گزشتہ ہفتے امریکا میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے اپنی نوعیت کے پہلے ورچیول اجلاس میں جو بائیڈن اور کملا ہیرس کو رسمی طور پر ڈیموکریٹس کی طرف سے بالترتیب صدر اور نائب صدر کے عہدوں کےلئے اُمیدوار قرار دیا ہے۔ امریکا میں صدارتی انتخابات نومبر میں ہونے جارہے ہیں۔ ایک بھارتی نژاد اور سیاہ فام خاتون کو امریکا کی ایک بڑی پارٹی کا نائب صدر کے عہدے کےلئے نامزد کیا جانا، امریکا میں مقیم بھارتی شہریوں کےلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
سینئر صحافی سمیتا شرما نے امریکی انتخابات کے حوالے سے شروع کی گئی انٹرویوز کی ایک سیریز کے تحت، سابق بھارتی سفیر میرا شنکر اور واشنگٹن میں مقیم بھارتی صحافی سری رام لکشمن کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
اس بات چیت میں سری رام لکشمن نے بتایا ہے کہ ڈیموکریٹس کے صدارتی اُمیدوار جو بیڈن کا اپنے نائب صدر کے بطور کملا ہیرس کو چُننا اُن کا ایک درست فیصلہ کیوں مانا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جو بیڈن خود براک اوبامہ کے دور میں نائب صدر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’ سری رام لکشمن کے مطابق وہ (کملا ہیرس) کافی عوامی خدمات انجام دی چکی ہیں۔ انہوں نے کیلی فورنیا میں بطور پبلک پراسیکیوٹر دہائیوں تک کام کیا ہے۔ وہ خود بھی ایک صدارتی اُمیدوار رہ چکی ہیں۔ وہ مختلف نسلوں سے وابستہ امریکی شہریوں کے ساتھ رابطے میں رہی ہے۔ انہیں سیاہ فام رائے دہندگان بھی پسند کرتے ہیں اور جنوبی ایشیاء کے رائے دہندگان بھی۔ وہ ایک خاتون ہیں (یہ بات بھی اُن کے حق میں جاتی ہے)۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ ان ہی وجوہات کی بنا پر مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے امریکی شہری اُنہیں لازمی طور پر اپنا ووٹ دیں گے۔ لیکن بیڈن کے لئے وہ اُن کے نائب کے بطور ایک بہتر انتخاب ضرور ہیں۔ وہ عمر میں بیڈن سے دس بیس سال چھوٹی بھی ہیں۔ ان دونوں کی جوڑی آنے والے چار یا آٹھ سال یا اس سے بھی زیادہ معیاد کےلئے ٹھیک ٹھاک ہے۔ سری رام لکشمن نے مزید کہا، ’’اس وقت امریکا میں نسلی تناو جاری ہے اور ’’ بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے نام سے سیاہ فام شہریوں کے حق میں ایک تحریک جاری ہے۔ اسلئے نسل کے حوالے سے یہاں بحث و مباحثے بھی جاری ہیں۔‘‘
تاہم میرا شنکر کا کہنا ہے کہ نسلی پہلو سے ہٹ کر یہ اقدار اور پالیسیوں کا معاملہ بھی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ بھارتی نژاد امریکی کمونٹی کو دونوں سیاسی جماعتیں یعنی ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس لبھانے کی کو شش کیوں کررہے ہیں، جبکہ تعداد کے لحاظ سے یہ کوئی بڑا طبقہ بھی نہیںہے۔ اس پر سابق سفیر نے بتایا کہ اس وقت اس یہ کمونٹی معاشی اور سیاسی لحاظ سے متحرک ہے۔
میرا شنکر نے کہا، ’’ یہ کوئی بڑا ووٹ بینک نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبقہ ایشیائی رائے دہندگان کی مجموعی تعداد کا محض 4.7 فیصد اور ہسپانوی مجموعی رائے دہندگان کا 13فیصد ہے۔ جبکہ سیاہ فام 12فیصد سے کچھ زیادہ ہیں۔ اس طرح سے بھارتی نژاد امریکن شہری تعداد کے لحاظ سے زیادہ نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ بھارتی نژاد امریکن سیاسی لحاظ سے متحرک ہیں، اس لئے ان انتخابات میں ان کی ایک خاص اہمیت ہیں۔کیونکہ ان انتخابات میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’ بھارتی نژاد امریکن کمونٹی دولت مند ہے اور وہ سیاست میں زیادہ متحرک کردار چاہتے ہیں۔ اس لئے حالیہ برسوں کے دوران اُنہوں نے سیاسی عطیات فراہم کرنے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جبکہ دونوں ڈیموکریٹس اور ریپبلکینز انتخابات کے انعقاد کے لئے زیادہ سے زیادہ ڈونیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے عوض یہ پارٹیاں وہ وعدے کرتی ہیں، جو وہ بعد میں پورے کرسکیں گیں۔ اسکے علاوہ بھارتی نژاد امریکی معاشی شعبے میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ کئی کلیدی کمپنیوں کے سربراہ بھی اسی کمونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں گوگل، مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، ماسٹر کارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ پہلے پیپسی کو بھی ان ہی کمپنیوں میں شامل تھی، جس کی سربراہی ایک بھارتی نژاد امریکی کررہا تھا۔‘‘
سری رام لکشمن نے مزید کہا، ’’ دونوں پارٹیاں 13 لاکھ افراد پر مشتمل اس کمونٹی، جو لگ بھگ سات ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہے، میں سے کم از کم دس لاکھ ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ہمارے پاس میسر اعداد و شمار کے مطابق بھارتی نژاد امریکی شہری غالب اکثریت میں روایتی طور پر ڈیموکریٹس کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ پچھلے انتخاب میں اس کمونٹی نے لگ بھگ 70 فیصد ووٹ ہیلری کلنٹن کے حق میں دیا تھا۔ 2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں جو تفاوت تھی، اس سے کہیں زیادہ تعداد میں بھارتی نژاد امریکی ریاستوں میں مقیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں پارٹیاں اس کمونٹی کو لبھانے کی کوشش کررہی ہیں۔‘‘
تاہم سری رام لکشمن نے یہ بات بھی بتادی کہ انڈو امریکن کمونٹی کے رائے دہندگان اُمید واروں کی عمر کو ملحوظ نظر رکھ کر بھی ووٹ دیتے ہیں۔ ممکنہ طور پر اس کمونٹی کے بزرگ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیں گے، باوجود اس کے کہ کملا ہیرس بھارتی نژاد ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ انڈین امریکن میں شامل بزرگ جو بھارت میں پیدا ہوئے ہیں، اپنی کمونٹی کے اُن لوگوں سے ذرا مختلف رائے رکھتے ہیں، جو امریکا میں پیدا ہوئے ہیں یا پھر جو 45 سال کی عمر تک کے ہیں۔ یہ طبقہ عام امریکیوں کی طرح سوچتے ہیں اور ان ہی کی طرح اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ‘‘ بعض لوگ مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلق کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیں گے۔ لیکن جہاں تک چھوٹی عمر کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ روزگار، وبا سے نمٹنے کے اقدامات اور نسلی مسائل کے پیش نظر اپنے حق رائے دہی کا اظہار کریں گے۔
اس بحث و مباحثے کے دوران بھارت میں موجود کئی مسائل جن میں میں کشمیر، شہریت ترمیمی ایکٹ ، انسانی حقوق، لبرل اقدار وغیرہ شامل ہیں، کے حوالے سے کملا ہیرس کے نظریات پر بھی بات ہوئی۔ ان معاملات پر ڈیموکریٹس ایک سخت موقف کی حامل ہے۔ ایسی صورتحال میں بھلا وہ مودی کی قیادت والی بھارتی اکثریت پسند حکومت کے حق میں کیسے ہوسکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں میرا شنکر کہتی ہیں، ’’ اس صورتحال میں دونوں نفع اور نقصانات موجود ہیں۔ عمومی طور پر دونوں پارٹیوں کا ماننا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے ہیں۔ اس جذبے کے پس پردہ یہ سٹریٹجیک اجماع ہے کہ چین کے چیلنج کو قابو کرنا ہے۔ اگر اسے ایشیا ء میں چین کی غنڈہ گردی نہ کہیں لیکن اس خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی خود اعتمادی ایک چلینج بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسا منفرد مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک امریکا اور بھارت کے تعلقات مضبوط ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیموکریٹس نے ہمیشہ انسانی حقوق کو زیادہ اہمیت دی ہے لیکن وہ دوسرے ممالک کے ساتھ بنیادی مفادات کی قیمت پر انسانی حقوق کو ترجیح نہیں دے سکتے ہیں۔ یہ بات بھارت نے بھی سیکھی ہے۔
تاہم اُن کا مزید کہنا ہے کہ بھارت کو سب سے زیادہ اہمیت روزگار سے جڑے مسائل کو ترجیح دینی چاہیے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بعض سیاسی معاملات، جو بھارت کےلئے حساس ہیں، پر کچھ ایسے بیانات بھی دیئے ہیں ، جو بھارت کے حق میں جاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک بھارت کو ترجیح (جی ایس پی) نہ دینے اور اسے ترقی پذیر ممالک کا درجہ کم کرے گا۔ اس کے علاوہ لوہے اور المونیم کے در آمدی ٹیکس کو بھی کم کرے گا اور ایچ ون بی ویزا کو معطل کرے گا۔ یہ وہ باتیں ہیں، جن کی وجہ سے بھارت کو ٹھیس پہچنی ہے اور اس کی وجہ سے بھارت کی تجارت متاثر ہوگی۔