھ کر یہ ضروری ہے کہ بھرپور سفارتکاری اور بحریہ کی قوت کی صلاحتیوں کے بل پر اسے زیر کیا جائے۔ تاہم چین کو زیر کرنے سے متعلق بھارت، امریکا ، جاپان اور آسٹریلیا کے اتحاد کو ایک دور رس چیلنج درپیش ہے۔
سی اُدئے باسکر
(ڈائریکٹر، سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز)