ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں ہندو سماج پارٹی کے قومی صدر کا قتل ان کے دفتر میں کر دیا گیا۔
دو لوگوں نے اس واردات کو انجام دیا۔ لکھنؤ میں واقع ان کے دفتر خورشید باغ کالونی میں گھس کر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ ان پر 13 راؤنڈ گولی چلائی گئی۔
اچانک ہوئے اس حملہ میں کملیش تیواری بُری طرح زخمی ہوگئے، انہیں فوراً لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل کالج کے ٹراما سینٹر میں داخل کیا گیا مگر ڈاکٹر نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔
مقامی افراد نے بتایا کہ 'زعفرانی لباس زیب تن کئے ہوئے نامعلوم افراد مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ ان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اندر داخل ہونے کے بعد حملہ آوروں نے مٹھائی کے ڈبے کو کھولا، اس میں موجود بندوق نکال کر ان پر کئی راؤنڈ فائرنگ کی۔'
اس خوفناک واردات کو انجام دینے کے بعد حملہ آور وہاں سے فرار ہو گئے۔
حملہ آوروں نے گولی مارنے سے قبل کملیش تیواری کی گردن پر کسی دھاردار ہتھیار سے وار بھی کیا تھا، جس کے نشان ان کے جسم پر دیکھے گئے۔
خیال رہے کہ کملیش تیواری نے جنوری 2017 میں ’ہندو سماج پارٹی‘ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی اور وہ اس کے قومی صدر تھے۔ جب کہ اس سے قبل معروف تنظیم 'ہندو مہاسبھا' کے کارگزار صدر بھی رہ چکے تھے۔
کملیش تیواری ہمیشہ سرخیوں میں رہنے والی شخصیت تھے، انہوں نے سنہ 2015 میں ایک پریس کانفرنس میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ بیان بھی دیا تھا، جس کے بعد ان کے خلاف ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ انہیں توہین آمیز بیان دینے کی وجہ سے گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 'کملیش تیواری نے اپنی ہلاکت سے بہت قبل انتظامیہ سے اپنی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا، تاہم انتظامیہ کی جانب سے انہیں حفاظتی عملہ نہیں فراہم کیا گیا۔'
کملیش تیواری کے انتقال سے لکھنؤ میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ پولیس انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی مممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن تیاری کرلی گئی ہے، تاکہ لکھنؤ میں امن و امان برقرار رہے اور لوگ حسب معمول اپنی زندگی گزارتے رہیں۔
ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ 'جلد ہی اس معاملے میں پولیس کی جانب سے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر سزا دی جائے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپسی رنجش کا معاملہ ہے کیوں کہ دو میں سے ایک شخص تیواری کا جاننے والا تھا۔'
چشم دید گواہ سوتنتر سنگھ کا کہنا ہے کہ 'انہیں کسی شناسا نے قتل کیا ہے کیوں کہ وہ دونوں ان کے دفتر میں پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے بات چیت بھی کی۔ اس کے بعد انہیں اپنے دفتر کی پہلی منزل پر بلایا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'ان دو میں سے ایک شخص نے مجھ کو سگریٹ لانے کے لیے کہا۔ میں سگریٹ لانے کے لیے چلا گیا۔ جب میں واپس آیا تو تیواری کا قتل ہو چکا تھا۔'
رواں ماہ میں یہ دائیں بازو کے رہنما کا چوتھا قتل ہے۔ اس سے قبل، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما چودھری یشپال سنگھ کو 8 اکتوبر کو دیوبند میں اسی طرح سے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ 10 اکتوبر کو ایک اور بی جے پی رہنما اور سابق طلبا رہنما کبیر تیواری کو بھی بستی میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا، جس کی وجہ سے طلبا گروپز نے توڑ پھوڑ اور سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔
سہارنپور کے دیوبند میں 13 اکتوبر کو بی جے پی کے کونسلر کو بھی نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔