ETV Bharat / jagte-raho

کیا این سی آر بی حکومت کے دباؤ میں ہے؟

سینیئر صحافی سنجے کپور نے جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ پر سوالیہ نشان لگایا ہے کہ کیا این سی آر بی بھی حکومت کی کٹھ پتلی بن گئی ہے؟

کیا این سی آر بی حکومت کی دباؤ میں!
کیا این سی آر بی حکومت کی دباؤ میں!
author img

By

Published : Jan 22, 2020, 7:36 PM IST

Updated : Feb 18, 2020, 12:46 AM IST

گزشتہ کئی برسوں سے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو یعنی این سی آر بی اپنی رپورٹ میں میڈیا کی ان سرخیوں کا تذکرہ کرتی تھی جن کا تعلق پرتشدد مجرمانہ سرگرمیوں سے ہوتا تھا، لیکن اب این سی آر بی کی رپورٹ میں یہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسر اقتدار جماعت کا نظریہ ہی اب یہ طے کرتا ہے کہ اس رپورٹ میں کیا شامل کیا جانا چاہیے اور کیا نہیں اور کس خاص نوعیت کے جرم کو اس رپورٹ میں کتنی اہمیت ملنی چاہیے۔

سنہ 2019 کی این سی آر بی کی رپورٹ میں سنہ 2018 میں رونماء ہوئے جرائم کی تفصیلات شامل ہیں، حالانکہ اس رپورٹ کو ملک میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کے خلاف ہوئے گاؤ کشی اور بیف تجارت کے نام پر ہوئے ہجومی تشدد کے واقعات کے تذکرے پر مشتمل ہونا چاہیے تھا۔

’واٹس اَپ‘ جیسے پیغام رسانی کے پلیٹ فارم نفرتوں کے پھیلائو اور ہجومی تشدد میں ہلاکتوں کا باعث بن رہے ہیں۔ این سی آر بی رپورٹ میں اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ گاؤ کشی پر پابندی کے نتیجے میں شمالی ہند کے دیہات میں کس طرح کا تناؤ اور تشدد برپا تھا۔
سڑکوں پر آوارہ گھومنے پھرنے والے چوپایوں، جنہیں پہلے مذبح خانوں میں بھیجا جاتا تھا، اور اب یہ کھیتوں اور گھروں میں گھس کر ادھم مچاتے رہتے ہیں۔ لیکن مذہبی رضاکاروں کے خوف اور قانونی سزا کے ڈر کی وجہ سے دیہاتی ان آوارہ جانوروں کو اپنے کھیت کو برباد کرتے ہوئے بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں۔
حالانکہ کھیتوں میں ان آوارہ جانوروں کی تباہی مچانے کے نتیجے میں دیہاتیوں کے آپس میں جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ دیہاتوں میں ہونے والے ان پر تشدد جھگڑوں کا ذکر اس رپورٹ کے اندر دیہی فساد کے زمرے میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن رپورٹ مرتب کرنے والوں نے اس معاملے کو شامل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا ہے۔
سنہ 2016 تک این سی آر بی نے رپورٹ میں ’زرعی شعبے سے متعلق فسادات‘کے نام سے ایک ذیلی زمرہ شامل ہوا کرتا تھا۔ اس میں سنہ 2014 میں 628 واقعات کا تذکرہ کیا گیا تھا اور اس میں 327 فیصد اضافے کے ساتھ سنہ 2015 میں 2683 معاملات کا اندراج ہواتھا۔ بعد میں دیہی علاقوں میں پرتشدد جرائم کے اس غیر معمولی اضافے سے متعلق مذکورہ زمرے کو این سی آر بی رپورٹ سے خارج ہی کیا گیا۔
حالانکہ اس طرح کے پر تشدد جرائم سنگین نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ان دیہی فسادات کی وجہ سے نہ صرف اراضیوں کے تنازعات میں اضافہ ہوگا بلکہ دیہی روزگار گارنٹی اسکیم بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں مذکورہ ذیلی زمرہ اور اسکے تحت درج ہونے والے واقعات کو حذف کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ واقعات قابل ذکر تعداد میں رونما نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ان کا تذکرہ کرنے کے لیے رپورٹ میں ایک الگ زمرہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

این سی آر بی رپورٹ میں دیہات میں تناؤ جیسے صورتحال اور کسانوں کی بدحالی سے متعلق ہورہے احتجاج کو بھی جگہ نہیں ملی ہے۔
حالانکہ زرعی شعبہ ایک حساس شعبہ ہے۔ حکومتوں کو یہ وضاحت دینے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ آخر کسان خود کشی کیوں کررہے ہیں۔ یہ معاملے سال 1991 کے اقتصادی اصلاحات اور زرعی لین دین کو نقدی میں کرنے کی چھوٹ دیئے جانے کے بعد مزید اہمیت کا حامل ہوگیا۔

قرضوں کے بوجھ تلے دبے کسان جو اچھی فصل کی اُمید میں دیہات میں بھاری سود پر قرض حاصل کرتے ہیں، انہیں اُس وقت خود کشی کرنی پڑتی ہے، جب کیڑے مکوڑے مارنے والی ادویات، بارش کی کمی اور غیر مناسب اری گیشن( سیچائی) نظام کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور انہیں متوقع نفع نہیں ملتا ہے۔
سنہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق کسانوں کی خود کشی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن بے روزگار نوجوانوں کی خود کشی کے معاملے میں سنہ 2017 کے مقابلے میں رواں برس 12 ہزار 936 واقعات کا اضافہ ہوا ہے۔
وہیں اس بار بے روزگاری کی شرح 42 برسوں میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے اور یہ بات ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آخر اس اہم بات کا تذکرہ اگلی این سی آر بی رپورٹ میں کیسے کیا جائے گا۔

اسی طرح حکومتیں اور سیاسی جماعتیں خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق اعداد و شمار ظاہر کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
سال 2018 میں بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی رہی ہے۔ ان جرائم میں 94 فیصد متاثرہ خواتین کے جان پہچان والے تھے۔

مذکورہ سال میں اس طرح کے جرائم سے متعلق 33 ہزار 356 واقعات درج ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ اعداد و شمار اصل میں رونما ہونے والے واقعات سے بہت کم ہیں کیونکہ اس طرح کے جرائم شرمناک ہونے کی وجہ سے متاثرین ان کا اندراج کرانے سے کتراتے ہیں۔
بعض متاثرین اس لئے بھی پولیس اسٹیشنوں کا رخ نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے پڑھا یا سنا ہوتا ہے کہ ملک میں کس طرح سے ان جرائم سے جڑے معاملات کو دبانے کا رواج ہے۔
دوسری جانب جنسی زیادتی کے معاملات کے بارے میں پولیس کا کچھ الگ ہی نظریہ ہے۔ یہاں تک کہ چند سال پہلے اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو اپنی پارٹی میں شامل چند لوگوں کے حق میں کھل کر سامنے آگئے جن پر جنسی زیادتی کا الزام تھا ۔ یہاں تک کہ ملزمین کا دفاع کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ’لڑکے تو لڑکے رہیں گے ۔‘
بھارت میں زمین داروں پر مشتمل سیاسی طبقہ سال 2012 کی ملک گیر ایجی ٹیشن کے باوجود نہیں بدلا ہے۔ اُنائو جنسی زیادتی کے معاملہ میں اس وجہ سے کارروائی ہوئی کیونکہ متاثرہ لڑکی انصاف کے حصول کے لئے ڈٹی رہی۔ اس معاملے میں ملوث سیاستداں اتر پردیش سے تعلق رکھتا تھا، جہاں خواتین کے خلاف جرائم ایک عام بات ہے۔
لکھنو، جسے تمدن کے لحاظ سے ایک اعلیٰ شہر مانا جاتا ہے، خواتین کے لئے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ جبکہ اترپردیش میں جنسی زیادتی کے متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
مدھیہ پردیش بدنامی کے معاملے میں سر فہرست ہے۔ یہاں متاثرین کی تعداد5 ہزار 433ہے۔ پٹنہ جہاں سیاسی استحکام بھی ہے اور مافیا کے نام سے قتل عام ہیں ، وہاں فی ایک لاکھ کی آبادی میں قتل کی شرح 4.4ہے۔
تاہم بہار پولیس کا دعویٰ ہے کہ ریاست جنسی زیادتی سمیت رونما ہونے والے تمام قسم کے جرائم کی تعدادمیں کمی واقع ہوئی ہے۔
جہاں تک نقلی کرنسی کا تعلق ہے، اس ضمن اگر این سی آر بی کے اعداد و شمار کوہی دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نریندری مودی کا نومبر 2016 میں کی گئی نوٹ بندی کا اقدام بھی ناکام ہوگیا ہے۔
بعض ریسرچرس کے مطابق نوٹ بندی کے بعد پُراسرار لین دین کے معاملات میں 480فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے 2016 میں نوٹ بندی کے بعد 2ہزارو روپے کے نوٹ جاری کرنے کی وجہ سے جعلی کرنسی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ان کی گردش میں کمی ہوئی ہے لیکن اب نقلی کرنسی میں56فیصد 2ہزار روپے کے نوٹوں پر مشتمل ہے۔
ان ساری ناکامیوں کے باوجود ’کرائم اِن انڈیا‘ رپورٹ میں اصرار کیا گیا ہے کہ سال 2016 کے بعد جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
سال 2016 میں یہ 35 فیصد کم ہوا ہے۔ سال 2018میں جرائم کی شرح میں 388فی صد کی کمی بتائی جارہی ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بتائے جارہے اعداد و شمار کا باریکی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جرائم کا اندارج کرنے کا طریقہ کار بدلا گیا ہے اور وہی مجرم کا جرم درج کیا جاتا ہے جو کئی طرح کے جرائم میں ملوث ہو۔یعنی اسکے باقی جرائم جو نسبتاً کم نوعیت کے ہوتے ہیں، کا اندراج نہیں کیا جاتا ہے۔
اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ میسر اعداد و شمار ظاہر کم کرتے ہیں اور چھپاتے زیادہ ہیں۔ اور انہیں اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو یعنی این سی آر بی اپنی رپورٹ میں میڈیا کی ان سرخیوں کا تذکرہ کرتی تھی جن کا تعلق پرتشدد مجرمانہ سرگرمیوں سے ہوتا تھا، لیکن اب این سی آر بی کی رپورٹ میں یہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسر اقتدار جماعت کا نظریہ ہی اب یہ طے کرتا ہے کہ اس رپورٹ میں کیا شامل کیا جانا چاہیے اور کیا نہیں اور کس خاص نوعیت کے جرم کو اس رپورٹ میں کتنی اہمیت ملنی چاہیے۔

سنہ 2019 کی این سی آر بی کی رپورٹ میں سنہ 2018 میں رونماء ہوئے جرائم کی تفصیلات شامل ہیں، حالانکہ اس رپورٹ کو ملک میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کے خلاف ہوئے گاؤ کشی اور بیف تجارت کے نام پر ہوئے ہجومی تشدد کے واقعات کے تذکرے پر مشتمل ہونا چاہیے تھا۔

’واٹس اَپ‘ جیسے پیغام رسانی کے پلیٹ فارم نفرتوں کے پھیلائو اور ہجومی تشدد میں ہلاکتوں کا باعث بن رہے ہیں۔ این سی آر بی رپورٹ میں اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ گاؤ کشی پر پابندی کے نتیجے میں شمالی ہند کے دیہات میں کس طرح کا تناؤ اور تشدد برپا تھا۔
سڑکوں پر آوارہ گھومنے پھرنے والے چوپایوں، جنہیں پہلے مذبح خانوں میں بھیجا جاتا تھا، اور اب یہ کھیتوں اور گھروں میں گھس کر ادھم مچاتے رہتے ہیں۔ لیکن مذہبی رضاکاروں کے خوف اور قانونی سزا کے ڈر کی وجہ سے دیہاتی ان آوارہ جانوروں کو اپنے کھیت کو برباد کرتے ہوئے بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں۔
حالانکہ کھیتوں میں ان آوارہ جانوروں کی تباہی مچانے کے نتیجے میں دیہاتیوں کے آپس میں جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ دیہاتوں میں ہونے والے ان پر تشدد جھگڑوں کا ذکر اس رپورٹ کے اندر دیہی فساد کے زمرے میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن رپورٹ مرتب کرنے والوں نے اس معاملے کو شامل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا ہے۔
سنہ 2016 تک این سی آر بی نے رپورٹ میں ’زرعی شعبے سے متعلق فسادات‘کے نام سے ایک ذیلی زمرہ شامل ہوا کرتا تھا۔ اس میں سنہ 2014 میں 628 واقعات کا تذکرہ کیا گیا تھا اور اس میں 327 فیصد اضافے کے ساتھ سنہ 2015 میں 2683 معاملات کا اندراج ہواتھا۔ بعد میں دیہی علاقوں میں پرتشدد جرائم کے اس غیر معمولی اضافے سے متعلق مذکورہ زمرے کو این سی آر بی رپورٹ سے خارج ہی کیا گیا۔
حالانکہ اس طرح کے پر تشدد جرائم سنگین نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ان دیہی فسادات کی وجہ سے نہ صرف اراضیوں کے تنازعات میں اضافہ ہوگا بلکہ دیہی روزگار گارنٹی اسکیم بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں مذکورہ ذیلی زمرہ اور اسکے تحت درج ہونے والے واقعات کو حذف کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ واقعات قابل ذکر تعداد میں رونما نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ان کا تذکرہ کرنے کے لیے رپورٹ میں ایک الگ زمرہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

این سی آر بی رپورٹ میں دیہات میں تناؤ جیسے صورتحال اور کسانوں کی بدحالی سے متعلق ہورہے احتجاج کو بھی جگہ نہیں ملی ہے۔
حالانکہ زرعی شعبہ ایک حساس شعبہ ہے۔ حکومتوں کو یہ وضاحت دینے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ آخر کسان خود کشی کیوں کررہے ہیں۔ یہ معاملے سال 1991 کے اقتصادی اصلاحات اور زرعی لین دین کو نقدی میں کرنے کی چھوٹ دیئے جانے کے بعد مزید اہمیت کا حامل ہوگیا۔

قرضوں کے بوجھ تلے دبے کسان جو اچھی فصل کی اُمید میں دیہات میں بھاری سود پر قرض حاصل کرتے ہیں، انہیں اُس وقت خود کشی کرنی پڑتی ہے، جب کیڑے مکوڑے مارنے والی ادویات، بارش کی کمی اور غیر مناسب اری گیشن( سیچائی) نظام کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور انہیں متوقع نفع نہیں ملتا ہے۔
سنہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق کسانوں کی خود کشی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن بے روزگار نوجوانوں کی خود کشی کے معاملے میں سنہ 2017 کے مقابلے میں رواں برس 12 ہزار 936 واقعات کا اضافہ ہوا ہے۔
وہیں اس بار بے روزگاری کی شرح 42 برسوں میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے اور یہ بات ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آخر اس اہم بات کا تذکرہ اگلی این سی آر بی رپورٹ میں کیسے کیا جائے گا۔

اسی طرح حکومتیں اور سیاسی جماعتیں خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق اعداد و شمار ظاہر کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
سال 2018 میں بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی رہی ہے۔ ان جرائم میں 94 فیصد متاثرہ خواتین کے جان پہچان والے تھے۔

مذکورہ سال میں اس طرح کے جرائم سے متعلق 33 ہزار 356 واقعات درج ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ اعداد و شمار اصل میں رونما ہونے والے واقعات سے بہت کم ہیں کیونکہ اس طرح کے جرائم شرمناک ہونے کی وجہ سے متاثرین ان کا اندراج کرانے سے کتراتے ہیں۔
بعض متاثرین اس لئے بھی پولیس اسٹیشنوں کا رخ نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے پڑھا یا سنا ہوتا ہے کہ ملک میں کس طرح سے ان جرائم سے جڑے معاملات کو دبانے کا رواج ہے۔
دوسری جانب جنسی زیادتی کے معاملات کے بارے میں پولیس کا کچھ الگ ہی نظریہ ہے۔ یہاں تک کہ چند سال پہلے اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو اپنی پارٹی میں شامل چند لوگوں کے حق میں کھل کر سامنے آگئے جن پر جنسی زیادتی کا الزام تھا ۔ یہاں تک کہ ملزمین کا دفاع کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ’لڑکے تو لڑکے رہیں گے ۔‘
بھارت میں زمین داروں پر مشتمل سیاسی طبقہ سال 2012 کی ملک گیر ایجی ٹیشن کے باوجود نہیں بدلا ہے۔ اُنائو جنسی زیادتی کے معاملہ میں اس وجہ سے کارروائی ہوئی کیونکہ متاثرہ لڑکی انصاف کے حصول کے لئے ڈٹی رہی۔ اس معاملے میں ملوث سیاستداں اتر پردیش سے تعلق رکھتا تھا، جہاں خواتین کے خلاف جرائم ایک عام بات ہے۔
لکھنو، جسے تمدن کے لحاظ سے ایک اعلیٰ شہر مانا جاتا ہے، خواتین کے لئے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ جبکہ اترپردیش میں جنسی زیادتی کے متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
مدھیہ پردیش بدنامی کے معاملے میں سر فہرست ہے۔ یہاں متاثرین کی تعداد5 ہزار 433ہے۔ پٹنہ جہاں سیاسی استحکام بھی ہے اور مافیا کے نام سے قتل عام ہیں ، وہاں فی ایک لاکھ کی آبادی میں قتل کی شرح 4.4ہے۔
تاہم بہار پولیس کا دعویٰ ہے کہ ریاست جنسی زیادتی سمیت رونما ہونے والے تمام قسم کے جرائم کی تعدادمیں کمی واقع ہوئی ہے۔
جہاں تک نقلی کرنسی کا تعلق ہے، اس ضمن اگر این سی آر بی کے اعداد و شمار کوہی دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نریندری مودی کا نومبر 2016 میں کی گئی نوٹ بندی کا اقدام بھی ناکام ہوگیا ہے۔
بعض ریسرچرس کے مطابق نوٹ بندی کے بعد پُراسرار لین دین کے معاملات میں 480فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے 2016 میں نوٹ بندی کے بعد 2ہزارو روپے کے نوٹ جاری کرنے کی وجہ سے جعلی کرنسی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ان کی گردش میں کمی ہوئی ہے لیکن اب نقلی کرنسی میں56فیصد 2ہزار روپے کے نوٹوں پر مشتمل ہے۔
ان ساری ناکامیوں کے باوجود ’کرائم اِن انڈیا‘ رپورٹ میں اصرار کیا گیا ہے کہ سال 2016 کے بعد جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
سال 2016 میں یہ 35 فیصد کم ہوا ہے۔ سال 2018میں جرائم کی شرح میں 388فی صد کی کمی بتائی جارہی ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بتائے جارہے اعداد و شمار کا باریکی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جرائم کا اندارج کرنے کا طریقہ کار بدلا گیا ہے اور وہی مجرم کا جرم درج کیا جاتا ہے جو کئی طرح کے جرائم میں ملوث ہو۔یعنی اسکے باقی جرائم جو نسبتاً کم نوعیت کے ہوتے ہیں، کا اندراج نہیں کیا جاتا ہے۔
اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ میسر اعداد و شمار ظاہر کم کرتے ہیں اور چھپاتے زیادہ ہیں۔ اور انہیں اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 18, 2020, 12:46 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.