کانگریس پارٹی میں ایسے کئی سرکردہ رہنما موجود ہیں جنہیں پارٹی کے ممکنہ سربراہوں کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے۔ ان میں اشوک گہلوت، مالک ارجن کھڑگے، غلام نبی آزاد، مُکل واسنک اور یہاں تک کہ سُشیل کمار شِندے جیسے لوگ شامل ہیں، لیکن پارٹی سربراہی کے لئے اُن کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔
گاندھی خاندان سے باہر کے کسی فرد کو کانگریس پارٹی کا سربراہ بنانے کا تجربہ کرنا کیوں مشکل ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔اگر اتفاق سے کبھی ایسا ہوا بھی، تب بھی اس کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
حالانکہ گاندھی خاندان سے باہر کے کسی فرد کو کانگریس کا سربراہ بنانے کا آئیڈیا کوئی نیا نہیں ہے۔ 1998ء میں سونیا گاندھی کی جانب سے کانگریس کی سربراہی کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو اور اُنکے جانشین سیتارام کیسری اس عہدے پر براجمان رہ چکے ہیں۔
گانگریس کو 2019ء میں ہوئی انتخابی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جب گزشتہ سال راہل گاندھی نے پارٹی صدارت سے اپنا استعفیٰ دیا، تو اُس وقت بھی گہلوت، شندے، واسنک اور کھڑگے کے نام کانگریس کی سربراہی کےلئے سامنے آگئے تھے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق ان سرکردہ رہنماؤں کے نام کو کانگریس کی عبوری صدارت کےلئے منظور کیا گیا تھا اور یہ طے پایا گیا تھا کہ ان میں سے کسی کو تب تک کےلئے پارٹی کا عبوری صدر بنایا جائے، جب تک راہل گاندھی اپنا استعفیٰ واپس لینے کا فیصلہ کریں گے۔
اگرچہ ان سب سرکردہ رہنماؤں کی پارٹی میں اپنی اپنی جگہ پر ایک خاص اہمیت ہے اور پارٹی لیڈران اور روکرز کی نظر میں ان کا مان سمان بھی ہے لیکن اس کے باوجود ان میں سے کسی کے بھی نام پر ملک گیر سطح پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ پارٹی کے منتظمیں نے جب ان سرکردہ رہنماؤں میں سے کسی کو عبوری یا دائمی طور پر پارٹی سربراہی سونپنے کے معاملے پر مختلف ریاستوں کے یونٹس سے اُن کی رائے طلب کی، تو جواب میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ نتیجے کے طور پر پارٹی منتظمین اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کرپائے۔ دوسری جانب راہل گاندھی مسلسل اصرار کررہے تھے کہ پارٹی کی سربراہی گاندھی خاندان سے باہر کے کسی لیڈر کو سونپ دی جائے۔
انجام کار فیصلہ اتفاق سے یا پھر منصوبے کے مطابق، یہ ہوا کہ سونیا گاندھی کو ہی پارٹی کا عبوری صدر کے بطور برقرار رکھا جائے۔ سونیا گاندھی جنہوں نے 19سال تک کانگریس کی سربراہی کی ہے، نے یہ بات اس شرط کے تحت قبول کرلی کہ آنے والے ایک سال کے اندر اندر پارٹی کے لئے ایک فل ٹائم صدر مقرر کیا جانا چاہیے۔ اگلے بارہ ماہ تک یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا پارٹی ایک کل وقتی صدر کو مقرر کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں۔ تاہم اس دوران کانگریس کے حلقوں میں یہ افواہ گرم رہی کہ راہل گاندھی پارٹی صدارت دوبارہ سنبھالیں گے۔
چونکہ راہل گاندھی اپنی ماں کی جگہ پارٹی کی صدارت نہ سنبھالنے پر اڑے رہے، اسلئے پارٹی کے اندر سونیا گاندھی کے حق میں، یعنی اُن کو ہی بدستور پارٹی کا عبوری صدر بنائے رکھنے کی آوازیں سامنے آنے لگیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پارٹی کے لیڈران بے بسی کے ساتھ اس بات کا مشاہدہ کرتے رہے کہ کانگریس پارٹی کی جانب سے بی جے پی کے منصوبوں کا کوئی توڑ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے۔ پہلے بی جے پی نے کانگریس کے نوجوان لیڈر جیوترادتیہ سندھیا کو قابو کرلیا اور اسکے بعد کانگریس کے اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لیتے ہوئے مارچ 2020ء میں مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کی حکومت گرادی۔
اس کے بعد کانگریس منتظمین کو اس بات کے بھی اشارے مل گئے تھے کہ مدھیہ پردیش کی طرح راجستھان میں بھی کانگریس سرکار کو گرایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ جوالائی میں اشوک گہلوت کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔
ان دو واقعات نے دکھا دیا کہ کانگریس ایک کمزور اپوزیشن پارٹی ہی نہیں بلکہ ایک ایسی تنظیم بھی ہے جو اندر سے بے استقلالی کا شکار بھی ہے۔ پارٹی کی اس تنزلی کو دیکھ کر ہی شاید کانگریس کے 23 سرکردہ لیڈران مضطرب ہوئے۔ انہوں نے سونیا گاندھی کے نام ایک مشترکہ خط لکھا، جس میں پارٹی کے لئے ایک فل ٹائم صدر مقرر کرنے اور از سر نو تنظیم سازی کرنے کی صلاح دی گئی ۔
لیکن 24 اگست کو ہوئی کانگریس ورکنگ کمیٹی میٹنگ میں مخالفین کی اُمیدیں دم توڑ گئیں۔ کیونکہ اس اجلاس میں یہ بات دہرائی گئی کہ کانگریس پارٹی گاندھی خاندان کے کنٹرول میں ہی رہے گی۔ اس صورتحال کے تناظر میں کانگریس میں گاندھی خاندان سے باہر کے کسی لیڈر کو پارٹی صدر بنانے کی بحث تب تک کےلئے بے معنی ہوکر رہ گئی، جب تک باغی لیڈران پارٹی کے اندر دو حصوں میں بٹ جانے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ استدلال کہ گاندھی خاندان سے باہر کے کسی لیڈر کو پارٹی کا سربراہ بنائے جانے کے بعد اُسے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جائے، بظاہر ایک صحیح بات لگ رہی ہے۔ لیکن اسے عملانا مشکل ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پارٹی کے سینئر لیڈران کسی ایسے واحد نام پر متفق نہیں ہوپائے، جسے اس قدیم سیاسی تنظیم کو چلانے کا موقع دیا جاسکتا تھا۔ ان سینئر لیڈروں کے پاس ماضی میں کسی فرد واحد کو صدارتی عہدے کےلئے نامزد کرنے کا موقع تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں پارٹی کو متحد رکھنا، غلام نبی آزاد، کھڑگے ، شندے یا سبل یا واسنک جیسے لیڈروں کےلئے آسان نہیں۔
اس کے برعکس گاندھی خاندان اپنی خامیوں کے باوجود کانگریس میں اس حد تک اتحاد قائم کرنے میں مدد بھی نہیں کر پار ہی تاکہ کم از کم پارٹی وزیر اعظم مودی کی سربراہی والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جارحیت کا ہی متحد ہوکر سامنا کرسکے۔
ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دہائیوں تک کانگریس کا انتظامی ڈھانچہ کچھ اس طریقے کی مرتب کیا گیا ہے، کہ اگر پارٹی کی قیادت گاندھی خاندان سے باہر کے کسی فرد کے ہاتھوں میں دی بھی جائے تو وہ اس خاندان کی پشت پناہی کے بغیر موثر طریقے سے کام نہیں کرپائے گا۔ چونکہ گاندھی خاندان پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں پر اپنا اثر و رسوخ بنائے رکھے گی اور غیر گاندھی پارٹی سربراہ کے ہوتے ہوئے بھی پارٹی میں دو پاور سینٹرز قائم ہوجائیں گے۔
یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ عام طور سے وزیر اعظم مودی کانگریس پارٹی یا اس کے کسی لیڈر کو ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے گاندھی خاندان کو نشانہ بناتے ہیں۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ گاندھی خاندان کو ساری عمر کانگریس کی قیادت کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ بلکہ اس خاندان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پارٹی میں کچھ ایسی اہم اور موثر تبدیلیاں لائے تاکہ یہ عظیم پارٹی مشکلات کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہوجائے۔
جتنا جلد صورتحال کو ٹھیک کیا جائے اتنا بہتر ہے۔ تاخیر کرنے کے نتیجے میں پارٹی کے اندر اُن باغیوں کی تعداد بڑھ جائے گی، جو ابھی تو خاموش ہوگئے ہیں لیکن مستقبل میں پھر سے متحرک ہوکر پارٹی کے اندر قیادت کے بحران کا مسئلہ اُبھار سکتے ہیں۔
گاندھی خاندان کی جانب سے پہلا عندیہ یہ دیا گیا کہ اس نے آزاد ( جو اُن 23 سرکردہ پارٹی لیڈروں میں شامل ہیں، جنہوں نے مخالفانہ خط پر اپنے دستخط ثبت کئے ہیں)، سے رابطہ کیا گیا اور اُنہیں یقین دلایا گیا ہے کہ خط میں ظاہر کئے گئے خدشات کے تدارک کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں گے۔ لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
: