ETV Bharat / opinion

سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی شمولیت پر روک

author img

By

Published : Jul 27, 2020, 2:25 PM IST

سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے پروفیسرس سنجے کمار اور نیل مادھو نے سپریم کورٹ کے ذریعہ سیاسی جماعتوں میں جرائم پیشہ افراد کو ٹکٹ دینے کے تعلق سے دیئے گئے فیصلے پر کہا ہے کہ پیسے اور غنڈہ گردی کے بل پر جرائم پیشہ اُمید وار ہمارے جمہوری اقدار اور متحرک جمہوریت کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ایسے میں عدالت عظمی کا یہ فیصلہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔عدالت کے اس فیصلے سے سیاسی جماعتوں پر اخلاقی دباو بنانے میں کار آمد ثابت ہونگی اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو اُمیدواروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری بھی فراہم ہوگی۔

سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی شمولیت پر روک
سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی شمولیت پر روک

کیا عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ معاون ثابت ہوگا؟

عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ، جس میں سیاسی جماعتوں سے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے کی وجوہات بیان کرنے کےلئے کہا گیا ہے، ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں پر اخلاقی معیار کا لحاظ رکھنے کےلئے دباؤ ڈالنے کا اختیار مل سکتا ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کی رو سے اب سیاسی جماعتوں کو کھلے عام یہ بتانا پڑے گا کہ وہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو ٹکٹ کیوں دے رہے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ محض الیکشن کمیشن کو سیاسی پارٹیوں پر دباو بنانے اور اُن سے سوال پوچھے جانے کا اختیار دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں سیاسی جماعتوں سے محض سوال پوچھنے کا اختیار ملنا ہی کافی ہے، یعنی کیا محض سوال پوچھے جانے سے ہی سیاسی جماعتیں دباو میں رہیں گی۔ کیا اس فیصلے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کسی مجرمانہ پس منظر رکھنے والے شخص کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑے گا؟ کیا عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو انتخابات میں جرائم پیشہ لوگوں کی شرکت روکنے میں کامیابی حاصل ہوگی؟

بھارتی سیاست کو اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست جرائم ذدہ ہوگئی ہے۔ پالیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں جرائم پیشہ لوگوں کا بطور اُمید وار منتخب ہوجانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2004ء میں منتخب ہونے والی پندرہویں لوک سبھا میں چوبیس فیصد ممبران ایسے تھے، جن کے خلاف جرائم سے جڑے معاملات درج تھے۔ سال 2009ء میں سولہویں لوک سبھا کے انتخابات میں مجرمانہ ریکارڈ ریکھنے والے منتخب اُمیدواروں کی شرح بڑھ کر تیس فیصد تک پہنچ گئی۔ سال 2014ء کے انتخابات کے بعد یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ شاید اس معاملے میں اب ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے منتخب ہوجانے کے سلسلے میں کمی واقع ہوگئی۔ لیکن کم از کم اس معاملے میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔

سال 2019ء میں ستھرویں لوک سبھا کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین میں 43 فیصد اراکین کا مجرمانہ پس منظر ہے۔ جہاں تک مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے منتخب ہوجانے کا تعلق ہے، وہاں بھی صورتحال لوک سبھا سے مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر ریاستی اسمبلیوں میں منتخب ہوجانے والے اراکین میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات، جن میں عام آدمی پارٹی کو مسلسل دوسری بار فتح حاصل ہوئی ہے، میں بھی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کو منتخب ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ 70 اراکین پر مشتمل دہلی کی قانون ساز اسمبلی کے سال 2015ء کے انتخابات میں ایسے چوبیس اراکین منتخب ہوئے تھے، جن کے خلاف مجرمانہ معاملات درج تھے لیکن اسمبلی کے حالیہ، یعنی سال 2020ء کے دہلی اسمبلی انتخاب میں اس طرح کا ریکارڈ رکھنے والے بیالیس اراکین منتخب ہوکر آگئے۔

دہلی اسمبلی میں منتخب ہوجانے والے ایسے ممبران، جن کے خلاف قتل، خواتین سے متعلق جرائم اور نفرت انگیز تقریروں کے معاملات درج ہیں، ان کی تعداد سال 2015ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں 14 تھی لیکن تازہ انتخابات میں ان سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے منتخب اراکین کی تعداد بڑھ کر 37 تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا الزام رکھنے والے اراکین اسمبلی کی تعداد میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ جس طرح پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوجانے والے اراکین کے بہتر معیار کی توقع غلط ثابت ہوئی بالکل اسی طرح دلی اسمبلی انتخابات میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کے منتخب نہ ہوجانے کی اُمید بھی غلط ثابت ہوگئی۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایک معیاری حکمرانی فراہم کرے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر واقعی اخلاقی معیار کو برقرار رکھا گیا ہوتا تو ہمیں پارلیمنٹ اور دہلی اسمبلی میں صرف ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے، جن کا ریکارڈ شفاف ہوتا۔ کیونکہ بی جے پی نے قومی سطح پر شفاف سیاست کی یقین دہانی کرائی تھی اور عام آدمی پارٹی نے بھی دہلی اسمبلی کی سیاست کے بارے میں ایسا ہی دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے منتخب اُمیدواروں کے معیار کے حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔

حالیہ فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے انتخابی اُمیدواروں کو نامزد کرنے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے لئے چھ رہنما اصول مرتب کئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے سیاسی جماعتوں اپنے نامزد اُمیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر تفصیلات فراہم کرنے کا پابند بنایا ہے۔ فیصلے میں سیاسی جماعتوں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا کہ وہ بتائیں کہ اُنہیں نامزدگی کے لئے کوئی ایسا اُمیدوار کیوں نہیں ملا، جس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہ ہو۔ یعنی سیاسی جماعتوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ کسی ایسے شخص کو ٹکٹ کیوں دے رہے ہیں، جس کے خلاف مجرمانہ کیس یا کیسز درج ہوں۔

عدالت نے ایک اور اصول یہ طے کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے محض یہ وجہ بتانا کافی نہیں ہوگا، کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے اُمید وار کو اس کےلئے نامزد کیا گیا کیونکہ اُسکے الیکشن جیتنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے نامزد اُمیدواروں کے بارے میں یہ ساری جانکاری ایک مقامی زبان کے اخبار اور ایک قومی اخبار میں بھی شائع کرانی ہوگی اور ساتھ ساتھ یہ جانکاری پارٹی کے سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے بھی جاری کرنی ہوگی۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ سب کچھ اُمیدوار کو نامزد کرنے کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر اندر یا اس کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے کم از کم دو ہفتے قبل کرنا پڑے گا۔ ان ہدایات کی تعمیل کے بارے میں پارٹی کو 72 گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ جاری کرنی ہوگی۔ یعنی سیاسی پارٹیوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اُنہوں نے متذکرہ طے شدہ ضوابط پر عمل در آمد کیا ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں ایسا نہیں کرتی ہیں تو الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی حکم عدولی اور توہین عدالت کی پاداش میں ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا۔

یہ ساری ہدایات سیاسی جماعتوں پر اخلاقی دباو بنانے میں کار آمد ثابت ہونگی اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو اُمیدواروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری بھی فراہم ہوگی۔ لیکن یہ نیا فیصلہ اگر نافذ ہو بھی جاتا ہے تو اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگوں کے لئے سیاست میں داخلہ بند نہیں ہوگا۔ سینٹر فار سٹیڈی آف ڈیولپمنٹ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 65 فیصد بھارتی رائے دہندگان پارٹی کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ بہت کم لوگ متعلقہ اُمید وار کے کردار اور معیار کو دیکھنے اور جاننے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر سیاسی جماعتیں اخلاقی دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کو نامزد کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی تو وہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی رکنیت کےلئے منتخب ہوتے رہیں گے۔ الیکشن کمشن کے محدود اختیارات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ستمبر 2018 ء میں سپریم کورٹ نے سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی شمولت پر روک لگانے کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر ڈال دی تھی۔ عدالت نے پارلیمنٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس ضمن میں قانون سازی کرکے یہ بات یقینی بنائے کہ سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے سیاست میں داخل نہ ہوں۔ لیکن عدالت کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔

عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو زیادہ اختیارات تو حاصل نہیں ہوئے ہیں البتہ اس کے نتیجے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر عوامی دباو کی وجہ سے سیاسی جماعتیں انتخابات کے لئے ٹکٹ دینے کے عمل میں احتیاط سے ضرور کام لیں گی۔

ہمیں یہ اُمید کرنی چاہیے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کئے گئے رہنما اصولوں کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں پر اخلاقی دباو پڑے گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ جرائم ذدہ سیاست تب تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک جوڈیشل نظام میں اصلاحات نہ لائی جائیں۔ عدالتوں میں فوری انصاف کی فراہمی اور التوا میں پڑے کیسوں کو نمٹانا بہت ضروری ہے۔ جرائم میں ملوث لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکنے کےلئے ان کے کیسز کی فوری شنوائی نچلی عدالتوں سے کرانا بھی ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ پیسے اور غنڈہ گردی کے بل پر جرائم پیشہ اُمید وار ہمارے جمہوری اقدار اور متحرک جمہوریت کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ ہماری آبادی ایک سو تیس کروڑ ہے اور ہم دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کس طرح کی جمہوریت چاہتے ہیں تاکہ ہم اپنی جمہوریت پر فخر کرسکیں۔ کیا ہمیں ایسی جمہویت چاہیے جس میں جرائم پیشہ لوگ بھی ایوانوں میں نمائندگی کے لئے منتخب ہوں یا ایسی جمہوریت، جس میں جرائم پیشہ لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکا جاتا ہے۔ وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ سیاست کو صاف و پاک کرنے کی ضرورت جتنی آج محسوس کی جارہی ہے، ماضی میں اتنی کبھی نہیں رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، اس ضمن میں اقدامات کرنے ناگزیر ہیں۔

*سنجے کمار سینٹر فار دی سٹیڈٰی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے پروفیسر ہیں۔ وہ ایک سیاسی مبصر اور ایک سرکردہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔

** نیل مادھو دہلی یونیورسٹی میں جرنلزم کے شعبے کے ایک طالب علم ہیں اور وہ سینٹر فار دی سٹیڈٰی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) سے منسلک ’لوک نیتی‘ کے ایک محقق بھی ہیں۔

کیا عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ معاون ثابت ہوگا؟

عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ، جس میں سیاسی جماعتوں سے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے کی وجوہات بیان کرنے کےلئے کہا گیا ہے، ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں پر اخلاقی معیار کا لحاظ رکھنے کےلئے دباؤ ڈالنے کا اختیار مل سکتا ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کی رو سے اب سیاسی جماعتوں کو کھلے عام یہ بتانا پڑے گا کہ وہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو ٹکٹ کیوں دے رہے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ محض الیکشن کمیشن کو سیاسی پارٹیوں پر دباو بنانے اور اُن سے سوال پوچھے جانے کا اختیار دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں سیاسی جماعتوں سے محض سوال پوچھنے کا اختیار ملنا ہی کافی ہے، یعنی کیا محض سوال پوچھے جانے سے ہی سیاسی جماعتیں دباو میں رہیں گی۔ کیا اس فیصلے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کسی مجرمانہ پس منظر رکھنے والے شخص کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑے گا؟ کیا عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو انتخابات میں جرائم پیشہ لوگوں کی شرکت روکنے میں کامیابی حاصل ہوگی؟

بھارتی سیاست کو اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست جرائم ذدہ ہوگئی ہے۔ پالیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں جرائم پیشہ لوگوں کا بطور اُمید وار منتخب ہوجانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2004ء میں منتخب ہونے والی پندرہویں لوک سبھا میں چوبیس فیصد ممبران ایسے تھے، جن کے خلاف جرائم سے جڑے معاملات درج تھے۔ سال 2009ء میں سولہویں لوک سبھا کے انتخابات میں مجرمانہ ریکارڈ ریکھنے والے منتخب اُمیدواروں کی شرح بڑھ کر تیس فیصد تک پہنچ گئی۔ سال 2014ء کے انتخابات کے بعد یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ شاید اس معاملے میں اب ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے منتخب ہوجانے کے سلسلے میں کمی واقع ہوگئی۔ لیکن کم از کم اس معاملے میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔

سال 2019ء میں ستھرویں لوک سبھا کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین میں 43 فیصد اراکین کا مجرمانہ پس منظر ہے۔ جہاں تک مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے منتخب ہوجانے کا تعلق ہے، وہاں بھی صورتحال لوک سبھا سے مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر ریاستی اسمبلیوں میں منتخب ہوجانے والے اراکین میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات، جن میں عام آدمی پارٹی کو مسلسل دوسری بار فتح حاصل ہوئی ہے، میں بھی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کو منتخب ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ 70 اراکین پر مشتمل دہلی کی قانون ساز اسمبلی کے سال 2015ء کے انتخابات میں ایسے چوبیس اراکین منتخب ہوئے تھے، جن کے خلاف مجرمانہ معاملات درج تھے لیکن اسمبلی کے حالیہ، یعنی سال 2020ء کے دہلی اسمبلی انتخاب میں اس طرح کا ریکارڈ رکھنے والے بیالیس اراکین منتخب ہوکر آگئے۔

دہلی اسمبلی میں منتخب ہوجانے والے ایسے ممبران، جن کے خلاف قتل، خواتین سے متعلق جرائم اور نفرت انگیز تقریروں کے معاملات درج ہیں، ان کی تعداد سال 2015ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں 14 تھی لیکن تازہ انتخابات میں ان سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے منتخب اراکین کی تعداد بڑھ کر 37 تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا الزام رکھنے والے اراکین اسمبلی کی تعداد میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ جس طرح پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوجانے والے اراکین کے بہتر معیار کی توقع غلط ثابت ہوئی بالکل اسی طرح دلی اسمبلی انتخابات میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کے منتخب نہ ہوجانے کی اُمید بھی غلط ثابت ہوگئی۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایک معیاری حکمرانی فراہم کرے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر واقعی اخلاقی معیار کو برقرار رکھا گیا ہوتا تو ہمیں پارلیمنٹ اور دہلی اسمبلی میں صرف ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے، جن کا ریکارڈ شفاف ہوتا۔ کیونکہ بی جے پی نے قومی سطح پر شفاف سیاست کی یقین دہانی کرائی تھی اور عام آدمی پارٹی نے بھی دہلی اسمبلی کی سیاست کے بارے میں ایسا ہی دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے منتخب اُمیدواروں کے معیار کے حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔

حالیہ فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے انتخابی اُمیدواروں کو نامزد کرنے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے لئے چھ رہنما اصول مرتب کئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے سیاسی جماعتوں اپنے نامزد اُمیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر تفصیلات فراہم کرنے کا پابند بنایا ہے۔ فیصلے میں سیاسی جماعتوں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا کہ وہ بتائیں کہ اُنہیں نامزدگی کے لئے کوئی ایسا اُمیدوار کیوں نہیں ملا، جس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہ ہو۔ یعنی سیاسی جماعتوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ کسی ایسے شخص کو ٹکٹ کیوں دے رہے ہیں، جس کے خلاف مجرمانہ کیس یا کیسز درج ہوں۔

عدالت نے ایک اور اصول یہ طے کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے محض یہ وجہ بتانا کافی نہیں ہوگا، کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے اُمید وار کو اس کےلئے نامزد کیا گیا کیونکہ اُسکے الیکشن جیتنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے نامزد اُمیدواروں کے بارے میں یہ ساری جانکاری ایک مقامی زبان کے اخبار اور ایک قومی اخبار میں بھی شائع کرانی ہوگی اور ساتھ ساتھ یہ جانکاری پارٹی کے سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے بھی جاری کرنی ہوگی۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ سب کچھ اُمیدوار کو نامزد کرنے کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر اندر یا اس کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے کم از کم دو ہفتے قبل کرنا پڑے گا۔ ان ہدایات کی تعمیل کے بارے میں پارٹی کو 72 گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ جاری کرنی ہوگی۔ یعنی سیاسی پارٹیوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اُنہوں نے متذکرہ طے شدہ ضوابط پر عمل در آمد کیا ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں ایسا نہیں کرتی ہیں تو الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی حکم عدولی اور توہین عدالت کی پاداش میں ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا۔

یہ ساری ہدایات سیاسی جماعتوں پر اخلاقی دباو بنانے میں کار آمد ثابت ہونگی اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو اُمیدواروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری بھی فراہم ہوگی۔ لیکن یہ نیا فیصلہ اگر نافذ ہو بھی جاتا ہے تو اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگوں کے لئے سیاست میں داخلہ بند نہیں ہوگا۔ سینٹر فار سٹیڈی آف ڈیولپمنٹ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 65 فیصد بھارتی رائے دہندگان پارٹی کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ بہت کم لوگ متعلقہ اُمید وار کے کردار اور معیار کو دیکھنے اور جاننے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر سیاسی جماعتیں اخلاقی دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کو نامزد کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی تو وہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی رکنیت کےلئے منتخب ہوتے رہیں گے۔ الیکشن کمشن کے محدود اختیارات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ستمبر 2018 ء میں سپریم کورٹ نے سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی شمولت پر روک لگانے کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر ڈال دی تھی۔ عدالت نے پارلیمنٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس ضمن میں قانون سازی کرکے یہ بات یقینی بنائے کہ سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے سیاست میں داخل نہ ہوں۔ لیکن عدالت کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔

عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو زیادہ اختیارات تو حاصل نہیں ہوئے ہیں البتہ اس کے نتیجے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر عوامی دباو کی وجہ سے سیاسی جماعتیں انتخابات کے لئے ٹکٹ دینے کے عمل میں احتیاط سے ضرور کام لیں گی۔

ہمیں یہ اُمید کرنی چاہیے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کئے گئے رہنما اصولوں کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں پر اخلاقی دباو پڑے گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ جرائم ذدہ سیاست تب تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک جوڈیشل نظام میں اصلاحات نہ لائی جائیں۔ عدالتوں میں فوری انصاف کی فراہمی اور التوا میں پڑے کیسوں کو نمٹانا بہت ضروری ہے۔ جرائم میں ملوث لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکنے کےلئے ان کے کیسز کی فوری شنوائی نچلی عدالتوں سے کرانا بھی ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ پیسے اور غنڈہ گردی کے بل پر جرائم پیشہ اُمید وار ہمارے جمہوری اقدار اور متحرک جمہوریت کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ ہماری آبادی ایک سو تیس کروڑ ہے اور ہم دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کس طرح کی جمہوریت چاہتے ہیں تاکہ ہم اپنی جمہوریت پر فخر کرسکیں۔ کیا ہمیں ایسی جمہویت چاہیے جس میں جرائم پیشہ لوگ بھی ایوانوں میں نمائندگی کے لئے منتخب ہوں یا ایسی جمہوریت، جس میں جرائم پیشہ لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکا جاتا ہے۔ وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ سیاست کو صاف و پاک کرنے کی ضرورت جتنی آج محسوس کی جارہی ہے، ماضی میں اتنی کبھی نہیں رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، اس ضمن میں اقدامات کرنے ناگزیر ہیں۔

*سنجے کمار سینٹر فار دی سٹیڈٰی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے پروفیسر ہیں۔ وہ ایک سیاسی مبصر اور ایک سرکردہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔

** نیل مادھو دہلی یونیورسٹی میں جرنلزم کے شعبے کے ایک طالب علم ہیں اور وہ سینٹر فار دی سٹیڈٰی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) سے منسلک ’لوک نیتی‘ کے ایک محقق بھی ہیں۔

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.