ETV Bharat / opinion

وبا کے دوران خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے اپنے فرائض ادا کیے - خواتین کی قیادت

ہم عمومی طور پر خواتین کے بارے میں بات کرتے ہوئے مساوات، اختیار اور حقوق جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں لہذا یومِ خواتین کی مناسبت سے اس موضوع پر بات کرنا بہتر ہے۔

Grateful For The Women Who Equally Contributed In the COVID-19 World
وبا کے دوران خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرکے اپنے فرائض ادا کیے
author img

By

Published : Mar 9, 2021, 11:17 AM IST

ہم اس برس عالمی یوم خواتین کووِڈ 19 کے دوران منا رہے ہیں اور ہم اُن خواتین کے مشکور ہیں، جنہوں نے اس وبا کے دوران دن رات محنت کرتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ اور گھریلو زندگیوں میں ایک توازن بنائے رکھا اور ساتھ ہی کئی مریضوں کی دیکھ بھال بھی کی۔ اسی پس منظر میں ای ٹی وی بھارت کے سُکھی بھاوا پینل نے چند خواتین ڈاکٹرز کا انٹرویو کیا۔ پیش ہیں ان انٹرویوز کے اقتباسات:

بھارتی سماج میں خواتین کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانے میں کافی وقت لگا۔ ہمارے سماج میں مرد کو برتری کا پاٹ پڑھایا جاتا رہا ہے لیکن اب خواتین کو یکساں حقوق ملنے لگے ہیں اور وہ خود کو با اختیار کرنے کے لئے آوازیں بلند کرنے لگیں۔ آج آٹھ مارچ جب ہم عالمی یوم خواتین منارہے ہیں، اقوام متحدہ نے اس دن کی مناسبت سے 'خواتین کی قیادت: دُنیا میں کووڈ-19 کے دوران یکساں مستقبل کا ہدف حاصل کیا' کا عنوان دیا ہے۔

ہم آج کے دن کی مناسبت سے خواتین ڈاکٹروں کی اُس ٹیم کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں، جو ای ٹی وی بھارت کے سُکھی بھاوا کے ساتھ گزشتہ تقریباً ایک سال سے جڑی ہوئی ہیں۔ کووِڈ-19 کے دوران ان میں سے بعض نے ہسپتالوں میں صفِ اول کے کارکنوں کی حیثیت سے کام کیا اور رات دن وبا سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ان میں بعض خواتین پس منظر میں کام کررہی تھیں۔ وہ لوگوں کی دماغی صحت کا خیال رکھ رہی تھیں اور اُن تک اس وبا کے بارے میں اور اس سے نمٹنے کے موضوع پر اُن تک حقائق پہنچانے کا کام کررہی تھیں۔ ہم نے ان میں چند ایک کے ساتھ بات چیت کی، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ وبا پھوٹنے کے بعد اُن کے کیا تجربات رہے اور اُنہیں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر راجیہ لکھشمی مدھاورن، جو آرویدا میں ایم ڈی ہیں اور آیورویدیک میڈیکل کالج حیدرآباد میں پروفیسر ہیں، نے بتایا 'ایک آیور ویدیک ڈاکٹر کی حیثیت سے میں نے کئی مشکلات کا سامنا کیا کیوں کہ آن لائن کنسلٹیشن کے دوران مریضوں کو جسمانی جانچ جیسے کہ دل کی دھڑکن چانچنے وغیرہ سے قاصر تھے اور اس کے نتیجے میں ہمیں اُن کی تشخیص کرنے میں دقت آرہی تھی۔ ہم اپنے مریضوں کو خون، پیشاب یا دوسرے ٹیسٹ کروانے کے لئے لیبارٹریز میں جانے کا مشورہ بھی نہیں دے پاتے تھے۔ اس کے علاوہ ادویات کی عدم دستیابی اور مریضوں کی پنچکرما تھرپیز کرانے سے بھی ہم قاصر تھے اور دیرینہ امراض کا شکار مریضوں کی ٹھیک طرح سے مدد نہیں کرپا رہے تھے اور اس طرح سے علاج ومعالجے میں دقتیں پیش آرہی تھیں۔'

چونکہ اس وبا کے دوران نفسیاتی صحت بری طرح متاثر رہی اور اس صورت حال میں بھی مریضوں کی ٹیلی فون یا آن لائن تشخیص کرنی پڑتی تھی۔ یہ عمل دشوار گزار تھا۔

دہرہ دون میں کنسلٹنٹ کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر وینا کرشنن کا کہنا ہے، 'مجھے طبی صلاح و مشورے کے لئے اچانک فونز کالز آتی تھیں۔ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ادویات میسر نہیں تھیں، اس لئے کئی مریضوں کی حالت دوبارہ بگڑ گئی اور انہیں شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں سارے مریضوں سے نمٹنا مشکل عمل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم رابطہ کرنے والے سارے مریضوں کی مدد کرتے رہے۔ جب ہم مریض کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں اور اس کا ملاحظہ کرتے ہیں تو ہمیں اُن کی تشخیص کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے جبکہ آن لائن تشخیص کے دوران ہمیں صرف اُن اطلاعات پر انحصار کرنا پڑتا تھا، جو وہ اپنی بیماری کے بارے میں بتا پا رہے تھے۔

دوسری جانب آن لائن علاج و معالجے کے دوران نیٹ ورک کی دقتیں اور ٹیکنالوجی سے جڑے دوسرے مسائل بھی پریشانی میں اضافے کا باعث بنتے تھے۔ ان وجوہات سے ہم بعض اوقات مریضوں کے چہروں کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ تاہم اپنے تجربے کی روشنی میں، مَیں اُن کی مدد کرپارہی تھی۔'

دہرہ دون میں سینیئر ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر لتیکا جوشی کو بھی بچوں کا آن لائن علاج و معالجہ کرنے میں کافی دقتوں کو سامنا کرنا پڑا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ابتدا میں یہ بھی جانکاری حاصل نہیں تھی کہ اس وبا کے بچوں پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ 'ہسپتالوں میں ہمیں یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ہم صفائی ستھرائی کا بھر پور اہتمام کرنے میں کامیاب ہوں۔ اگر کسی بچے کو ایڈمٹ کرنا ہوتا تھا تو ہمیں یہ فکر رہتی تھی کہ کہیں یہ بچہ کووِڈ سے متاثر نہ ہو اور اس کی وجہ سے دوسرے بچے بھی وائرس سے متاثر نہ ہوجائیں۔ ابتدا میں ہمیں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں یہ بچوں پر وائرس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں طبی جانکاریاں فراہم ہونے لگیں تو ہم بھی اعتماد کے ساتھ اور بہتر طریقے سے بچوں کا علاج و معالجہ کرپائے۔'

دُنیا بھر میں ورکنگ وومن کو گھر اور باہر کے کام میں ایک توازن پیدا کرنے کے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اُنہیں اپنے بال بچوں کو اور سُسرالیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا۔

ڈاکٹر راجیہ لکشمی کہتی ہیں کہ 'چونکہ ہم (خواتین) گھروں میں کام کرنے والی خادمہ کی خدمات حاصل کرنے سے بھی قاصر تھیں، اس لئے ہمیں بیک وقت مریضوں اور اپنے گھروں کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ تاہم خوش قمستی سے مجھے کئی ویبینارز میں شرکت کا موقعہ ملا اور میں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا سیکھا۔'

انہوں نے مزید کہا 'مجھے میری فیملی نے بہت سپورٹ کیا۔ ہم نے کام بانٹ لیا اور بعد میں ہر کام ٹھیک طرح سے ہونے لگا۔ مجھے خوشی ہے کہ ایسے حالات میں بھی مجھے اپنے کنبے کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل پا رہا تھا۔'

صاف ظاہر ہے کہ کووِڈ-19 کے دوران خواتین نے یکساں طور پر مردوں کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ خواہ وہ صف اول میں رہ کر کام کررہی تھیں یا پھر پس پردہ رہ کر، لیکن اُنہوں نے جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کئے۔ اُن کے تعاون کا ہم پوری طرح سے شکریہ ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ بھارت ایک ایسے ملک کی حیثیت سے ابھر رہا ہے، جہاں خواتین با اختیار ہیں اور سماج میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ ہمیں واقعی ان پر فخر ہے۔

ہم اس برس عالمی یوم خواتین کووِڈ 19 کے دوران منا رہے ہیں اور ہم اُن خواتین کے مشکور ہیں، جنہوں نے اس وبا کے دوران دن رات محنت کرتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ اور گھریلو زندگیوں میں ایک توازن بنائے رکھا اور ساتھ ہی کئی مریضوں کی دیکھ بھال بھی کی۔ اسی پس منظر میں ای ٹی وی بھارت کے سُکھی بھاوا پینل نے چند خواتین ڈاکٹرز کا انٹرویو کیا۔ پیش ہیں ان انٹرویوز کے اقتباسات:

بھارتی سماج میں خواتین کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانے میں کافی وقت لگا۔ ہمارے سماج میں مرد کو برتری کا پاٹ پڑھایا جاتا رہا ہے لیکن اب خواتین کو یکساں حقوق ملنے لگے ہیں اور وہ خود کو با اختیار کرنے کے لئے آوازیں بلند کرنے لگیں۔ آج آٹھ مارچ جب ہم عالمی یوم خواتین منارہے ہیں، اقوام متحدہ نے اس دن کی مناسبت سے 'خواتین کی قیادت: دُنیا میں کووڈ-19 کے دوران یکساں مستقبل کا ہدف حاصل کیا' کا عنوان دیا ہے۔

ہم آج کے دن کی مناسبت سے خواتین ڈاکٹروں کی اُس ٹیم کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں، جو ای ٹی وی بھارت کے سُکھی بھاوا کے ساتھ گزشتہ تقریباً ایک سال سے جڑی ہوئی ہیں۔ کووِڈ-19 کے دوران ان میں سے بعض نے ہسپتالوں میں صفِ اول کے کارکنوں کی حیثیت سے کام کیا اور رات دن وبا سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ان میں بعض خواتین پس منظر میں کام کررہی تھیں۔ وہ لوگوں کی دماغی صحت کا خیال رکھ رہی تھیں اور اُن تک اس وبا کے بارے میں اور اس سے نمٹنے کے موضوع پر اُن تک حقائق پہنچانے کا کام کررہی تھیں۔ ہم نے ان میں چند ایک کے ساتھ بات چیت کی، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ وبا پھوٹنے کے بعد اُن کے کیا تجربات رہے اور اُنہیں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر راجیہ لکھشمی مدھاورن، جو آرویدا میں ایم ڈی ہیں اور آیورویدیک میڈیکل کالج حیدرآباد میں پروفیسر ہیں، نے بتایا 'ایک آیور ویدیک ڈاکٹر کی حیثیت سے میں نے کئی مشکلات کا سامنا کیا کیوں کہ آن لائن کنسلٹیشن کے دوران مریضوں کو جسمانی جانچ جیسے کہ دل کی دھڑکن چانچنے وغیرہ سے قاصر تھے اور اس کے نتیجے میں ہمیں اُن کی تشخیص کرنے میں دقت آرہی تھی۔ ہم اپنے مریضوں کو خون، پیشاب یا دوسرے ٹیسٹ کروانے کے لئے لیبارٹریز میں جانے کا مشورہ بھی نہیں دے پاتے تھے۔ اس کے علاوہ ادویات کی عدم دستیابی اور مریضوں کی پنچکرما تھرپیز کرانے سے بھی ہم قاصر تھے اور دیرینہ امراض کا شکار مریضوں کی ٹھیک طرح سے مدد نہیں کرپا رہے تھے اور اس طرح سے علاج ومعالجے میں دقتیں پیش آرہی تھیں۔'

چونکہ اس وبا کے دوران نفسیاتی صحت بری طرح متاثر رہی اور اس صورت حال میں بھی مریضوں کی ٹیلی فون یا آن لائن تشخیص کرنی پڑتی تھی۔ یہ عمل دشوار گزار تھا۔

دہرہ دون میں کنسلٹنٹ کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر وینا کرشنن کا کہنا ہے، 'مجھے طبی صلاح و مشورے کے لئے اچانک فونز کالز آتی تھیں۔ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ادویات میسر نہیں تھیں، اس لئے کئی مریضوں کی حالت دوبارہ بگڑ گئی اور انہیں شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں سارے مریضوں سے نمٹنا مشکل عمل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم رابطہ کرنے والے سارے مریضوں کی مدد کرتے رہے۔ جب ہم مریض کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں اور اس کا ملاحظہ کرتے ہیں تو ہمیں اُن کی تشخیص کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے جبکہ آن لائن تشخیص کے دوران ہمیں صرف اُن اطلاعات پر انحصار کرنا پڑتا تھا، جو وہ اپنی بیماری کے بارے میں بتا پا رہے تھے۔

دوسری جانب آن لائن علاج و معالجے کے دوران نیٹ ورک کی دقتیں اور ٹیکنالوجی سے جڑے دوسرے مسائل بھی پریشانی میں اضافے کا باعث بنتے تھے۔ ان وجوہات سے ہم بعض اوقات مریضوں کے چہروں کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ تاہم اپنے تجربے کی روشنی میں، مَیں اُن کی مدد کرپارہی تھی۔'

دہرہ دون میں سینیئر ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر لتیکا جوشی کو بھی بچوں کا آن لائن علاج و معالجہ کرنے میں کافی دقتوں کو سامنا کرنا پڑا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ابتدا میں یہ بھی جانکاری حاصل نہیں تھی کہ اس وبا کے بچوں پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ 'ہسپتالوں میں ہمیں یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ہم صفائی ستھرائی کا بھر پور اہتمام کرنے میں کامیاب ہوں۔ اگر کسی بچے کو ایڈمٹ کرنا ہوتا تھا تو ہمیں یہ فکر رہتی تھی کہ کہیں یہ بچہ کووِڈ سے متاثر نہ ہو اور اس کی وجہ سے دوسرے بچے بھی وائرس سے متاثر نہ ہوجائیں۔ ابتدا میں ہمیں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں یہ بچوں پر وائرس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں طبی جانکاریاں فراہم ہونے لگیں تو ہم بھی اعتماد کے ساتھ اور بہتر طریقے سے بچوں کا علاج و معالجہ کرپائے۔'

دُنیا بھر میں ورکنگ وومن کو گھر اور باہر کے کام میں ایک توازن پیدا کرنے کے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اُنہیں اپنے بال بچوں کو اور سُسرالیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا۔

ڈاکٹر راجیہ لکشمی کہتی ہیں کہ 'چونکہ ہم (خواتین) گھروں میں کام کرنے والی خادمہ کی خدمات حاصل کرنے سے بھی قاصر تھیں، اس لئے ہمیں بیک وقت مریضوں اور اپنے گھروں کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ تاہم خوش قمستی سے مجھے کئی ویبینارز میں شرکت کا موقعہ ملا اور میں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا سیکھا۔'

انہوں نے مزید کہا 'مجھے میری فیملی نے بہت سپورٹ کیا۔ ہم نے کام بانٹ لیا اور بعد میں ہر کام ٹھیک طرح سے ہونے لگا۔ مجھے خوشی ہے کہ ایسے حالات میں بھی مجھے اپنے کنبے کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل پا رہا تھا۔'

صاف ظاہر ہے کہ کووِڈ-19 کے دوران خواتین نے یکساں طور پر مردوں کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ خواہ وہ صف اول میں رہ کر کام کررہی تھیں یا پھر پس پردہ رہ کر، لیکن اُنہوں نے جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کئے۔ اُن کے تعاون کا ہم پوری طرح سے شکریہ ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ بھارت ایک ایسے ملک کی حیثیت سے ابھر رہا ہے، جہاں خواتین با اختیار ہیں اور سماج میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ ہمیں واقعی ان پر فخر ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.