واشنگٹن: 7 اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے کا پردہ فاش کرنے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی کے بعد امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ امریکہ نے 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد سے حماس تحریک کی جاسوسی بند کر دی تھی اور یہ کام اسرائیلی سکیورٹی سروسز کو سونپ دیا تھا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد کے سالوں میں حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کی جاسوسی روک دی اور اس کے بجائے القاعدہ اور بعد میں آئی ایس آئی ایس کے رہنماؤں کا تعاقب کرنے کے لیے وسائل خرچ کئے۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے وضاحت کی کہ واشنگٹن نے اندازہ لگایا کہ حماس نے کبھی بھی امریکہ کو براہ راست دھمکی نہیں دی تو اس نے حماس کی ذمہ داری اسرائیل کو سونپ دی۔ واشنگٹن کو یقین تھا کہ اسرائیل کی سکیورٹی سروسز کسی بھی خطرے کا پتہ لگا لیں گی۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق انسداد دہشت گردی کے ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ یہ ایک اچھی شرط ہونی چاہیے تھی۔
واضح رہے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد سے 30 سے زائد امریکیوں کی ہلاکت اور 10 کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جنگ کو 26 روز مکمل ہوگئے ہیں۔ بعض امریکی حکام نے کہا کہ واشنگٹن نے خطرے کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ اپنی طرف سے دہشت گردی سے نمٹنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے سی آئی اے کے ایک ریٹائرڈ آپریشنز آفیسر مارک پولیمیرو پولوس نے کہا کہ زیادہ تر ناکامیاں اسرائیل کے کندھوں پر آتی ہیں لیکن کچھ الزام امریکہ پر بھی عائد ہوتاہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکہ، اسرائیل کی فوجی امداد میں مزید اضافہ کرے گا
موجودہ اور سابق عہدیداروں نے رپورٹ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی قیادت سی آئی اے کے پاس حملوں سے قبل غزہ کی پٹی میں ہونے والے واقعات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی ایک چھوٹی سی تعداد تھی لیکن انہوں نے اسرائیل پر انحصار کیا کہ وہ انسانی ذرائع سے حماس میں دراندازی کرے اور اس گروپ کی خفیہ ٹیکنالوجی سے نگرانی کرے۔ دریں اثنا بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے بتایا کہ اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس نے حماس کے خفیہ حملے کے بارے میں خبردار نہیں کیا تھا۔