حیدرآباد: سال 2023، فلسطین پر کئی دہائیوں سے جاری اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کی بھیانک کہانی کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے۔ عالمی جنگوں کے بعد تاریخی نسل کشی کا منصوبہ بنانے کے لیے صیہونی ریاست نے اپنے اثر و رسوخ، ٹیکنالوجی اور طاقت کو پورے یورپ میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ غزہ کی پٹی، جسے 'دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل' کہا جاتا ہے، زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔ صرف 41 کلومیٹر لمبی اور 6 سے 12 کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر تقریباً 20 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔
سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والی فلسطینی اسلامی تحریک حماس نے اسرائیل پر اچانک ایک غیر معمولی حملہ کیا۔ حماس کے عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل میں گھس کر قریبی آبادیوں میں تباہی مچا دی۔ حماس کے مسلح کارکنان نے اسرائیل میں گھس کر حملہ کیا، جس سے سرحدی قصبوں میں کئی سو افراد ہلاک ہوئے۔ ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی شہریوں بشمول خواتین، چھوٹے بچوں اور بوڑھوں کو یرغمال بنا کر غزہ کی سرحد کے پار لے جا رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حماس نے تقریباً 240 افراد کو اغوا کیا۔
اسرائیلی رپورٹس کے مطابق، اس حملے کے نتیجے میں تقریباً 1140 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ (اسرائیل نے حملے کے بعد ابتدائی چند ہفتوں تک دعویٰ کیا کہ 1400 افراد ہلاک ہوئے لیکن بعد میں یہ تعداد کم کر کے 1147 کر دی گئی۔)
- غزہ پر آگ کی بارش
اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنہیں بدعنوانی کے الزامات اور غیر یقینی سیاسی مستقبل کا سامنا تھا، نے حماس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل نے غزہ پر اندھادھند بمباری شروع کر دی، اگلے کئی ہفتوں تک شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جب کہ پہلے سے محصور غزہ کے مکمل محاصرے کا حکم دے دیا، حتیٰ کہ پانی، بجلی اور خوراک کی سپلائی تک منقطع کر دی گئی اور غزہ کی پوری آبادی، جن میں سے نصف کی عمر 18 سال سے کم ہے، کو بنیادی طبی سہولیات اور ہسپتال کی تباہی اور خوراک اور پانی کے کم ہوتے ذخائر کے ساتھ وحشیانہ حملے کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
اسرائیل کی فضائی مہم غیر معمولی طور پر شدید رہی، جس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ دی اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست نے غزہ پر فضا سے زمین پر 29,000 بم گرائے جو کہ روزانہ تقریباً 500 بموں کے برابر ہے۔
جس چیز نے بے مثال بمباری کو مزید مہلک بنا دیا وہ یہ تھا کہ ان 29,000 بموں میں سے کم از کم 40 فیصد ان گائیڈڈ بم تھے۔ انہیں "گونگا" بم بھی کہا جاتا ہے۔ ہدف تک پہنچنے کے لیے ان کی درستگی کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے شہری اور عوامی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔
- اسرائیل کا زمینی حملہ
غزہ کے بیشتر حصے کو فضائی حملوں سے کھنڈر اور دھول میں تبدیل کرتے ہوئے اسرائیل نے 27 اکتوبر کو ٹینکوں، بلڈوزروں اور پیادہ دستوں کے ساتھ پٹی پر بڑے پیمانے پر زمینی حملہ بھی شروع کیا۔
نیتن یاہو، جو اس وقت تک اپنے قابل اعتماد اتحادیوں کی حمایت سے خوش تھے، نے اعلان کیا کہ زمینی حملے کا مقصد "حماس کو تباہ کرنا اور غزہ کی پٹی پر اس کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔" انہوں نے زمینی حملے کو حماس کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہ قرار دیا۔
- ہلاکتیں اور تباہی
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں اب تک 20000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد کم سے کم ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ غزہ میں 8 ہزار سے زیادہ لوگ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، نیز اس جنگ میں اب تک 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق سات اکتوبر سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 40,000 سے زیادہ عمارتیں (تمام ڈھانچوں کا 18%) تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔
- بھوک سے بلکتے لوگ
اسرائیل نے غزہ میں جنگ شروع کرتے ہی مکمل ناکہ بندی اور محاصرے کا اعلان کیا۔ ویسے تو یہ خطہ تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کے محاصرے میں ہے لیکن جنگ کے بعد اسرائیل نے اس پٹی میں ضروری انسانی امداد کا داخلہ بھی بند کر دیا جس کی وجہ سے غزہ کے عام شہری بچے اور خواتین بھوک سے بلکتے نظر آر ہے ہیں۔ خطے کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ان کے پاس نہ رہنے سونے کی جگہ ہے اور نہ کھانے پینے کے سامان۔ انتہائی بنیادی ضروریات اور طبی سہولیات سمیت تمام طرح کی انسانی امداد اسرائیل نے روک رکھی ہے جس کی وجہ سے اس پٹی میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا انسانی بحران سنگین صورت حال اختیار کر گیا ہے۔ حالانکہ 24 نومبر کو شروع ہوئی ہفتے بھر کی جنگ بندی کے دوران اسرائیل نے محدود پیمانے پر انسانی امداد کی اجازت دی تھی حالانکہ عالمی اداروں نے اس امداد کو بھی ضرورت کے مقابلے میں انتہائی کم یعنی اونٹ کے منہ میں ذیرہ قرار دیا۔ وہیں دوبارہ جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیل نے اسے ایک بار پھر بند کر دیا اور اب وقتاً فوقتاً کچھ ہی امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے رہا ہے۔ انسانی امداد کی روک تھام پر اسرائیل کی عالمی سطح پر مخالفت اور مذمت کی جا رہی ہے۔
- عالمی ردعمل
اسرائیل کے مغربی اتحادیوں جیسے امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور مختلف یورپی ممالک نے حماس کے حملے کی مذمت کی اور تل ابیب کے "دفاع کے حق" کی اٹوٹ حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس مسلم دنیا کے ممالک بشمول مزاحمتی تنظیموں کے اتحاد نے فلسطینیوں کی حمایت کی۔ اسلامی دنیا میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو تشدد کی اس تازہ لہر کی وجہ اور اسے تنازع کی جڑ سمجھا جاتا ہے جب کہ مغربی ممالک ہر صورت میں یہودی ریاست کے دفاع اور اس کے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے بضد ہیں۔ مغربی ممالک اپنے موقف میں توازن دکھانے کے لیے کبھی کبھار فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی بات کرتے ہیں لیکن اس سمت میں کبھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتے۔
- ہسپتالوں پر اسرائیل کی بمباری
اسرائیل نے اس جنگ میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، غزہ میں طبی سہولیات کو نشانہ بنایا تاکہ اس سانحے کو مزید سنگین بنایا جا سکے کیونکہ لاکھوں بے گھر شہریوں نے اپنی جان بچنے کے لیے ہسپتالوں میں پناہ لی۔ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے متعدد ہسپتالوں پر بمباری کی، ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس، مریضوں کو ہلاک کیا، سینئر طبی ماہرین کو گرفتار کیا، جب کہ دعویٰ کیا کہ حماس ہسپتالوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے 17 دسمبر کو جاری کردہ تازہ ترین بیان کے ساتھ اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے متعدد بیانات جاری کیے۔
اس میں، ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اس کے عملے نے 16 دسمبر کو شمالی غزہ کے الشفا ہسپتال میں اقوام متحدہ کے ایک مشترکہ مشن میں حصہ لیا تاکہ طبی سہولیات کی فراہمی اور صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے الشفا میں ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی صورت حال کو "خون کی ہولی" قرار دیا، جہاں سینکڑوں زخمی مریض فرش پڑے تڑپ رہے تھے اور ہسپتال میں ان کے درد اور صدمے کے علاج کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس پر بھی ہر منٹ پر سینکڑوں مریض آ رہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے عملے کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ اتنا بھرا ہوا ہے کہ فرش پر مریضوں پر قدم نہ رکھنے کے لیے احتیاط برتنی پڑتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے بیان میں کہا کہ کبھی غزہ کا سب سے اہم اور سب سے بڑا ریفرل ہسپتال، الشفا، اب صرف چند ڈاکٹروں اور چند نرسوں کے ساتھ 70 رضاکاروں کے ساتھ کام کر رہا ہے، جہاں کے حالات کو ڈبلیو ایچ او کے عملے نے "ناقابل یقین حد تک مشکل" کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ایک "ہسپتال جس میں بحالی کی ضرورت ہے۔" اس وقت، العہلی عرب ہسپتال شمالی غزہ کا واحد جزوی طور پر فعال ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ تین دیگر ہسپتال الشفاء، العودہ اور الصحابہ میڈیکل کمپلیکس برائے نام ہی فعال ہیں۔
- ہفتے بھر کی جنگ بندی اور یرغمالیوں کا بحران
بنیادی طور پر قطر کی ثالثی کی کوششوں کے بعد، اسرائیل اور حماس نے ایک ہفتہ طویل جنگ بندی پر اتفاق کیا جو 24 نومبر کو شروع ہوئی اور یکم دسمبر کو ختم ہو گئی، جس کے دوران حماس نے 80 اسرائیلیوں سمیت 105 یرغمالیوں کو رہا کیا، جب کہ اسرائیل نے 107 بچوں سمیت 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔ آزاد کیے گئے زیادہ تر فلسطینیوں کو کسی جرم میں سزا نہیں ملی تھی۔
جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے فوراً بعد اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کر دی جس سے پہلے 24 گھنٹوں میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہو گئے۔ جب کہ قطر اور مصر نے جنگ بندی کو بحال کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ وہیں اسرائیل "حماس کو تباہ" کرنے کے عزم کا اعادہ کرتا رہا۔
اس کے درمیان، آٹھ دسمبر کو، اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد امریکہ کے ویٹو کرنے کے بعد ناکام ہو گئی۔ اس قرارداد کے حق میں 13 ارکان تھے، برطانیہ غیر حاضر رہا جب کہ واحد امریکہ نے ا کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق، سلامتی کونسل یہ ووٹنگ سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے چھ دسمبر کو لکھے گئے خط کے بعد ہوئی، جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق "سیکرٹری جنرل ایسے کسی بھی معاملے پر سلامتی کونسل کی توجہ دلوا سکتے ہیں جو ان کی رائے میں بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
- اسرائیل ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر
جنگ بندی کے مطالبات ناکام ہونے کے بعد، اس دوران اسرائیلی فوج نے "غلطی سے" تین اسرائیلی یرغمالیوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی جس سے اسرائیل کے اتحادیوں میں واضح طور پر بے چینی دیکھنے کو ملی۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل ایک بار پھر حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہے۔