امریکی قانون ساز الہان عمر US lawmaker Ilhan Omar نے کانگریس میں ایک قرارداد پیش کی ہے، جس میں محکمہ خارجہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دے۔ الہان عمر ڈیموکریٹک کی رکن ہیں اس قرار داد کو آل ڈیموکریٹ نمائندے راشدہ طلیب، جم میک گورن اور جوآن ورگاس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ الہان عمر اور راشدہ طلیب کانگریس میں پہلی مسلم امریکی خواتین ہیں اور وہ دونوں دیگر مسائل کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور ان کو درپیش چیلنجز پر دنیا کی توجہ مرکوز کراتی رہتی ہیں۔Anti India Resolution in Congress
بدھ کو پیش کی گئی بھارت مخاف قرارداد میں سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بھارت کو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت امریکہ کی طرف سے پیش کی جانے والی درجہ بندی میں 'خصوصی تشویش کا ملک' کے طور پر نامزد کریں۔
الہان عمر نے کہا، "مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بھارتی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں کے خلاف جابرانہ پالیسیاں بڑھا رہی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھارت کے موقف کی حقیقت کو تسلیم کرے اور اس ملک کو باضابطہ طور پر خصوصی تشویش والے ملک کے طور پر نامزد کرے۔"
یہ بھی پڑھیں: International Religious Freedom Reports: بھارت میں لوگوں اور مذہبی مقامات پر حملوں میں اضافہ، امریکی وزیر خارجہ
الہان عمر کی قرار داد امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی ایک حالیہ رپورٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، جو کہ کانگریس کی طرف سے قائم کی گئی ایک سرکاری ایجنسی ہے، قرارداد میں بار بار رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔رپورٹ میں محکمہ خارجہ سے بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے کی بھی سفارش کی گئی۔ لیکن سفارش قبول نہیں کی گئی۔
دراصل امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی پر پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کے متعلق کہا تھا کہ 2021 میں بھارت میں اقلیتی برادریوں اور مذہبی مقامات پر سال بھر حملے کیے گئے، جن میں قتل اور دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: MEA over US Senator Visit to POK: وزارت خارجہ کو امریکی سینیٹر الہان عمر کے دورۂ کشمیر پر اعتراض
ماضی میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بھارتی حکومت کے فیصلوں پر بھی الہان عمر اپنی آواز بلند کرچکی ہیں اور اپریل میں انھوں نے پاکستان کا بھی دورہ کیا تھا اور اس دوران عمر نے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا بھی دورہ کیا اور وہاں قیام کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مودی انتظامیہ کی مسلم مخالف بیان بازی کے بارے میں بات کی۔
بھارت نے اس دورے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور بھارتی وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’’ہم نے دیکھا ہے کہ امریکی نمائندے الہان عمر نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ایک حصے کا دورہ کیا ہے، جو اس وقت غیر قانونی طور پر پاکستان کے قبضے میں ہے، اگر اس طرح کی سیاست دان اپنے گھر میں اپنی تنگ نظر سیاست چلاتی ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے لیکن اس کام کے لیے اگر وہ ہماری علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہ قابل مذمت ہے۔