ETV Bharat / opinion

Panjab Assembly Election 2022: سینیئر رہنماؤں کے محفوظ سیٹ سے لڑنے سے انتخابی مقابلے پھیکے ہوجاتے ہیں - انتخابی مقابلے پھیکے کیوں ہورہے ہیں

قدآور لیڈروں کے اکثر اپنے گڑھ سے الیکشن لڑنے سے انتخابی مقابلے پھیکے ہوتے ہیں، پنجاب اسمبلی انتخابات Panjab Assembly Election میں فی الحال واحد امرتسر سیٹ ہی ایسی ہے جہاں شرومنی اکالی دل کی طرف سے سینئر رہنما بکرم سنگھ مجیٹھیا کو پنجاب کانگریس صدر نوجوت سنگھ سدھو کے سامنے اتارنے سے یہاں انتخابی مقابلہ دلچسپ ہوگیا ہے۔

Senior Shiromani Akali Dal leader Bikram Singh Majithia and Punjab Congress President Navjot Singh Sadhu
شرومنی اکالی دل کے سینئر رہنما بکرم سنگھ مجیٹھیا اور پنجاب کانگریس صدر نوجوت سنگھ سدھو
author img

By

Published : Jan 27, 2022, 10:23 PM IST

قدآور لیڈروں کے اکثر اپنے گڑھ سے یعنی ’محفوظ‘ سیٹ پر لڑنے کی وجہ سے انتخابی مقابلے پھیکے ہوتے ہیں اور یہی پنجاب اسمبلی انتخابات Panjab Assembly Election میں بھی ہونے والا ہے جہاں فی الحال واحد امرتسر سیٹ ہی ایسی ہے جہاں شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کی طرف سے سینئر رہنما بکرم سنگھ مجیٹھیا کو پنجاب کانگریس صدر نوجوت سنگھ سدھو کے سامنے اتارنے سے یہاں انتخابی مقابلہ تھوڑا دلچسپ ہوگا۔

ایس اے ڈی صدر سکھبیر سنگھ بادل نے کل یہ اعلان کیا کہ سدھو یا کانگریس کی طرف سے اب تک کوئی ردعمل آیا نہیں ہے پر یہ سدھو ہی ہیں جو نشہ معاملے میں اپنی حکومت کی کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے اور پچھلے مہینے مجیٹھیا کے خلاف این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

اس معاملے میں مجیٹھیا کو آج ہی سپریم کورٹ سے پیر تک راحت ملی ہے اور اب امکان ہے کہ معاملہ درج کیا گیا۔ اس معاملے میں مجیٹھیا کو آج ہی سپریم کورٹ سے پیر تک راحت ملی ہے اور اب امکان ہے کہ وہ اس دوران امرتسر مشرق سے پرچہ بھریں گے۔

ویسے مجیٹھیا اپنی روایتی اور محفوظ سیٹ سے بھی الیکشن لڑیں گے۔جس کا مطلب ہے کہ ایس اے ڈی کا داؤ پر بہت کچھ نہیں لگا ہے لیکن سدھو اور کانگریس کو تھوڑی مشکل ضرور ہوسکتی ہے۔

یہ بھی ایک اور روایت ہی ہے کہ ایک قد آور جب دوسرے قد آور کے ’گھریلو میدان‘ پر ٹکراتا ہے تو اکثر وہ ساتھ ہی اپنی روایتی اور ’محفوظ‘ سیٹ پر بھی الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے۔

اب تک جاری ہونے والی مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کی فہرستوں کے مطابق تقریباً تمام قدآور رہنما روایتی اور محفوظ سیٹوں پر ہی لڑ رہے ہیں۔

ان میں اہم رہنماؤں میں وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی (چمکور صاحب)، کانگریس کے ریاستی صدر (امرتسر ایسٹ)، سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ (پٹیالہ اربن)، ایس اے ڈی کے سرپرست اور بزرگ رہنما پرکاش سنگھ بادل (لمبی )، ایس اے ڈی کے صدر سکھبیر سنگھ بادل (جلال آباد)، اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار بھگونت مان (دھوری، جو سنگرور پارلیمانی حلقہ میں آتا ہے) اور بی جے پی کے منورنجن کالیا (جالندھر سینٹرل)وغیرہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: اکھلیش نے کرہل سے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

یہ بھی دلچسپ ہے کہ اکثر قدآور لیڈر دوسرے قدآور لیڈروں کو اپنی سرزمین پر آکر لڑنے کے لیے چیلنج کرتے ہیں۔ مان کے دھوری سے الیکشن لڑنے پر ایس اے ڈی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے کل ہی ’بزدلانہ حرکت ‘بتاتے ہوئے انہیں جلال آباد سے الیکشن لڑنے کا چیلنج دیا ہے، جہاں سے گزشتہ الیکشن میں وہ سکھبیر سنگھ بادل سے ہار چکے ہیں۔یہ سیٹ ایس اے ڈی کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔

پچھلے اسمبلی الیکشن میں جلال آباد کے علاوہ ایس اے ڈی کا گڑھ مانی جانے والی سیٹ لمبی پر سینئر بادل اور کیپٹن امریندر سنگھ میں مقابلہ ہوا تھا،جس میں کیپٹن کی ہار ہوئی تھی۔کیپٹن نے اپنی روایتی سیٹ پٹیالہ اربن سے بھی الیکشن لڑا تھا اور جیت گئے تھے۔

یو این آئی

قدآور لیڈروں کے اکثر اپنے گڑھ سے یعنی ’محفوظ‘ سیٹ پر لڑنے کی وجہ سے انتخابی مقابلے پھیکے ہوتے ہیں اور یہی پنجاب اسمبلی انتخابات Panjab Assembly Election میں بھی ہونے والا ہے جہاں فی الحال واحد امرتسر سیٹ ہی ایسی ہے جہاں شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کی طرف سے سینئر رہنما بکرم سنگھ مجیٹھیا کو پنجاب کانگریس صدر نوجوت سنگھ سدھو کے سامنے اتارنے سے یہاں انتخابی مقابلہ تھوڑا دلچسپ ہوگا۔

ایس اے ڈی صدر سکھبیر سنگھ بادل نے کل یہ اعلان کیا کہ سدھو یا کانگریس کی طرف سے اب تک کوئی ردعمل آیا نہیں ہے پر یہ سدھو ہی ہیں جو نشہ معاملے میں اپنی حکومت کی کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے اور پچھلے مہینے مجیٹھیا کے خلاف این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

اس معاملے میں مجیٹھیا کو آج ہی سپریم کورٹ سے پیر تک راحت ملی ہے اور اب امکان ہے کہ معاملہ درج کیا گیا۔ اس معاملے میں مجیٹھیا کو آج ہی سپریم کورٹ سے پیر تک راحت ملی ہے اور اب امکان ہے کہ وہ اس دوران امرتسر مشرق سے پرچہ بھریں گے۔

ویسے مجیٹھیا اپنی روایتی اور محفوظ سیٹ سے بھی الیکشن لڑیں گے۔جس کا مطلب ہے کہ ایس اے ڈی کا داؤ پر بہت کچھ نہیں لگا ہے لیکن سدھو اور کانگریس کو تھوڑی مشکل ضرور ہوسکتی ہے۔

یہ بھی ایک اور روایت ہی ہے کہ ایک قد آور جب دوسرے قد آور کے ’گھریلو میدان‘ پر ٹکراتا ہے تو اکثر وہ ساتھ ہی اپنی روایتی اور ’محفوظ‘ سیٹ پر بھی الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے۔

اب تک جاری ہونے والی مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کی فہرستوں کے مطابق تقریباً تمام قدآور رہنما روایتی اور محفوظ سیٹوں پر ہی لڑ رہے ہیں۔

ان میں اہم رہنماؤں میں وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی (چمکور صاحب)، کانگریس کے ریاستی صدر (امرتسر ایسٹ)، سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ (پٹیالہ اربن)، ایس اے ڈی کے سرپرست اور بزرگ رہنما پرکاش سنگھ بادل (لمبی )، ایس اے ڈی کے صدر سکھبیر سنگھ بادل (جلال آباد)، اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار بھگونت مان (دھوری، جو سنگرور پارلیمانی حلقہ میں آتا ہے) اور بی جے پی کے منورنجن کالیا (جالندھر سینٹرل)وغیرہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: اکھلیش نے کرہل سے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

یہ بھی دلچسپ ہے کہ اکثر قدآور لیڈر دوسرے قدآور لیڈروں کو اپنی سرزمین پر آکر لڑنے کے لیے چیلنج کرتے ہیں۔ مان کے دھوری سے الیکشن لڑنے پر ایس اے ڈی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے کل ہی ’بزدلانہ حرکت ‘بتاتے ہوئے انہیں جلال آباد سے الیکشن لڑنے کا چیلنج دیا ہے، جہاں سے گزشتہ الیکشن میں وہ سکھبیر سنگھ بادل سے ہار چکے ہیں۔یہ سیٹ ایس اے ڈی کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔

پچھلے اسمبلی الیکشن میں جلال آباد کے علاوہ ایس اے ڈی کا گڑھ مانی جانے والی سیٹ لمبی پر سینئر بادل اور کیپٹن امریندر سنگھ میں مقابلہ ہوا تھا،جس میں کیپٹن کی ہار ہوئی تھی۔کیپٹن نے اپنی روایتی سیٹ پٹیالہ اربن سے بھی الیکشن لڑا تھا اور جیت گئے تھے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.