ETV Bharat / opinion

UP Assembly Election 2nd Phase: دوسرے مرحلے میں دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کا کمبینیشن کافی اہم ہوگا

author img

By

Published : Feb 13, 2022, 10:33 PM IST

یوپی اسمبلی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والی 55 سیٹوں میں سے تقریبا 25 سیٹوں پر مسلم ووٹر اور 20 سے زیادہ سیٹوں پر دلت ووٹر ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں اور تمام پارٹیوں کے امیدواروں کہ فہرست سے صاف ہوگیا ہے کہ اس علاقے میں الیکشن کا دارومدار دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن پر منحصر ہے۔UP Assembly Election 2nd Phase

combination of Dalit, Jat and Muslim votes will be very important in UP Assembly Election 2nd Phase
دوسرے مرحلے میں دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کا کمبینیشن کافی اہم ہوگا

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جن اضلاع کی 55 سیٹوں پر 14 فروری یعنی کل ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں امروہہ، سہارنپور، بجنور، رامپور، سنبھل، مرادآباد، بریلی، بدایوں اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔ UP Assembly Election 2nd Phase

اس مرحلے میں یوگی حکومت کے تین وزیر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ سہارنپور سے سریش کھنہ، ضلع سنبھل کی چندوسی سے گلابو دیوی اور رامپور کی بلاسپور سیٹ سے بلدیو سنگھ اولکھ شامل ہیں۔

اپوزیشن کے معروف چہرے جو انتخابی میدان میں ہیں ان میں سینئر سماج وادی پارٹی(ایس پی) لیڈر اعظم خان رامپور صدر سے، یوگی کابینہ کے سابق وزیر اور اب ایس پی امیدوار دھرم پال سنگھ سینی ضلع سہارنپور کی نکور سے اور امروہہ سے محبوب علی قابل ذکر ہیں۔

مسلم اکثریتی علاقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف پارٹیوں نے 75سے زیادہ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ان میں بی ایس پی کے سب سے زیادہ 25، ایس پی۔ آر ایل ڈی اتحاد کے 18، کانگریس نے 23مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ وہیں ایم آئی ایم کے 15مسلم چہروں نے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Election 2022: جاٹ اکثریتی حلقوں میں اسمبلی انتخابات کا پہلا مرحلہ کتنا اہم؟

تقریبا ایک مہینے تک چلی انتخابی مہم میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں ایس پی۔ بی ایس پی ، آر ایل ڈی، اور کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والی 55 سیٹوں میں سے تقریبا 25 سیٹوں پر مسلم ووٹر اور 20 سے زیادہ سیٹوں پر دلت ووٹر ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اس علاقے میں سال 2017 کے مودی لہر نے دلت۔ مسلم صف بندی کی وجہ سے ماضی میں بی جے پی کے کمزور ہونے کے طلسم کو توڑتے ہوئے 55 میں سے 38سیٹوں پر جیت درج کی تھی، جبکہ ایس پی کو 15 اور اس کی اتحادی پارٹی کانگریس کو دو سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت ایس پی کے 15میں سے 10اور کانگریس کے دو میں سے ایک مسلم ایم ایل اے جیتے تھے۔

ماہرین کی رائے میں دلت ووٹوں میں تقسیم کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ سابقہ الیکشن میں بی ایس پی کا اس علاقے میں کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔

اس الیکشن میں کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کی مشکلیں بڑھا سکتی ہے۔ وہیں مخالف خیمے میں ایس پی اس علاقے میں اپنے احتجاج کو اک دم شباب پر لے جانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس سے پہلے سال 2012 میں جب ایس پی نے حکومت بنائی تھی اس وقت بھی ایس پی کو اس علاقے کی 55 سیٹوں میں سے 27سیٹوں میں جیت ملی تھی جبکہ بی جے پی کے کھاتے میں 8 سیٹیں آئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: کرہل سیٹ پر دلچسپ مقابلہ، اکھلیش کے لیے کرہل سیٹ فتح کرنا آسان نہیں ہوگا

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والے 9 اضلاع میں سے سات اضلاع رامپور، سنبھل، مرادآباد، سہارنپور، امروہہ، بجنور اور نگینہ میں دلت مسلم ووٹر ہی امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ایس پی۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اتحاد کیا تھا اور ان سات اضلاع کی سبھی سات لوک سبھا سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ ان میں ایس پی کے رامپور مرادآباد اور سنبھل جبکہ بی ایس پی کو سہارنپور، نگینہ، بجنور اور امروہہ سیٹوں میں جیت ملی تھی۔

واضح رہے کہ اس الیکشن میں ذات پات کی صف بندی کی بنیاد پر بی جے پی کے لیے سابقہ الیکشن کی طرز پر مذہب کی بنیاد پر اور سیکورٹی کے مسئلے پر ووٹوں کی تقسیم کرانا پڑا چیلنج ہے۔

سبھی پارٹیوں کے امیدواروں کہ فہرست سے صاف ہوگیا ہے کہ اس علاقے میں الیکشن کا دارومدار دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن پر منحصر ہے۔

انتخابی ایجنڈوں کی اگر بات کی جائے تو کسان تحریک کا گڑھ رہے مغربی اترپردیش میں کسانوں کی پریشانیاں سب سے بڑا ایجنڈا ہیں۔

ماہرین کی رائے میں مودی حکومت بھلے ہی تینوں زرعی قوانین واپس لے کر سب سے لمبے کسان تحریک کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو لیکن کسانوں کاغصہ اب بھی بی جے پی کے لیے اس الیکشن کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

کسانوں کے اشتعال کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ترقیاتی کاموں کا اس علاقے میں جم کر انتخابی مہم چلائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: اکھلیش نے کرہل سے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

بی جے پی نے شاہ کو مغربی اترپردیش میں پارٹی کا انتخابی انچارج بنایا ہے۔ یہ الیکشن شاہ کے انتخابی انتظامات کو بھی کسوٹی پر پرکھے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سال 2012 میں جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئی تھی اس وقت ایس پی نے 55میں سے 27 سیٹوں پر جیت درج کی تھی جب کہ بی جے پی کے کھاتے میں محض 8سیٹیں آئی تھیں۔

ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اکھلیش کے انتخابی نتائج کی لگاتار ناکامیوں پر اس الیکشن میں بریک لگتا ہے یا نہیں۔ وہ آر ایل ڈی کے جینت چودھری کے ساتھ پورے مغربی اترپردیش میں لگاتار انتخابی مہم کر کے کسانوں کے پریشانیوں کو اہم ایجنڈا بنا رہے ہیں۔ جس سے کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کا وجئے رتھ روک سکے۔

علاوہ ازین یہ الیکشن جینت چودھری کے لیے بھی سخت امتحان ہے۔ یہ انتخاب یہ طے کرے گا کہ وہ جاٹ لینڈ کے چودھری ہیں یا نہیں۔

بی ایس پی کی بھی کوشش ہے کہ مغربی اترپردیش میں ایس پی آرایل ڈی اتحاد اور بی جے پی کی لڑائی کو سہ رخی بنا دیا جائے۔ اس علاقے کی دلت اکثریتی دو درجن سیٹوں پر اپنے امیدوار جتانے کی بی ایس پی کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔

سابقہ امتحانات میں اس علاقے سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ کرپانے والی بی ایس پی کے لیے یہ الیکشن اپنے وجود کو ثابت کرنے والا ہوگیا ہے۔

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جن اضلاع کی 55 سیٹوں پر 14 فروری یعنی کل ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں امروہہ، سہارنپور، بجنور، رامپور، سنبھل، مرادآباد، بریلی، بدایوں اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔ UP Assembly Election 2nd Phase

اس مرحلے میں یوگی حکومت کے تین وزیر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ سہارنپور سے سریش کھنہ، ضلع سنبھل کی چندوسی سے گلابو دیوی اور رامپور کی بلاسپور سیٹ سے بلدیو سنگھ اولکھ شامل ہیں۔

اپوزیشن کے معروف چہرے جو انتخابی میدان میں ہیں ان میں سینئر سماج وادی پارٹی(ایس پی) لیڈر اعظم خان رامپور صدر سے، یوگی کابینہ کے سابق وزیر اور اب ایس پی امیدوار دھرم پال سنگھ سینی ضلع سہارنپور کی نکور سے اور امروہہ سے محبوب علی قابل ذکر ہیں۔

مسلم اکثریتی علاقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف پارٹیوں نے 75سے زیادہ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ان میں بی ایس پی کے سب سے زیادہ 25، ایس پی۔ آر ایل ڈی اتحاد کے 18، کانگریس نے 23مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ وہیں ایم آئی ایم کے 15مسلم چہروں نے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Election 2022: جاٹ اکثریتی حلقوں میں اسمبلی انتخابات کا پہلا مرحلہ کتنا اہم؟

تقریبا ایک مہینے تک چلی انتخابی مہم میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں ایس پی۔ بی ایس پی ، آر ایل ڈی، اور کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والی 55 سیٹوں میں سے تقریبا 25 سیٹوں پر مسلم ووٹر اور 20 سے زیادہ سیٹوں پر دلت ووٹر ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اس علاقے میں سال 2017 کے مودی لہر نے دلت۔ مسلم صف بندی کی وجہ سے ماضی میں بی جے پی کے کمزور ہونے کے طلسم کو توڑتے ہوئے 55 میں سے 38سیٹوں پر جیت درج کی تھی، جبکہ ایس پی کو 15 اور اس کی اتحادی پارٹی کانگریس کو دو سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت ایس پی کے 15میں سے 10اور کانگریس کے دو میں سے ایک مسلم ایم ایل اے جیتے تھے۔

ماہرین کی رائے میں دلت ووٹوں میں تقسیم کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ سابقہ الیکشن میں بی ایس پی کا اس علاقے میں کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔

اس الیکشن میں کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کی مشکلیں بڑھا سکتی ہے۔ وہیں مخالف خیمے میں ایس پی اس علاقے میں اپنے احتجاج کو اک دم شباب پر لے جانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس سے پہلے سال 2012 میں جب ایس پی نے حکومت بنائی تھی اس وقت بھی ایس پی کو اس علاقے کی 55 سیٹوں میں سے 27سیٹوں میں جیت ملی تھی جبکہ بی جے پی کے کھاتے میں 8 سیٹیں آئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: کرہل سیٹ پر دلچسپ مقابلہ، اکھلیش کے لیے کرہل سیٹ فتح کرنا آسان نہیں ہوگا

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والے 9 اضلاع میں سے سات اضلاع رامپور، سنبھل، مرادآباد، سہارنپور، امروہہ، بجنور اور نگینہ میں دلت مسلم ووٹر ہی امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ایس پی۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اتحاد کیا تھا اور ان سات اضلاع کی سبھی سات لوک سبھا سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ ان میں ایس پی کے رامپور مرادآباد اور سنبھل جبکہ بی ایس پی کو سہارنپور، نگینہ، بجنور اور امروہہ سیٹوں میں جیت ملی تھی۔

واضح رہے کہ اس الیکشن میں ذات پات کی صف بندی کی بنیاد پر بی جے پی کے لیے سابقہ الیکشن کی طرز پر مذہب کی بنیاد پر اور سیکورٹی کے مسئلے پر ووٹوں کی تقسیم کرانا پڑا چیلنج ہے۔

سبھی پارٹیوں کے امیدواروں کہ فہرست سے صاف ہوگیا ہے کہ اس علاقے میں الیکشن کا دارومدار دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن پر منحصر ہے۔

انتخابی ایجنڈوں کی اگر بات کی جائے تو کسان تحریک کا گڑھ رہے مغربی اترپردیش میں کسانوں کی پریشانیاں سب سے بڑا ایجنڈا ہیں۔

ماہرین کی رائے میں مودی حکومت بھلے ہی تینوں زرعی قوانین واپس لے کر سب سے لمبے کسان تحریک کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو لیکن کسانوں کاغصہ اب بھی بی جے پی کے لیے اس الیکشن کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

کسانوں کے اشتعال کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ترقیاتی کاموں کا اس علاقے میں جم کر انتخابی مہم چلائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: اکھلیش نے کرہل سے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

بی جے پی نے شاہ کو مغربی اترپردیش میں پارٹی کا انتخابی انچارج بنایا ہے۔ یہ الیکشن شاہ کے انتخابی انتظامات کو بھی کسوٹی پر پرکھے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سال 2012 میں جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئی تھی اس وقت ایس پی نے 55میں سے 27 سیٹوں پر جیت درج کی تھی جب کہ بی جے پی کے کھاتے میں محض 8سیٹیں آئی تھیں۔

ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اکھلیش کے انتخابی نتائج کی لگاتار ناکامیوں پر اس الیکشن میں بریک لگتا ہے یا نہیں۔ وہ آر ایل ڈی کے جینت چودھری کے ساتھ پورے مغربی اترپردیش میں لگاتار انتخابی مہم کر کے کسانوں کے پریشانیوں کو اہم ایجنڈا بنا رہے ہیں۔ جس سے کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کا وجئے رتھ روک سکے۔

علاوہ ازین یہ الیکشن جینت چودھری کے لیے بھی سخت امتحان ہے۔ یہ انتخاب یہ طے کرے گا کہ وہ جاٹ لینڈ کے چودھری ہیں یا نہیں۔

بی ایس پی کی بھی کوشش ہے کہ مغربی اترپردیش میں ایس پی آرایل ڈی اتحاد اور بی جے پی کی لڑائی کو سہ رخی بنا دیا جائے۔ اس علاقے کی دلت اکثریتی دو درجن سیٹوں پر اپنے امیدوار جتانے کی بی ایس پی کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔

سابقہ امتحانات میں اس علاقے سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ کرپانے والی بی ایس پی کے لیے یہ الیکشن اپنے وجود کو ثابت کرنے والا ہوگیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.