جاپانی شہر ہیروشیما پر پہلا جوہری ہتھیار گرانے کی 75 ویں سالگرہ امسال جمعرات6 اگست کو منائی جائے گی اور یہ بات کافی حد تک اطمینان کی بات ہے کہ اگست1945 میں ہیروشیماو ناگاساکی کے بعد جوہری ہتھیاروں کا مزید کوئی استعمال نہیں ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس جوہری تباہی سے زائد از ایک لاکھ20ہزار بے گناہ جاپانی شہری مارے گئے اور بہت سے لوگ ہمیشہ کیلئے جسمانی طور پر معذور ہو گئے۔ مشروم نما بادل سے خارج ہونے والی ریڈیو ایکٹو شعاعوں سے یہ ایک المناک صداقت بن گئی کہ زندہ لوگوں نے مردہ لوگوں سے حسد کیا۔
سنہ 1945کے بعد سے75سال گزر چکے ہیں اور اس وقت کی دو بڑی طاقتیں امریکہ اور یو ایس ایس آر کی سربراہی میں کچھ اہم ترین حکمت عملی کو اپنایا گیا اور خوش قسمتی سے دنیا نے ناگاساکی جیسا دوسرا جوہری جنگ نہیں دیکھا۔حالانکہ سنہ 1962 میں کیوبا میں پھر سے میزائل بحران جیسی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔9 اگست 1945 کو ناگاساکی پر جوہری بم گرانے کے بعد سے دنیا نے کبھی ایسے خوفناک 'نیوک' جوہری بم کا استعمال نہیں کیا
تاہم ، موجودہ عالمی جوہری منظرنامے کے پیش نظر ،اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ دنیا ہیروشیما کی 80 ویں سالگرہ تک اس ریکارڈ کو بلاامتیاز قائم رکھ پائیگی۔حال ہی میں 3 اگست کو اقوام متحدہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل(یو این ایس سی) کو ایک خفیہ رپورٹ پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا (جس کوجوہری منحرف سمجھا جاتا ہے) نے’’ممکنہ طور پر چھوٹے چھوٹے ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں، تاکہ انہیں بیلسٹک میزائلوں کے وار ہیڈز میں نصب کیا جاسکے۔
بلاشبہ اس رپورٹ کی حقیقت کی جانچ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعہ کی جائے گی، جس کا بھارت اب ایک غیر مستقل رکن بننے والا ہے،تاہم پیونگ یانگ نے انتہائی شورش زدہ خطے میں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں صرف ایک جامع برفانی تودے کی ایک نوک ہے۔ . دنیا کی سب سے طاقتور اور سیاسی طور پر نمایاں ممالک ( اقوام متحدہ کے سلماتی کونسل کے 5مستقل ارکان) اور سب سے زیادہ خوشحال (جی 20) ممالک اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اب بھی جوہری ہتھیار پر ہی بھروسہ کرتے ہیں اور یہ باہمی یقین دہانی سے ہونے والی تباہی ہے۔
علمی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار(ڈبلیو ایم ڈی) سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کو کم کرکے ہی قومی سلامتی کی یقین دہانی کرائی جاسکتی ہے، اور اس تناظر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کیے جانے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ ہیتھار کو بہتر سمجھا جاتا ہے، بھلے ہی کم ہتھار سے ایک ملک کو اتنی ہی تحفظ کیوں نہیں ملتی ہو۔ جوہری میدان میں موجودہ بڑی طاقتوں میں بھی زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں کی جستجو کی دوڑ لگ چکی ہے۔یہ دوڑ اس حد تک ہے کہ شمالی کوریا اور اس کے روایتی جوہری صلاحیتوں سے لیس ممالک (امریکہ ، روس اور چین) کے مابین عدم تحفظ غیر حوصلہ کن مگر نا قابل تلافی ہے۔
سرد جنگ کے عروج پر دونوں عالمی طاقتوں کے پاس 55ہزار سے زیادہ جوہری وار ہیڈس تھے،جن میں اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل کے علاوہ سوٹ کیس بھی شامل ہیں۔ دسمبر 1991 میں یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے ظہور کے بعد ، جوہری ہتھیاروں میں ایک بڑی کمی پیدا ہوئی۔ جوہری ہتھیاروں کی طاقت پہلے پانچ ملکوں تک ہی محدود تھیں ،جن میں امریکہ ، روس (جو سوویت یونین سے ورثے میں ملا) ، برطانیہ ، فرانس اور چین ہیں۔ بھارت نے سنہ 1974 میں ایٹمی تجربہ کیا تھا تاہم اس کی صلاحیت میں بہتری نہیں کی اور اسے ’معطل‘ کی حیثیت حاصل تھی۔
نیوکلیئر استحکام کو غیر یقینی طور پر این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ) نے 1970 میں باقاعدہ طور پر برقرار رکھا ۔ امریکہ اور یو ایس ایس آر کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس میں عالمی جوہری کلب کو محدود اور خصوصی رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب اس کی تشکیل کی گئی تو ، این پی ٹی کا بنیادی مقصد شکست خوردہ محور کی طاقتوں (جرمنی ، جاپان اور اٹلی) کو اس صلاحیت کے حصول سے روکنا تھا۔ حکمنامہ میں یہ کہا گیا تھا کہ پانچوں ملکوں کو اپنی سلامتی کے لئے جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور وہ ان لوگوں کے پاسبان بنے گے جنہیں اس کی ضرورت ہے لیکن اگر دنیا کی تمام اقوام جوہری ہتھیاروں کے حصول کے اپنے حق سے دستبردار ہوجائے تو یہ ایک محفوظ جگہ بنے گی۔
واضح طور پر یہ ایک ناقابل برداشت تھا اور سرد جنگ کے بعد ، بھارت ، پاکستان اور شمالی کوریا اپنے’’ ڈبلیو ایم ڈی‘‘ پروفائل کی ساکھ کو قائم کرنے کے لئے ایٹمی تجربات کرکے ایٹمی ہتھیاروں کے طاقتوں کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اسرائیل کو ایک مبہم حیثیت حاصل ہوگئی اور عراق ، ایران اور لیبیا جیسی قوموں کو مختلف طرح سے جوہری ہتھیاروں کے راستے پر جانے سے روکا گیا۔ مختصرا ، عالمی جوہری کلب میں قومی خودمختاری کے دفاع کے حق کے یکطرفہ دعوے کے ذریعہ توسیع کی گئی تھی اور نیوک کا قبضہ ناقابل شناخت سیکورٹی کی مترادف بن گیا تھا۔
پریشان کن امر یہ ہے کہ ، جوہری ہتھیار کا بنیادی مشن، دوسروں کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنا تھا، گذشتہ دو دہائیوں سے تاہم اس کا مرکز کچھ تبدیل ہوا بالخصوص سال2001میں امریکہ میں 9/11 اور سال2008میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں ’’این ڈبلو ای ٹی یہ ایک پیچیدہ چیلنج بن گیا ہے اور کچھ ملکوں کی پشت پناہی کی شمولیت اس سلسلے میں مزید پریشان کرتی ہے۔ مزید یہ کہ تکنیکی ترقیوں نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جہاں اب لوگ بغیر حکومت کے اجازت کے بممکنہ طور جوہری مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور وہ معاشرتی استحکام کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
ہیروشیما میں ہوئے جوہری حملے کے 75 برس بعد بھی دنیا ابھی بھی وہی ہیں۔دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے مابین اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ سیاسی اور سلامتی سے متعلقہ اختلاف رائے باوجود جوہری طاقت کے استعمال کو ممنوع بنایا جائے گا۔افسوس کی بات ہے کہ سال 2020 میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ جہاں ایک طرف امریکہ اور روس کے مابین موجودہ تناؤ واضح طور پر نظر آرہے ہیں، وہیں دوسری طرف چین اور امریکہ کے مابین بھی صورتحال کشیدہ ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت ساری طاقتیں یہ مانتی ہیں کہ جوہری ہتھیار ایک آپشن ہے اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کرنے کے لیے پالیسیوں کو اپنایا جائے گا۔شمالی کوریا ہی صرف واحد ملک نہیں ہے، جو عدم تحفظ کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرنے کی بات کہہ رہا ہے۔یقینی طور پر دنیا پر جوہری طاقتوں کے سیادہ بادل منڈراتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ہیروشیما کے اسباق کے سلسلے میں عالمی قیادت غیر سنجیدگی اور غفلت شعاری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔