ETV Bharat / international

US Supreme Court on Abortion: امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے آئینی تحفظ کو ختم کردیا

امریکی سپریم کورٹ کے ایک تاریخی فیصلے نے اسقاط حمل Abortion کے لیے آئینی تحفظ کو ختم کردیا ہے جو تقریباً 50 سال سے رائج تھا اور اب ریاستوں کو اس پر قانون بنانے کا اختیار دیا ہے۔ اس فیصلے سے کروڑوں امریکی خواتین اسقاط حمل کے اپنے حق سے محروم ہو سکتی ہیں۔ US Supreme Court on Abortion

author img

By

Published : Jun 25, 2022, 5:23 PM IST

US Supreme Court removes constitutional right to abortion
امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے آئینی تحفظ کو ختم کردیا

واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ نے 24 جون کو روے اور ویڈ Roe v. Wade کیس میں 50 برس پرانے اپنے ہی فیصلے کو پلٹتے ہوئے اسقاط حمل Abortion کے لیے دیے جانے والے آئینی تحفظ کو منسوخ دیا ہے۔ جمعہ کو آنے والے اس فیصلے سے تقریباً نصف ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی لگنے کی امید ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔US Supreme Court on Abortion سپریم کورٹ کے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کے بعد کئی امریکی ریاستوں میں اس شعبے میں کام کرنے والے کلینک بند ہونا شروع ہو گئے اس کے علاوہ اب تک ایک درجن سے زیادہ امریکی ریاستیں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔

دراصل امریکی سپریم کورٹ ریاست میسسیپی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کی جس کیس میں حمل ٹھہرنے کے پندرہ ہفتے بعد اسقاط حمل کروانے پر پابندی تھی اور اسی پابندی کو چیلینج کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنا تاریخی فیصلہ اسی مقدمے کی سماعت کے بعد سنایا۔ سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ میں سے چھ نے یہ فیصلہ سنایا کہ امریکی آئین اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا۔ اس کے بر عکس تین ججوں کا یہ کہنا تھا کہ امریکی آئین ملکی خواتین کو اسقاط حمل کا حق دیتا ہے۔

US Supreme Court removes constitutional right to abortion
سپریم کورٹ کے فيصلے کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سميت کئی شہروں ميں احتجاجی مظاہرے

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پچاس برس پرانے 1973 میں روے اور ویڈ Roe v. Wade نامی مقدمے میں اپنے ہی اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس پر عمل بھی ہوتا آ رہا تھا تاہم اسی عدالت نے جمعے کے روز اپنا یہ فیصلہ منسوخ کر دیا۔1973 کے فیصلے کے تحت خواتین کو حمل کے پہلے تین ماہ کے اندر اندر اسقاط حمل کا مکمل حق حاصل تھا لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد تین سے چھ ماہ کے دوران اسقاط حمل کے لیے چند سخت شرائط کے تحت اجازت تھی جبکہ حمل کی تیسری اور آخری سہ ماہی کے دوران اسقاط حمل پر مکمل پابندی عائد تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

ارجنٹینا میں 'اسقاط حمل' بل منظور

پولینڈ: اسقاط حمل پر پابندی کے عدالتی فیصلے کے خلاف زبردست احتجاج

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے امریکہ کے لیے افسوسناک دن اور سپریم کورٹ کے قدامت پسند ججوں کو انتہا پسند قرار دیا۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اسقاط حمل کے حق کے تسلسل کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض دیگر عہدیداروں نے امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

فیصلے کے مخالفین نے کا کہنا ہے کہ امریکی معاشرہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی پسند سمجھا جاتا ہے، جہاں خواتین کو اسقاط حمل کروانے میں کوئی اعتراض نہیں، بلکہ وہ اسے اپنا بنیادی اور آئینی حق سمجھتی ہیں اور اسے پورا یقین تھا کہ کوئی قانون بنا کر اس سے یہ حق چھین نہیں سکتا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں سے لے کر خواتین کی تنظیموں تک، وہ آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑک پر آگئیں ہیں اور اس فيصلے کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سميت کئی شہروں ميں احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہو گئے ہیں۔

واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ نے 24 جون کو روے اور ویڈ Roe v. Wade کیس میں 50 برس پرانے اپنے ہی فیصلے کو پلٹتے ہوئے اسقاط حمل Abortion کے لیے دیے جانے والے آئینی تحفظ کو منسوخ دیا ہے۔ جمعہ کو آنے والے اس فیصلے سے تقریباً نصف ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی لگنے کی امید ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔US Supreme Court on Abortion سپریم کورٹ کے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کے بعد کئی امریکی ریاستوں میں اس شعبے میں کام کرنے والے کلینک بند ہونا شروع ہو گئے اس کے علاوہ اب تک ایک درجن سے زیادہ امریکی ریاستیں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔

دراصل امریکی سپریم کورٹ ریاست میسسیپی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کی جس کیس میں حمل ٹھہرنے کے پندرہ ہفتے بعد اسقاط حمل کروانے پر پابندی تھی اور اسی پابندی کو چیلینج کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنا تاریخی فیصلہ اسی مقدمے کی سماعت کے بعد سنایا۔ سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ میں سے چھ نے یہ فیصلہ سنایا کہ امریکی آئین اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا۔ اس کے بر عکس تین ججوں کا یہ کہنا تھا کہ امریکی آئین ملکی خواتین کو اسقاط حمل کا حق دیتا ہے۔

US Supreme Court removes constitutional right to abortion
سپریم کورٹ کے فيصلے کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سميت کئی شہروں ميں احتجاجی مظاہرے

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پچاس برس پرانے 1973 میں روے اور ویڈ Roe v. Wade نامی مقدمے میں اپنے ہی اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس پر عمل بھی ہوتا آ رہا تھا تاہم اسی عدالت نے جمعے کے روز اپنا یہ فیصلہ منسوخ کر دیا۔1973 کے فیصلے کے تحت خواتین کو حمل کے پہلے تین ماہ کے اندر اندر اسقاط حمل کا مکمل حق حاصل تھا لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد تین سے چھ ماہ کے دوران اسقاط حمل کے لیے چند سخت شرائط کے تحت اجازت تھی جبکہ حمل کی تیسری اور آخری سہ ماہی کے دوران اسقاط حمل پر مکمل پابندی عائد تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

ارجنٹینا میں 'اسقاط حمل' بل منظور

پولینڈ: اسقاط حمل پر پابندی کے عدالتی فیصلے کے خلاف زبردست احتجاج

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے امریکہ کے لیے افسوسناک دن اور سپریم کورٹ کے قدامت پسند ججوں کو انتہا پسند قرار دیا۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اسقاط حمل کے حق کے تسلسل کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض دیگر عہدیداروں نے امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

فیصلے کے مخالفین نے کا کہنا ہے کہ امریکی معاشرہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی پسند سمجھا جاتا ہے، جہاں خواتین کو اسقاط حمل کروانے میں کوئی اعتراض نہیں، بلکہ وہ اسے اپنا بنیادی اور آئینی حق سمجھتی ہیں اور اسے پورا یقین تھا کہ کوئی قانون بنا کر اس سے یہ حق چھین نہیں سکتا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں سے لے کر خواتین کی تنظیموں تک، وہ آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑک پر آگئیں ہیں اور اس فيصلے کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سميت کئی شہروں ميں احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہو گئے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.