غزہ اور اسرائیل کے سرحد پر ایک 28 سالہ فلسطینی نوجوان کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
غزہ کے صحت انتظامیہ کا کہنا ہے کہ غزہ اور اسرائیل سرحد پر ہفتہ واری احتجاج کے دوران اسرائیل کی جانب سے گولی باری کے نتیجے میں علا حمدان نامی نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق حمدان کو براہ راست فائرنگ کے دوران سینے میں گولی لگی تھی۔ فوری طور پر انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا، لیکن آخرکار ان کی موت ہو گئی۔
جنازے میں شریک لوگوں نے حمدان کی لاش کو 'بیت لحیہ' علاقے میں گشت کرایا، بعد ازاں ان کی تدفین کی گئی۔
رد عمل میں ہزاروں فلسطینی عوام نے اسرائیلی سرحد کے قریب احتجاج کیا۔ اس دوران مظاہرین نے ٹائر جلائے، اور اسرائیلی فوجیوں کی طرف پتھر بھی پھینکے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان ہمیشہ ہی تصادم کے حالات رہے ہیں۔ فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ان کی جد و جہد جاری رہے گی، جبکہ اسرائیل ان کارروائیون کو دفاعی کارروائی قرار دیتا رہا ہے۔
سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام سے ہی اس علاقے میں مزاحمتی سلسلہ جاری ہے۔ پہلی بار سنہ 1948 میں اسرائیل پر چند عرب ممالک کے ذریعہ حملہ کیا گیا، سنہ 1967 میں مصر، اردن، لبنان اور شام نے مشترکہ طور پر اسرائیل پر اسرائیل پر دوبارہ حملہ کیا، اسی طرح سنہ 1973 میں بھی مصر کی فوج نے اکتوبر ماہ میں اسرائیل پر حملہ کیا، لیکن ان تینوں حملوں میں اسرائیل نے اپنے حریف کو نہ صرف شکست دی بلکہ انہیں ان کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔
ان سب کے بعد مصر کو اس بات کا احساس ہوا کہ انہیں اسرائیل سے دشمنی ختم کر دینا چاہیے۔ آخرکار سنہ 1978 میں مصر کے موجودہ صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم میناکم بیگن نے امریکی صدر جمی کارٹر کی ثالثی میں دونوں ممالک کے درمیان امن کے لیے ایک معاہدہ کیا، جسے 'کیمپ ڈیوِڈ اِکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے مقبوضہ علاقوں سے دستبرداری کی بھی بات کہی تھی۔ اسی اقدام کے پیش نظر دونوں رہنماوں انور سادات اور میناکم بیگن کو مشترکہ طور پر امن کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے سنہ 1964 میں 'پی ایل او' نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی، اور سنہ 1967 کی جنگ کی شکست کے بعد یاسر عرفات نے دیگر عرب ممالک پر انحصار کیے بغیر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تشدد کے سہارے کوششیں شروع کر دی۔ اسی تشدد کی وجہ سے پی ایل او کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دے دیا گیا۔
یاسر عرفات کو سنہ 1978 میں 'کیمپ ڈیوڈ اکارڈ' سے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ اس معاہدے میں انور سادات نے فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق کوئی بات نہیں کہی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل اسرائیل پر مصر کے حملوں کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کی کوشش بتایا جاتا تھا۔
سنہ 1980 کے بعد جب یاسر عرفات کو احساس ہوا کہ تشدد سے فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے، تو انہوں نے تشدد کا راستہ ترک کے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
اسی دوران سنہ 1987 میں فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی مزاحمتی تحریک 'حماس' کی بنیاد شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ اس کا بنیادی مقصد غزہ اور مغربی اردن میں اسرائیلی قبضے کے خلاف کوشش اور اسرائیلی فوج کو فلسطین کی سرزمین سے باہر کرنا تھا۔
اس کے طویل المدتی مقاصد میں فلسطین کا ایک اسلامی ریاست کے طور پر قیام ہے۔
بالآخر سنہ 1993 میں امریکی صدر بل کلنٹن کی ثالثی میں یاسر عرفات اور اُس دور کے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جسے ' اوسلو اکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے کا مقصد ویسٹ بینک اور غزہ پٹی کے علاقوں کو بنیاد بنا کر فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ تاہم اس معاہدے کے ایک برس بعد اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو ہلاک کر دیا گیا۔ بالکل اسی طرح 'کیمپ ڈیوڈ اکارڈ' کے ایک برس بعد ہی مصری صدر انور سادات کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اُدھر فلسطینیوں کو محسوس ہونے لگا کہ یاسر عرفات نے پورے ملک کا مطالبہ نہ کر کے محض ایک چھوٹے سے حصے پر قناعت کر لیا ہے۔ اور اگر اس پر بھی عمل نہ ہو سکا تو فلسطینی عوام کی زبردست شکست ہو گی۔
بعد ازاں 'اوسلو اکارڈ' کے نفاذ کی متعدد کوششیں کی گئیں، اور اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی ایک ملک کے طور پر قبول کیے جانے یعنی 'ٹو نیشن تھیوری' کی کوششیں ہوئیں، لیکن سبھی کوششیں ناکام رہیں۔ آخر کار سنہ 2000 میں امریکہ، اسرائیل اور پی ایل او سبھی نے مشترکہ طور پر اس بات کو قبول کر لیا گیا کہ 'اوسلو اکارڈ' ناکام ہو گیا ہے۔
اس اعلان کے بعد ہی فلسطین کے کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے والے عام نوجوانوں نے ایک تحریک کی شروعات کی، جسے 'الانتفادہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تحریک کے تحت نوجوانوں نے 9 ماہ تک تشدد اور پتھر بازی کے سہارے اسرائیل پر دباو ڈالنے کی کوشش کی، تاکہ اسرائیل فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرے، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی، اور اس کوشش کے نتیجے میں بیشمار فلسطینی نوجوان اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
اسی دوران حماس نے سنہ 2004 میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے انتقال کے بعد سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور حکومت کی تشکیل کی حد تک نششتیں بھی حاصل کر لی، لیکن سنہ 2006 میں پی ایل او کی اتحادی سیاسی جماعت 'الفتح' اور حماس کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے، اور فلسطین کے موجودہ وزیر اعظم محمود عباس نے سنہ 2007 میں حماس کے جمہوری حکومت کو توڑ کر اپنی خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان کر دیا۔
دونوں کے درمیان اختلاف کے ازالے کے لیے متعدد کوششیں ہوئیں، لیکن ناکام رہیں،اور اس خانہ جنگی کے نتیجے میں فلسطیینیوں کے دو دھڑے بن گئے۔
تاہم حماس کی سیاسی اکائی سیاست میں حصہ لیتی رہی، اور جنگی اکائی مسلسل تشدد کے سہارے فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں کرتی رہی۔
سنہ 2014 میں پہلی بار فلسطینی وزیر اعظم محمود عباس نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دلانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح فلسطین دنیا کی واحد ایسی ریاست ہے، جس کے پاس نہ سرحد ہے اور نہ ہی زمین، لیکن اس کے باوجود اسے ایک ریاست کا درجہ حاصل ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 78 فیصد حصے پر فلسطین کی ریاست کا قیام ہو گا، لیکن اسرائیل کے مسلسل قبضے کے نتیجے میں چند علاقوں کے سوا فی الحال فلسطین کے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔ اقوام متحدہ کے 78 فیصد کے بجائے فلسطینی عوام محض 21 فیصد حصے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں، تاہم انہیں اس کے لیے بھی جانیں گنوانی پڑ رہی ہیں۔
جمعہ کے روز حمدان کی ہلاکت اسی مزاحمت کا حصہ تھی، جس کے لیے عام فلسطینی جد و جہد کرتے ہوئے ہلاک ہو رہے ہیں۔
غزہ میں حماس کے حکمرانوں کی جانب سے گذشتہ برس اسی سرزمین پر 12 سالہ اسرائیلی مصری ناکہ بندی کے خلاف احتجاج کی شروعات کی گئی تھی۔
اس مہم کے پہلے برس میں 2 سو سے زائد فلسطینی افراد، اور ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 2000 کے بعد سے اب تک حماس عسکریت پسند تشدد کے سہارے اپنی سر زمین اور مسجد اقصی کی حفاظت کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ یاسر عرفات کی طرح حماس کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ انہیں تشدد کا راستہ چھوڑ کر پُر امن طریقے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنی چاہیے۔
تاہم سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پشت پناہی کے سبب اسرائیل نے تل ابیب سے اپنا دارالحکومت مشرقی یروشلم منتقل کر کے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، حالانکہ اسے بین الاقوامی سطح پر منظور نہیں دی گئی ہے۔
ایسے میں حماس کب پر امن راستے کو اختیار کر کے مسائل کو حل اور مسجد اقصی کے تحفظ کی کوششیں شروع کرتا ہے، یہ دیکھنے والی بات ہو گی۔