ETV Bharat / opinion

مخصوص بیماریوں سے نمٹنے سے متعلق حکومت کی پالیسی - راشٹریہ ارویا نندی

عدالت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ کئی ہائیکورٹس نے مخصوص (نایاب) بیماریوں کی تشخیص اور اُن کے علاج سے متعلق اپنے جذبات سے پُر تاثرات دیئے ہیں۔ عدالت نے ان بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج و معالجے کے حوالے سے حکومت کو مداخلت کرنے پر زور دیا ہے۔

Policy to deal with rare diseases
مخصوص بیماریوں سے نمٹنے سے متعلق حکومت کی پالیسی
author img

By

Published : Apr 9, 2021, 10:34 AM IST

کافی تاخیر کے بعد بالآخر مرکزی حکومت ان مخصوص بیماریوں سے متعلق قومی پالیسی لیکر آئی ہے۔ ایک ایسی بیماری جو پانچ ہزار کی آبادی میں سے ایک یا دو افراد کو لاحق ہوسکتی ہے، کو مخصوص (نایاب) بیماریوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان بیماریوں سے متعلق دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف تشریح کی جاتی ہے۔ بھارت میں ماہرین کے مطابق سات ہزار سے آٹھ ہزار تک کی مخصوص بیماریاں پائی جاتی ہیں اور ملک میں سات کروڑ لوگ اس کا شکار ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زائد بیماریوں کا سبب جینیاتی خرابیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے پانچ فیصد سے بھی کم بیماریوں کا قابل ذکر علاج میسر ہے۔

ان بیماریوں کے لیے ادویات میسر نہیں ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو سالہا سال تک ان سے جوجھنا پڑتا ہے۔ جو ادویات میسر ہیں، وہ اتنی مہنگی ہیں، کہ عام آدمی اسے حاصل نہیں کر پاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک نیشنل پالیسی کے ذریعے مناسب اقدامات کرنے کا منصوبہ سنہ 2017 میں بنایا گیا تھا لیکن اب کافی تاخیر کے بعد حکومت عملی طور پر ایک پالیسی لیکر سامنے آئی ہے۔

مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھان نے کہا ہے کہ نیشنل پالیسی فار ریر ڈیزیزز سنہ 2021 منظور کی گئی ہے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر ریسرچ پر توجہ مبذول کرتے ہوئے اور ملک میں ہی ادویات تیار کرتے ہوئے ان بیماریوں کا علاج و معالجہ سستا کیا جائے گا۔

وزارت صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'مالی معاونت صرف بی پی ایل (خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والوں) کو ہی نہیں بلکہ ملک کی چالیس فیصد آبادی جو پردھان منتری جن اروگیا یوجنا کے دائرے میں آتے ہیں، تک وسیع کی جائے گی'۔

کرناٹک کو چھوڑ کر بھارت میں کہیں بھی مخصوص بیماریوں کے شکار شہریوں کے لیے کوئی اسکیم موجود نہیں ہے۔ تاہم نئی مرکزی پالیسی میں یہ بات یقینی بنائی گئی ہے کہ راشٹریہ ارویا نندی کے تحت متاثرہ مریض کو بیس لاکھ روپے تک کی مالی معاونت دی جائے گی۔ لیکن اس ضمن میں مزید کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے۔ دُنیا کی عمومی میڈیسین مارکیٹ میں بھارت کا 20 فیصد حصہ ہے۔ چونکہ ویکسین مارکیٹ میں بھی بھارت کا 62 فیصد شیئر ہے، اسی لیے اسے دُنیا کی فارمیسی پکارا جاتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کے باوجود مخصوص بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات تیار کرنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں یہ ادویات تیار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اگرچہ فارما انڈسٹری ریسرچ کے لیے اپنے وسائل اور کوششیں بروئے کار لانے سے نہیں ہچکچارہی ہیں، لیکن عام بیماریوں کی ادویات کے مقابلے میں مخصوص بیماریوں کے لیے کام آنے والی ادویات کا استعمال کم ہورہا ہے، اس لئے فارما کمپنیاں اس ضمن میں زیادہ توجہ نہیں دی رہی ہیں اور نتیجے کے طور پر بھارت کو یہ ادویات امپورٹ کرنی پڑتی ہیں۔

اس لیے مقامی سطح پر ریسرچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہمیں بیرونی ممالک پر انحصار کرنے سے خود کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ذرائع نے ایک وقت کے علاج کے لیے بیس لاکھ روپے کی مالی معاونت مقرر کرنے کا فیصلہ لیتے وقت پوری طرح سے حقائق کو مدنظر نہیں رکھا ہے۔ اگر دس کلو گرام وزن کا ایک بچہ اس طرح کی کسی مخصوص بیماری کا شکار ہو تو اس کے علاج پر سالانہ ایک کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا۔ جوں جوں اس کی عمر اور اس کا وزن بڑھے گا تو اس کے علاج کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔ کیا ایک عام کنبہ اس طرح کے اخراجات برداشت کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟

اس کے علاوہ نیشنل پالیسی میں اُن مریضوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے، جنہیں تاحیات علاج و معالجے کی ضرورت ہے۔حکومت نے کارپوریٹ اداروں اور افراد سے مالی معاونت حاصل کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اسے چاہیے کہ وہ مدد کے طلبگار لوگوں کی مدد کرنے کے لیے خود بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرے۔

اعداد و شمار کے مطابق جتنی آبادی مجموعی طور پر امریکہ میں ہے، اتنے ہی لوگ دُنیا بھر میں مخصوص بیماریوں سے متاثر ہیں۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، بلغاریہ، ارجنٹینا جیسے ممالک نے پہلے ہی مخصوص بیماریوں سے نمٹنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ بھارت کو بھی ان ممالک سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک مکمل ایکشن پلان لیکر آگے بڑھنا چاہیے۔

کافی تاخیر کے بعد بالآخر مرکزی حکومت ان مخصوص بیماریوں سے متعلق قومی پالیسی لیکر آئی ہے۔ ایک ایسی بیماری جو پانچ ہزار کی آبادی میں سے ایک یا دو افراد کو لاحق ہوسکتی ہے، کو مخصوص (نایاب) بیماریوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان بیماریوں سے متعلق دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف تشریح کی جاتی ہے۔ بھارت میں ماہرین کے مطابق سات ہزار سے آٹھ ہزار تک کی مخصوص بیماریاں پائی جاتی ہیں اور ملک میں سات کروڑ لوگ اس کا شکار ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زائد بیماریوں کا سبب جینیاتی خرابیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے پانچ فیصد سے بھی کم بیماریوں کا قابل ذکر علاج میسر ہے۔

ان بیماریوں کے لیے ادویات میسر نہیں ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو سالہا سال تک ان سے جوجھنا پڑتا ہے۔ جو ادویات میسر ہیں، وہ اتنی مہنگی ہیں، کہ عام آدمی اسے حاصل نہیں کر پاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک نیشنل پالیسی کے ذریعے مناسب اقدامات کرنے کا منصوبہ سنہ 2017 میں بنایا گیا تھا لیکن اب کافی تاخیر کے بعد حکومت عملی طور پر ایک پالیسی لیکر سامنے آئی ہے۔

مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھان نے کہا ہے کہ نیشنل پالیسی فار ریر ڈیزیزز سنہ 2021 منظور کی گئی ہے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر ریسرچ پر توجہ مبذول کرتے ہوئے اور ملک میں ہی ادویات تیار کرتے ہوئے ان بیماریوں کا علاج و معالجہ سستا کیا جائے گا۔

وزارت صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'مالی معاونت صرف بی پی ایل (خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والوں) کو ہی نہیں بلکہ ملک کی چالیس فیصد آبادی جو پردھان منتری جن اروگیا یوجنا کے دائرے میں آتے ہیں، تک وسیع کی جائے گی'۔

کرناٹک کو چھوڑ کر بھارت میں کہیں بھی مخصوص بیماریوں کے شکار شہریوں کے لیے کوئی اسکیم موجود نہیں ہے۔ تاہم نئی مرکزی پالیسی میں یہ بات یقینی بنائی گئی ہے کہ راشٹریہ ارویا نندی کے تحت متاثرہ مریض کو بیس لاکھ روپے تک کی مالی معاونت دی جائے گی۔ لیکن اس ضمن میں مزید کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے۔ دُنیا کی عمومی میڈیسین مارکیٹ میں بھارت کا 20 فیصد حصہ ہے۔ چونکہ ویکسین مارکیٹ میں بھی بھارت کا 62 فیصد شیئر ہے، اسی لیے اسے دُنیا کی فارمیسی پکارا جاتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کے باوجود مخصوص بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات تیار کرنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں یہ ادویات تیار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اگرچہ فارما انڈسٹری ریسرچ کے لیے اپنے وسائل اور کوششیں بروئے کار لانے سے نہیں ہچکچارہی ہیں، لیکن عام بیماریوں کی ادویات کے مقابلے میں مخصوص بیماریوں کے لیے کام آنے والی ادویات کا استعمال کم ہورہا ہے، اس لئے فارما کمپنیاں اس ضمن میں زیادہ توجہ نہیں دی رہی ہیں اور نتیجے کے طور پر بھارت کو یہ ادویات امپورٹ کرنی پڑتی ہیں۔

اس لیے مقامی سطح پر ریسرچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہمیں بیرونی ممالک پر انحصار کرنے سے خود کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ذرائع نے ایک وقت کے علاج کے لیے بیس لاکھ روپے کی مالی معاونت مقرر کرنے کا فیصلہ لیتے وقت پوری طرح سے حقائق کو مدنظر نہیں رکھا ہے۔ اگر دس کلو گرام وزن کا ایک بچہ اس طرح کی کسی مخصوص بیماری کا شکار ہو تو اس کے علاج پر سالانہ ایک کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا۔ جوں جوں اس کی عمر اور اس کا وزن بڑھے گا تو اس کے علاج کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔ کیا ایک عام کنبہ اس طرح کے اخراجات برداشت کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟

اس کے علاوہ نیشنل پالیسی میں اُن مریضوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے، جنہیں تاحیات علاج و معالجے کی ضرورت ہے۔حکومت نے کارپوریٹ اداروں اور افراد سے مالی معاونت حاصل کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اسے چاہیے کہ وہ مدد کے طلبگار لوگوں کی مدد کرنے کے لیے خود بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرے۔

اعداد و شمار کے مطابق جتنی آبادی مجموعی طور پر امریکہ میں ہے، اتنے ہی لوگ دُنیا بھر میں مخصوص بیماریوں سے متاثر ہیں۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، بلغاریہ، ارجنٹینا جیسے ممالک نے پہلے ہی مخصوص بیماریوں سے نمٹنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ بھارت کو بھی ان ممالک سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک مکمل ایکشن پلان لیکر آگے بڑھنا چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.