کووِڈ 19 کی وبا کے اقتصادی اثرات سے باہر آنے کی ایک کوشش کے بطور گذشتہ ہفتے کئی ریاستوں نے ملک میں نافذ مزدوروں کے قانون (لیبر لأ) میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔مدھیہ پردیش نے پہل کرکے مزدوروں کے قوانین میں نرمی کا اعلان کیا تاکہ ہماری تقریباََ مردہ ہوچکی صنعت چلتی رہ سکے۔ اُتر پردیش، پنجاب، راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹرا اور کیرالہ نے جلد ہی اس اقدام کی تقلید کرتے ہوئے مختلف سطح کے اقدامات کرکے صنعتوں کی تیز رفتار تنزلی کو کسی حد تک روکنے کی کوشش کی۔ اڑیسہ ، گوا اور کرناٹک کی حکومتیں بھی ان قوانین میں کچھ نرمی کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
ان اقدامات میں کام کے دورانیہ (ورک آورس) میں اضافہ، اضافی وقت کی حد (اوور ٹائم لمِٹ) کو بڑھانا، جانچ پڑتال کے نام کی نوکرشاہانہ رکاوٹوں کو ختم کرنا اور ایک فیکٹری میں ٹریڈ یونین کو تین ماہ سے ایک سال تک کی مدت کیلئے تسلیم کرنے کی خاطر رُکنیت کے معیار کو بڑھانا شامل ہے۔ البتہ اُتر پردیش نے تین قوانین کو چھوڑ دیگر سبھی لیبر قوانین کو 1000 دن کیلئے معطل کرنے کا جُرأت مندانہ اقدام کیا۔یہ تین قوانین جو اس معطلی سے باہر رہے ہیں عمارت اور تعمیرات قانون (بلڈنگ اینڈ کنسٹرکشن ایکٹ)، بندھوا مزدور قانون (بانڈڈ لیبر ایکٹ) اور ادائیگیٔ اُجرت قانون (پیمنٹ آف ویجز ایکٹ) ہیں۔
کیرالہ نے سرمایہ کاری حاصل کرنے کیلئے ایک محتاط اقدام کے بطور اعلان کیا کہ سرمایہ کار ایک سال میں لوازمات پورا کرنے کی حامی بھرلے تو ریاست میں کسی بھی نئی صنعت کو محض ایک ہفتہ میں لائسنس دیا جائے گا حالانکہ اس نے مزدور قانون میں کسی ترمیم کی تجویز نہیں دی ہے۔
البتہ یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ ہماری ریاستیں اب جاکے ان ترامیم کو لیکر کیوں جاگ گئی ہیں؟ اسکی دو وجوہات بتائی جاسکتی ہیں، پہلی وجہ یہ کہ مزدوروں کی بھاری پیمانہ پر بین الریاستی ہجرت نے مہاراشٹرا اور گجرات جیسی صنعتی ریاستوں میں ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ مرکزی سرکار کی جانب سے بیمار صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے اعلان کردہ مختلف پیکیجز تب تک بیکار ہیں جب تک اولین ضرورت یعنی مناسب ورک فورس کا انتظام کیا جاسکے۔مزدوروں کے بڑے پیمانہ پر خروج ، جنکا کام پر لوٹنا فی الحال ممکن نہیں اس لیے فیکٹریوں کو بہر حال اُن چند لوگوں کے ساتھ ہی اپنے کام کو بحال کرنا پڑے گا جو انہیں دستیاب ہی۔ مزدور کو زیادہ سے زیادہ گھنٹوں کیلئے کام پر لینے کا نتیجہ پائیدار پیداوار ہوگا جس سے نہ صرف صنعت اور معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ اس سے مہاجر مزدوروں میں کام پر لوٹ آنے کے حوالے سے اعتماد بھی بڑھے گا۔
دوسری بات یہ کہ چونکہ فی الوقت چین میں قائم کئی کمپنیاں اپنے پیداواری یونٹوں کو یہاں سے نکال کر کہیں اور لیجانے پر سوچ رہی ہیں، کام دہندگان کے موافق پالیسیوں سے ان کمپنیوں کو بھارت منتقل ہوجانے کی ترغیب مل سکتی ہے۔ امریکی کمپنی نے تو پہلے ہی چین میں اپنے کام کا 25 فیصد بھارت منتقل کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔اطلاعات ہیں کہ چین میں موجود 1000 امریکی کمپنیاں اپنے کاروبار کو بھارت منتقل کرنے کی خاطر بھارتی حکام کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کررہی ہیں۔
مانا جارہا ہے کہ بھارتی حکومت بھی آٹومابائل، الیکٹرانکس،ہارڈ وئیر، ادویات بشمولِ طبی آلہ جات، چمڑہ، فوڈ پروسیسنگ اور بھاری انجینئرنگ کی صنعت کی کمپنیوں کو اپنے پیداواری مراکز بھارت لے آنے کیلئے آمادہ کرر ہی ہے۔موقعہ کو دیکھتے ہوئے بھارت سرکار نے پہلے ہی ممکنہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے 4,61,589 ہیکٹئر (461 مربع کلومیٹر) اراضی کی نشاندہی کردی ہے۔ ایسے میں خلیج سے لوٹنے والے بھارتیوں کیلئے روزگار کے مواقعہ بھی پیدا ہونگے۔گجرات، کرناٹک، اُتر پردیش، مہاراشٹرا اور کیرالہ پہلے ہی اس موقع کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں۔جاپان جس نے گجرات میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور جنوبی کوریا بھی بھارت میں بہتر آپشن کی تلاش میں ہیں۔
آئین میں لیبر قانون کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی ریاست کی جانب سے بنایا جانے والا کوئی بھی قانون مرکزی سرکار کے بنائے ہوئے کسی قانون سے متضاد ہونے کی صورت میں کاالعدم ہوسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی ریاستوں نے یہ ترامیم آرڈیننس کی صورت میں اپنائی ہیں۔علاوہ ازیں ایسا لگتا ہے کہ شمالی بھارت کے دو وزرائے اعلیٰ، یوگی آدتیہ ناتھ اور شیوراج سنگھ چوہان پہلے ہی آرڈیننس کے حوالے سے وزیرِ اعظم کو اعتماد میں لے چکے ہیں تاکہ قوانین کا ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چونکہ ابھی پارلیمنٹ یا کوئی ریاستی اسمبلی جاری نہیں ہے ریاستی سرکاروں کو کافی وقت کیلئے کسی رکاوٹ کے بغیر ان ترامیم کے ساتھ چلتے رہنے کا موقع حاصل ہے۔ لیکن اسکے باوجود رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں۔ دلچسپ ہے کہ پہلی کارکن تنظیم جس نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے کوئی اور نہیں بلکہ بی جے پی کے ساتھ وابستہ بھارتیہ مزدور سنگھ ہے۔کئی دیگر ٹریڈ یونییوں نے بھی اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور وہ اس اقدام کو ’’اینٹی ورکر‘‘ اور جمہوریت کی روح کے منافی قرار دیتی ہیں۔
بعض ریاستوں نے وہ معیار بلدن کیا ہے کہ جس پر ایک یونین کو رجسٹڑ کیا جاسکتا ہے جس سے یقیناََمزدور انجمنوں کے مفادات مجروح ہوسکتے ہیں۔نئے ضوابط کو گذشتہ سال پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ ’’کوڈ آف ویجز‘‘ کی خلاف ورزی کرنے کیلئے عدالت میں چلینج بھی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت کہ حتیٰ کہ اپوزیشن پارٹیوں کے زیرِ اقتدار ریاستیں بھی مختلف سطحوں کی ترامیم کو ضروری سمجھتی ہیں جس سے مذکورہ بالا اقدام کی مخالفت کا اثر کم ہوسکتا ہے۔ ہریانہ نے شراعات پر تین ماہ کی تجویز دی ہے جبکہ اُترپردیش نے قوانین کو 1000دنوں کیلئے معطل کردیا ہے۔جہاں صنعتی بحالی کو ماپنے کیلئے تین ماہ کا عرصہ نہایت کم ہے وہیں تین سال یا اس سے زیادہ کی مدت بہت زیادہ ہے۔