امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ آزاد تفتیش کار الجزیرہ کی صحافی شیرین ابو عاقلہ Journalist Shireen Abu Akleh کو مارنے والی گولی کی اصلیت کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ اس کی موت کے لیے ممکنہ طور پر ذمہ دار تھی۔ US on Slain Al Jazeera journalist
محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق بیلسٹک ماہرین ( اسلحہ کی جانچ کرنے والی ٹیم) نے طے کیا کہ گولی بری طرح سے خراب ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے کوئی واضح نتیجہ نہیں نکل سکا"۔ امریکی سکیورٹی کوآرڈینیٹر نے، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کی تحقیقات کا انکشاف کرتے ہوئے پیر کے روز یہ بھی کہا کہ تفصیلی فرانزک تجزیے میں یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے کہ فائرنگ جان بوجھ کر کی گئی تھی۔
فارنزک جانچ میں ابو عاقلہ کی ہلاکت کے بارے میں کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہنے پر ایک سینیئر فلسطینی اہلکار نے الزام لگایا کہ امریکہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ جب کہ فلسطینی حکام، اور بہت سے حقوق کے گروپ اور میڈیا ادارے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ الجزیرہ کی صحافی ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج نے ہی ہلاک کیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اس کے پاس جمع کی گئی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو عاقلہ کو جس گولی سے ہلاک کیا گیا وہ اسرائیلی فورسز کی طرف سے چلائی گئی تھی۔ کئی عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے یروشلم میں پیدا ہونے والی ابو عاقلہ کو ہلاک کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
Journalist Shireen Abu Akleh: الجزیرہ کی صحافی کو لگنے والی گولی امریکا کے حوالے کر دی گئی، فلسطین
قابل ذکر ہے کہ الجزیرہ کی فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کو ہلاک کرنے والی گولی مئی میں تحقیقات کے لیے امریکی ٹیم کے حوالے کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق فلسطینی اٹارنی جنرل اکرم الخطیب نے بتایا کہ گولی اسرائیلی حکام کو نہیں دی جائے گی کیونکہ فلسطینی حکام نے اسے امریکا کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ یروشلم میں پیدا ہونے والے الجزیرہ کی 51 سالہ صحافی شرین ابو عاقلہ کو 11 مئی کو اس وقت سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جب وہ شمالی مغربی کنارے میں جینین پناہ گزین کیمپ میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی تھی۔