بانڈی پورہ: معروف ولر جھیل اپنی خوبصورتی کے لیے دنیا بھر میں معروف ہے، ہر سال نہ صرف لاکھوں سیاح اس جھیل کی سیر کرتے ہیں بلکہ سینکڑوں کنبوں خاص کر ماہی گیروں کا روزگار بھی اس جھیل کے ساتھ وابستہ ہے۔ صدیوں سے ماہی گیر ولر چھیل سے مچھلی پکڑ اور سنگھاڑے نکال کر فروخت کرتے آ رہے ہیں اور اسی سے اپنے اور اہل و عیال کے لیے نان شبینہ کا انتظام کرتے آ رہے ہیں تاہم گزشتہ کئی برسوں سے ان ماہی گیروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
غیر قانونی طریقے سے ولر جھیل میں مچھلیوں کو پکڑنے کا رجحان تیزی سے بڑھنے لگا ہے جس سے جھیل میں مچھلیوں کی تعداد میں کافی گرواٹ درج کی گئی ہے اور اس کا براہ راست اثر ماہی گیروں پر پڑا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، بارش اور برفباری نہ ہونے سے ولر جھیل میں پانی کی سطح کافی کم ہو چکی ہے جس سے مچھلیاں بھی نایاب ہونے لگی ہیں جبکہ سنگاڑے بھی تقریباً ناپید ہو گئے ہیں، جو ماہی گیروں کے لئے پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔
مقامی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ سنگھاڑے نکالنے کا سیزن ولر جھیل میں دسمبر سے مارچ تک ہی ہوتا ہے تاہم امسال ولر جھیل میں پانی کی سطح کم ہونے سے یہ فصل کافی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ وہ صدیوں سے اسی کام کے ساتھ منسلک ہے اور اسی سے ان کے گھر میں چولہا جلتا ہے تاہم رواں برس وہ کافی پریشان ہیں۔
صدیوں سے ماہی گیر، مچھلیوں اور سنگاڑوں کے ذریعے اپنے اور اہل و عیال کے لئے نان شبینہ کا انتظام کرتے آ رہے ہیں تاہم گزشہ برسوں سے بڑھ رہی مشکلات کے سبب ان کی روزی روٹی متاثر ہوئی ہے۔ ماہی گیروں نے حکومت سے اس ضمن میں ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: وولر جھیل میں ہزاروں مہمان پرندوں کی آمد
ایک مقامی ماہی گیر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انکی عمر 42 برس ہے اور پہلی بار انہوں نے اپنی زندگی میں جھیل ولر میں پانی کی سطح میں اتنی گراوٹ دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی کوالٹی میں بھی کافی بدلاؤ آگیا ہے جس سے مچھلیوں کی تعداد بھی متاثر ہوئی ہے اور سنگھاڑوں کو معیار بھی گر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کافی مشقت کے باوجود روزانہ چار سو روپے سے زیادہ کی کمائی نہیں کرپارہے ہیں۔ ایک اور ماہی گیر نے کہا کہ انکے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے ۔ اگر چہ قلیل آمدن سے گھر کا چولہا جلتا ہے لیکن وہ بچوں کی پڑھائی یا رقومات جمع کرنے کا سوچ بھی نہیں پاتے ہیں۔